• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزرہ عشرہ جمہوریت (2008-18)اگرچہ بدترین جمہوریت کا عشرہ تھا اور اسی حیثیت سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جگہ بنائے گا، لیکن صرف اسی تشخص کے ساتھ ہی نہیں عشرے کی یہ پہچان تو دو روایتی سیاسی جماعتوں کے انداز ہائے حکمرانی کے حوالے سے ہو گی۔دوسرا اور انتہائی خوش کن اور دلچسپ پہلو (عشرے کا )تاریخ میں یہ ہو گا کہ یہ پاکستان میں مطلوب ’’آغاز احتساب‘‘ کا عشرہ مانا جائے گا جس کی بڑی اور جاری و ساری رہنے والی (Sustainable)پیش رفت یوں ہوئی کہ آزاد عدلیہ، احتساب و انسداد کرپشن کو اپنا مستقل ایجنڈا بنانے والے میڈیا اور کھلاڑی سے جنونی سیاست دان بننے والے نے، پی پی ،ن لیگ اور خفیہ اداروں کے 40سال میں بنائے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بڑی شدت اور جرات سے چیلنج کر دیا ۔جس نے پوری قوم کو نیا شعور دیا پھر مدد خدا شامل حال ہو گئی۔پانامہ لیکس کا دھماکہ اور اس کے تناظر میں سزایافتہ وزیر اعظم کا کیس کو ازخود سپریم کورٹ کے سپرد کرنا (اور اس کے ابتدائی نتیجے کو بخوشی تسلیم کرنا )پاکستان میں جاری و ساری (Sustainable)اور نتیجہ خیز احتسابی عمل نکتہ آغاز ثابت ہوا ۔
اس پس منظر میں ایجنسیوں، ٹیکس چور اور قرض خور، تاجروں اور صنعت کاروں، مفاد پرست رائٹ، سماجی پسماندگی اور دیوار برلن کے گرتے ہی پلٹا کھائے لیفٹ، تھانہ کچہری کے روایتی نظام اور چاپلوس حکومتی بینی فشریز کے ملغوبے سے ’’عوامی سیاسی طاقت ‘‘ میں ڈھل جانے والا اب تحلیل ہوتا حکمران خاندان آج جس اذیتناک صورتحال سے دوچار ہے وہ پاکستانی قومی سیاسی تاریخ کا سبق عظیم ہے ۔اور اس سے آگے اسیرشریف خاندان کی موجود کیفیت ،عبرت، المیے ،افسوس، پچھتاوے، انتہا کی لالچ اور خود غرضی کے انتہائی نتائج اور سب سے بڑھ کر تبدیلی کے عمل مسلسل کا ساماں لئے ہوئے ہے ۔برصغیر ہی نہیں شاید جدید عالمی تاریخ میں پاکستان کے شریف خاندان سے بڑھ کر کوئی اور خوش قسمت اور بدقسمت ترین سیاسی خاندان نہ ہو ۔جو پاکستان کو حقیقتاً کہاں کا کہاں لے جا سکتا تھا لیکن اس نےاپنے آخری دور میں پاکستان کو زمین سے لگا دیا، ہماری موجود قومی اقتصادی کیفیت اور سماجی پسماندگی کے تمام اشارے جتنے مستند ہیں اتنا ہی مصدقہ، اس صورتحال بنانے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی بدترین جمہوریت اور گورننس کی حامل آخری حکومتوں کا کردار ہے ۔جنہوں نے پاکستان کے تقریباً ہر ادارے پر نااہل اور چاپلوس سربراہ مسلط کرکے انہیں کرپشن اور لاقانونیت کا ذریعہ بنا کر برباد کر دیااور محسن حکمرانوں کی جڑوں میں بیٹھ گئے ۔اس سے بڑھ کر تباہی اور کیا ہو گی گندگی و غلاظت میں گھری اٹی کروڑہا پاکستانیوں کی بستیاں ہی نہیں شہر کے شہر پینے کے صاف اور مطلوب مقدار میں پینے کے قابل پانی کو ترس گئے ۔
پاکستان کی یہ بدترین صورتحال کیسے بدلے گی؟ یہ کوئی سیاسی بیانیہ ہی نہیں نہ ہی انتخابی مہم کا نعرہ، پورے زیر بحث عشرے (2008-18)میں اس تشویشناک صورتحال کا فوری حل، کڑے احتسابی عمل اور ’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ مختلف بیانیوں تجزیوں، خصوصاً میڈیا کے ایجنڈے اور اس سے تیار ہونے والی طاقتور رائے عامہ کی شکل میںواضح ہوتا رہا جسے حکمرانوں نے (نام نہاد) ترقی سے دشمنی قرار دے دیاحالانکہ اس میں اتنی جان ہے کہ پی پی تو نہیں، ن لیگ کے سیاسی ابلاغ پر مشتمل میڈیا آر کائیو سے وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ایسے کتنے ہی بیانات نکال کر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ موجودہ نظام گل سڑ گیا ہے اور اسٹیٹس کو خونی انقلاب کا باعث بن سکتا ہے لیکن میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، جیسےانقلابی نغموں میں محکموں کے نیچے کرپٹ کمپنیاں بننے کا دھندہ چلتا رہا اور ن لیگ کے آخری دو سال میں منکشف ہوتا گیا کہ ملک میں تو کمپنیوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے جو ’’جمہوری کرپٹ نظام‘‘ کا شاہکار ماڈل ہے ۔حتیٰ کہ پانامہ کھلنے اور احتسابی عمل شروع ہونے کے بعد کرپشن کا دھندہ بے دردی سے جاری رہا۔نیب کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں کہا ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے عدالت عظمیٰ میں ہی کہا پینے کے پانی کے لئے مختص 4ارب روپے میں سے ایک بوند پانی کی سپلائی نہیں ہوئی اب اس کو یا تو احتسابی عمل کے متوازی جاری بدترین کرپشن سمجھا جائے؟یا بدترین انداز حکمرانی ؟ تیسرا کچھ اور ہے تو شین لیگ کے سربراہ انتخابی مہم میں اس کا جواب دے دیں۔شاید ہم جلے کٹوں کی ہی کوئی اصلاح ہو جائے ۔
قارئین کرام ! یہ ہے وہ صورتحال جس میں تباہی کے دہانے پر کھڑا پاکستان ثابت شدہ مددخدا، قوم کے بڑے حصے کے نئے عزائم اور تازہ ذہنی نئی تمنائوں اور امیدوں سے آئین و قانون کی بالادستی، ووٹرز کے احترام و عزت والے (آئین کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی شکل) پاکستان کی جانب ابتدائی قدم اٹھا چکا ہے ۔
متذکرہ بنتے قومی سیاسی منظر کے متوازی ایک طرف تو پاکستان کے بیرونی دشمن انتخابی مہم کو لہو لہو کرکے اس پر حملہ آور ہیں دوسری جانب حکمرانی کی دھما چوکڑی سے غیر معمولی روزگار کے متلاشی اور حاصل کرنے والے بھی انتخابی مہم کو متنازع اور مشکوک بنانے کے لئے کمرکس رہے ہیں۔اب جبکہ گائوں ،گوٹھ، گلی محلوں اور قصبوں میں تبدیلی کے جھونکے چلنے لگے ہیں پاکستانی لیفٹ، رائٹ، رائٹ(سچ) کے زمانے میں تبدیل ہو گیاجس میں احتسابی عمل نتیجہ خیز بنتا جا رہا ہے اس کا بین الاقوامی سطح پر اعتبار قائم ہو رہا ہے (ایمنسٹی انٹرنیشنل بنام لندن ذہن نشین رہے) رائے سازوں کا ایک مفاد پرست گروہ جسے ووٹرز کی سطح (بصورت بلدیاتی نظام وبمطابق آئین)پر تقسیم اختیار و اقتدار کے مقابل ذاتی مفاد کے عوض کرپٹ سیاسی خاندانوں کی حکومت جاریہ قبول نہیں رہی، بلکہ وہ جمہوریت کی چیخ وپکار کے ساتھ بڑھتی پھیلتی ملوکیت کی حفاظت پر مامور رہے اب یہ گروہ بنتی تاریخ کے پہیے کو الٹا چلانے کے لئے سرگرم ہوا چاہتا ہے ۔عالمی سطح پر لیفٹ و رائٹ کی سیاست کی جو تدفین آئرن کرٹن کی دھجیاں ہونے اور دیوار برلن کا ملبہ بننے سے شروع ہوئی تھی وہ پاکستان سمیت دنیا میں کب کی مکمل ہو گئی،لیکن پاکستان میں گلا سڑا سودا بیچنے کی پھر تیاری کی خبر ہے حکومت میں دو ماہ کے لئے دانش کا غلبہ پریشان کئے دے رہا ہے کہ کہیں انتخابات شفاف نہ ہو جائیں۔ جبکہ لیفٹ لیفٹ رہا نہ رائٹ رائٹ، پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا غالب حصہ تو اک دوجے میں کھو کر حقیقی آئین و احتساب والی جمہوریت میں گم ہوگیا اور ہو رہا ہے۔
مقابل اسٹیٹس کو کا کیدو پروان چڑھتی عوام سے محبت و قربت کو مٹانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کی تیاری میں ہے سب سے بڑھ کر تبدیلی کے بڑھتے عمل کو روکنے کے لئے انتخابی نتائج کو نہ مان کر ہنگامہ برپا کرنے اور آزادانہ انتخابی عمل کو تسلیم نہ کرنے کا شاخسانہ، الیکشن 13کے متنازع نتائج بھی سب کو معلوم ہیں جنہیں انتہائی تحمل سے برداشت کرکے قوم نے جمہوریت بچائی یہ سب کو معلوم ہے لیکن ملوکیت کے محافظ اپنی مفاد پرستانہ سیاست میں کملے بنے رہے۔ آج کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت برائے الیکشن اور تمام سفید خاکی بیوروکریسی ہوشیار، خبردار اور ذمے دار رہیں۔ وگرنہ وہ احتسابی عمل سے بچ نہ سکیں گے کہ یہ اپنی جگہ نتیجہ خیز ہوتا جا رہا ہے ۔
رہا تاریخ سازی کا عمل، یہ لکھا گیا اور ان مٹ ہے کہ اب پاکستان کی تاریخ کی کڑاہی ’’لیفٹ‘‘ اور ’’رائٹ‘‘ کے بجھے چولہے پر تیار نہیں ہو گی بلکہ رائٹ(سچ) کی جلتی شمع کی روشنی میں لکھی جائے گی جس میں رنگ صاف نظر آئے گا اور نئے پاکستانی معاشرے میں قابل مذمت ٹھہرے گا۔ مان لو نیا زمانہ سچ کا لکھا گیا۔ وما علینا الا البلاغ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین