• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات کے دوران دہشت گردی اور قتل و غارت کے واقعات بعض دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران مستونگ، پشاور اور مردان میں جو کچھ ہوا اس کی دنیا بھر میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ان اندوہناک واقعات میں تقریباً دو سو بے گناہ افراد کی جانیں چلی گئیں۔ شہدا میں سیاسی ورکروں کے علاوہ ملک کے دو اہم سیاسی خانوادوں کے ممتاز لیڈر اور انتخابی امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی اور ہارون بلور بھی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے تیسرے امیدوار سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی بال بال بچ گئے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ چمن میں اے این پی کے سابق سینٹر اور انتخابی امیدوار دائود خان اچکزئی کے حجرے پر حملہ ہے جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ یہ افسوسناک واقعات حساس خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے انتخابی جلسے جلوسوں اورکارنر میٹنگز کو لاحق خطرات کے بارے میں پیشگی جاری ہونے والے سکیورٹی الرٹ، اہم شخصیات کو نشانہ بنائے جانے کی وارننگ اور نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے فول پروف سکیورٹی انتظامات کے دعوئوں کے باوجود وقوع پزیر ہوئے جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی پر دلالت کرتے ہیں۔ مستونگ، پشاور اور بنوں کے خونین سانحات پر اتوار کو ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا سیاہ پرچم لہرائے گئے، اور شہدا کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے متاثرہ خاندانوں سے اظہار یک جہتی کے لئے اس روز اپنی انتخابی مہم معطل رکھی، کوئٹہ میں نگران وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سول و فوجی حکام کا اجلاس ہوا جس میں امن و امان کی صورت حال کا تفصلی جائزہ لیا گیا وزیراعظم نے ہدایت کی کہ امیدواروں اور ان کے جلسوں کی سکیورٹی مزید سخت کی جائے آئندہ ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیوں سے رابطے کئے جائیں اوران کی قیادت کو اعتماد میں لے کر سکیورٹی انتظامات کو موثر بنایا جائے سانحہ مستونگ جس میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، کی تحقیقات کے لئے مقامی تحصیلدار کو تفتیشی افسر مقرر کردیا گیا ہے اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ 24گھنٹے میں سامنے آجائے گی۔ یہ اچھا اقدام ہے مگر زیادہ بہتر ہوتا کہ بعد میں تفتیش و تحقیقات میں پھرتی دکھانے کی بجائے پیشگی اقدامات کر کے اس المناک واقعہ کو روک دیا جاتا، لگتا ہے نگران حکومتوں نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے احتیاطی منصوبہ بندی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ سیاسی جماعتوں کو بھی وقتاً فوقتاً خطرے والے مقامات پر انتخابی مہم سے روکنے کے انتباہ جاری کئے گئے مگر ایک دو کے سوا کسی وارننگ کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ انتخابی مہم کے جو باقی دن رہ گئے ہیں ان میں انسانی جانوں کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لئے ایسی ہدایات پر عمل ضروری ہے۔ انتخابی مہم چلانے کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا اس میں دوسری باتوں کے علاوہ مخالفین کے خلاف اشتعال دلانے والی زبان استعمال کرنے سے بھی روکا گیا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوا جس سے انتخابات کے آخری دنوں میں سیاسی کشیدگی ذاتیات کی سطح پر پہنچ چکی ہے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی خواہشمند قوتیں اس سے فائدہ اٹھا کر فتنہ و فساد پھیلا سکتی ہیں خدشہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعد دہشت گرد سندھ میں داخل ہو سکتے ہیں اور پنجاب میں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے جس سے پورا انتخابی عمل متاثر ہوگا اسلئے ضروری ہے کہ امیدواروں اور انتخابی جلسے جلوسوں کی حفاظت پر زیادہ توجہ دی جائےیہ شکایت بھی دور کی جائے کہ سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے اور بعض کو بعض پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کو پرامن غیر متنازع اور صاف و شفاف بنانا حکومت اور الیکشن کمیشن کا بنیادی فرض ہے۔ اس سلسلے میں یقیناً بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں مگر زمینی حقائق کے مدنظر ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے سیاسی پارٹیوں کو بھی ایسی روش نہیں اپنانی چاہیئےجس سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھیں اور سیاسی بحران پیدا ہو۔

تازہ ترین