• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ہمارے میڈیا کا پسندیدہ موضوع ہے کرپشن۔ پروگراموں کے اینکر پرسنز اور شرکا نے اس قدر شور مچا رکھا ہے کہ لگتا ہے کہ روز اول سے پاکستان صاف ستھرا تھا، لوگ ہیرا پھیری نہیں کرتے تھے، لوٹ کھسوٹ میں ملوث نہیں ہوتے تھے، بے ایمانی اور رشوت خوری کا نام ونشان نہیں تھا ۔ پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کرپشن آج کا معاملہ ہے، یوں لگتا ہے جیسے آج سے پہلے پاکستان میں کرپٹ لوگ نہیں ہوتے تھے، اس لئے ملک میں کرپشن کا کاروبار رواں دواں نہیں تھا، کاش ہم زمانوں کو پلٹ سکتے، پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز کے ساتھ ہم ماضی میں ستر برس پیچھے چلے جاتے،ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان میں خاص طور پر کراچی میںہندوئوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی متروکہ املاک کی بندر بانٹ دیکھتے۔ تب ٹیلی وژن ٹیکنالوجی نے یورپ سے پاکستان کا رخ نہیں کیا تھا۔ خبر رسانی، مواصلات اور معلومات کے لئے ایک ریڈیو پاکستان، وہ بھی میڈیم ویو Wave اور کمزور ٹرانسمیٹر سے مزین، اور لے دے کر گنتی کے اخبار ہوتے تھے، جنگ، انجام اور ڈان۔ہندو اور سکھ بھرا بھرایا اور سجا سجایا شہر کراچی چھوڑ گئے تھے، انہوں نے بے انتہا دیدہ زیب کوٹھیاں چھوڑی تھیں، عمارتیں اور اپارٹمنٹس چھوڑے تھے۔ مارکیٹ اور کاروباری مراکز چھوڑے تھے، کھچا کھچ بھرے ہوئے گودام چھوڑے تھے، موٹر کاریں اور چار پہیوں والی بگھیاں چھوڑی تھیں، اور عالیشان سینما چھوڑے تھے، یہاں ایک تھیٹر بھی چھوڑا تھا۔ الائٹ تھیٹر بار نیسں اسٹریٹ پرہمارےگھر کے قریب تھا، پاکستان بننے کے فوراً بعد ایویکیو اتھارٹی یامحکمہ وجود میں لایاگیا تھا، اس ادارے کا کام تھاکہ چھان بین اور جانچ پڑتال کے بعد ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آئے ہوئے لوگوں میں ہندو اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی املاک کی الاٹمنٹ۔ متروکہ املاک سے اپناحصہ حاصل کرنے کے لئےہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کو کلیم Claim داخل کرنا پڑتا تھا، اس کلیم میں وہ ہندوستان میں چھوڑ کر آنے والی اپنی املاک کی تفصیل لکھتے تھے، متروکہ املاک کے محکمہ میں کلیمز کی چھان بین کی جاتی تھی۔
ایویکیو پراپرٹی کے محکمہ میں جس نوعیت کی کرپشن ہوئی تھی اگر آج کے پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز کے اینکر پرسنز اس وقت ہوتے اور کرپشن کا پہاڑ دیکھتے تو شاید آج کی کرپشن ان کو رائی برابر دکھائی دیتی، بٹوارے کے بعد مختلف درجات میں بٹے ہوئے لوگ پاکستان آئے تھے، میں آپ سے کراچی کی باتیں کررہا ہوں، کراچی میں آنے والوں میں سر فہرست تھے، مسلم لیگی سیاستدان، وہ ہوائی جہازوں میں سوار ہوکر سب سے پہلے کراچی پہنچے تھے، ان کے ساتھ ساتھ آئے تھے، ICS انڈین سول سروس کے مسلمان بیورو کریٹس یعنی اعلیٰ افسران، ہندو بیورو کریٹس کے چھوڑے ہوئے عہدے انہوں نے سنبھال لئے تھے۔ معتبرین کے ساتھ ساتھ آئے تھے آسودہ اورخوشحال لوگ، وہ اپنی مرضی سے ہندوستان سے نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تھے، آخر میں آئے تھے اور بہت بڑی تعداد میں آئے تھے ہندوستان میں فسادات کی بے رحم آگ میں جھلسے ہوئے لوگ، وہ زیادہ تر غریب تھے، پڑھے لکھے نہیں تھے، وہ لوگ کلیم داخل نہیں کرسکتے تھے۔ امرا، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس، اور کاروباری اشرافیہ نے متروکہ املاک کی ایسی آپس میں بندر بانٹ کی جس کی مثال نہیں ملتی، فسادات کی آگ میں جھلسے لوگ کسمپرسی کی حالت میں پاکستان آئے تھے اور آج تک کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہےہیں، ان کی زبان گنگ کرنے اور ان کو خاموش رکھنے کے لئے ہندوستان سے آئے ہوئے مسلم لیگی سیاستدانوں، بیورو کریٹس، کاروباری ساہوکاروں نے ان کو باور کرادیا کہ تم لوگوں نےپاکستان کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اصل میں پاکستان تم نے بنایا ہے۔ وہ غریب، مسکین، آج تک کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے اسی یقین دہانی پر خوش ہیں کہ پاکستان انہوں نے بنایا ہے، اور جن لوگوں نے ان کو اس یقین میں مبتلا کردیا ہے، وہ خود اس قدر پھل پھول گئے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی اور کاروباری معاملات میں جب چاہیں زلزلہ لا سکتےہیں۔ کاش آج کے ٹیلی وژن کے اینکر ستر برس پرانے کرپشن کے آتش فشاں کودیکھ سکتے، جو تہس نہس ہوکر پاکستان پہنچے تھے، ان کو ایویکیو املاک سے ککھ نہیں ملا اور جوہندوستان میں ککھ چھوڑ آئے تھے یا پھر کچھ بھی چھوڑ کرنہیں آئے تھے ان کو ککھ ملے اور وہ لکھ پتی بن گئے۔
متروکہ املاک اتھارٹی کی بدترین کرپشن کے انتہائی ابتر نتائج اندرون سندھ دیکھنے میں آئے، سندھ کے وڈیرے، پیر سائیں، سردار سائیں ہندوستان کی ریاست اودھ کے نوابوں کی طرح عیش و عشرت کے لاعلاج مریض تھے، وہ اپنی زرعی زمین ہندو ساہو کاروں اور ان کے بینک میں گروی رکھتے تھے، قرض لے کر عیاشی کرتے تھے اور ہندو ساہو کاروں کے مقروض رہتے تھے، بٹوارے کے بعد ہندو ساہو کاروں کے پاس گروی پڑی ہوئی مسلمان زمینداروں کی زمین کو متروکہ املاک میں شامل کیا گیا، لہٰذا ہندو ساہو کاروں کی اپنی زرعی زمین اور ان کے پاس گروی پڑی ہوئی مسلمان زمینداروں کی زمین ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں میں تقسیم کی گئی، نقل مکانی کرکے آنے والے بھائیوں میں کوئی بھی زمینداری کے پیشے سے وابستہ نہیں تھا، انہوں نے الاٹمنٹ میں ملی ہوئی زمین اونے پونے پیر سائیوں، سردار سائیوں اور وڈیروں کو بیچ دیں اور کراچی آکر بس گئے، اس طرح ہندوستان کے بٹوارے اورپاکستان بننے کے بعد سندھ کے پیر سائیں، سردار سائیں اور وڈیرے بے انتہا طاقتور اور بااثر ہوگئے ہیں، اور وہ پچھلے ستر برس سے، ستر برس پرانی کرپشن کی وجہ سے سندھ پر حکومت کررہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین