جمہوریت کے ثمرات کا سفر جاری ہے۔ ڈالر کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے۔ روپے کی کم ہوتی ہوئی قدر اسحاق ڈار کو ’’دعائیں‘‘ دے رہی ہے۔ اسحاق ڈار مریض ِ محبت ہے۔ جن لوگوں کو دل کاعارضہ ہو انہیں دراصل محبت کا مرض لاحق ہوتاہے۔ محبت میںتھوڑا بہت جھوٹ تو بولنا ہی پڑتا ہے، اس لئے ڈار صاحب لندن میں صحت مند ہیں مگر وطن عزیز کی عدالتوں میں ’’شدید بیمار‘‘ ہیں۔ عدالتوںکے سامنے ان کی بیماری کا قصہ ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے مریض کی چارپائی کے گرد قرآن پڑھنے والے جمع ہوگئے ہوں۔ اسحاق ڈار کو اپنے اس فعل پر نہ کوئی شرمندگی ہے نہ ندامت۔
میںنے پچھلے کالم میں بیان کیا تھا کہ نواز شریف اورمریم نواز مجبوراً پاکستان آئے ہیں کیونکہ انہوںنے اپیل کا حق استعمال کرنا تھا۔ اسی آئینی اور قانونی حق کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کردی گئی ہے۔ اس اپیل کے ساتھ ایک اور درخواست بھی دی گئی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب تک سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک نواز شریف اور مریم نواز کو رہا کیاجائے۔ ؎
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
نواز شریف اور مریم نواز کے اڈیالہ جیل جانے پرمجھے دو تین باتیں یاد آرہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس جیل یاترا کے سبب باپ بیٹی کو عام پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہو گیا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ شاید یہ دونوں کتاب لکھنے کا ارادہ کریں۔ ویسے اڈیالہ میں سیاسی قیدیوں کی طرف سے کتابیں لکھنے کا رواج ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی نے یہاں رہ کر کتابیں لکھی تھیں۔اس سلسلے میںمجھے بھی اڈیالہ جیل کے چکر لگانا پڑتے تھے۔ تیسری بات کے طور پر مجھے ایک تازہ کتاب یاد آرہی ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے ’’وکالت، عدالت اور ایوان تک‘‘ جسٹس (ر) فخرالنساء کھوکھر کی تحریر کردہ اس کتاب میں وکالت کے تجربات، عدالت کے معاملات اور ایوانِ اقتدار کی راہداریوں میںہونے والے سارے ناٹک شامل ہیں۔ اس لئے نواز شریف اور مریم نواز کو پہلی فرصت میں یہ کتاب پڑھنی چاہئے۔ ویسے بھی اس کتاب کی تقریب ِرونمائی 23جولائی کو لاہور میں ہوگی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ہوںگے۔ عوامی بھلائی کے کاموںپرگہری نظر رکھنے کے باعث میاںثاقب نثار لوگوںمیں بہت مقبول ہوئے ہیں۔
کتاب لکھنے والی جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر کی زندگی کا مختصر ساجائزہ لیاجائے تو پتا چلتاہے کہ انہوں نے خوب جدوجہد کی۔ ملتان میںپیداہونے والی فخر النساء کھوکھر ملتان شہر کی پہلی خاتون وکیل تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم تو پاکستان ہی میں حاصل کی مگر قانون کی اعلیٰ تعلیم لنکنز اِن سے حاصل کی۔ دورانِ تعلیم ہی موریشس کے رہائشی عبدالقادر بھایات سے شادی ہوئی۔ عبدالقادر بھایات موریشس میں ڈپٹی پرائم منسٹر رہے۔ وزیر تجارت رہے۔ اِدھر پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں پہلی مرتبہ خاتون جج کے طور پر فخرالنساء کھوکھر کو مقررکیا۔ دس سال ہائی کورٹ کی جج رہنے والی جب ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بننے والی تھیں تو اس دوران ’’مشرفانہ سوچ‘‘ نے کام دکھایا۔ فخرالنساء کھوکھر نے ریٹائرڈ ہو کر ہائی کورٹ بار کا الیکشن لڑا اور صدر بن گئیں۔ بعد میں پیپلزپارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی میںپہنچ گئیں۔ جسٹس (ر) فخرالنساء کھوکھر کی ایک بیٹی لبنیٰ بھایات معیشت کی الجھی گتھیاں سلجھاتی ہیں۔ انہوں نے خود کو معاشی امور کی ماہر کےطور پر متعارف کروا رکھا ہے۔ جسٹس (ر) فخرالنساء کھوکھر لکھتی ہیں ’’میںنے سوچا کہ اب تو دنیا بدل رہی ہے۔ اب جنگیں اقتصادی طاقت کی ہیں۔ افریقین یونین، یورپی یونین، یہ سب کئی ملکوں کے مشترکہ بلاکس ہیں جو کہ اکٹھے ہوکر اقتصادی طاقت سے دنیا میں اثر و رسوخ چاہتے ہیں۔
پاک چائنہ اکناک کوریڈور (سی پیک) بھی ایک ایسا پلیٹ فارم بن جائے گا جس میں ہمارے گرد و نواح کے ہمسایہ ممالک کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ اس بہت بڑی تجارتی برادری کا حصہ بن جائیں۔ میں نہیں جانتی کہ میری زندگی میں یہ ملاپ ہوگا یا نہیں لیکن یہ ضرور جانتی ہوںکہ پاکستان اوربنگلہ دیش پھر اکٹھا ہوںگے اور ملاپ تجارتی اور اقتصادی ہوگا۔‘‘
دنیاواقعی بدل رہی ہے۔ پاکستانی سیاست بھی بدل رہی ہے۔ ہوسکتاہے کہ اگلی پاکستانی سیاست میں لوٹ مار کاکھیل نہ ہو۔ پاکستان میں لوٹ مار سے زیادہ جذبہ غالب آ رہاہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں نہیںدیکھا کہ جب پشاور میںایک بم دھماکے میںہارون بلور کئی ساتھیوںسمیت شہید ہوئے تو اگلے ہی لمحے ہارون بلور شہید کا بیٹا دانیال بلور کہہ رہاتھاکہ ’’میری اپنی جان پاکستان کے لئےحاضر ہے۔ میںبھی پاک فوج کا ساتھی ہوں۔‘‘ اسی طرح مستونگ میں جب ایک دلیر محب وطن پاکستانی سراج رئیسانی شہید ہوا تواس کے بعد جمال رئیسانی نے کہا کہ ’’شہید ہونا بزدل کا کام نہیں۔ شہید بہادر ہوتاہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔ ہمارا سب کچھ پاکستان کے لئے قربان، پاکستان ہماری جان۔‘‘
خواتین و حضرات! جس ملک کے نوجوانوں کے یہ جذبات ہوں اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ہمارے جذبے جوان ہیں۔ حب الوطنی سے سرشار ہیں مگر ہمارے اداروںکو ان سازشوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جوہمارے ملک کے خلاف پرائے دیس میں ترتیب دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں سنٹرل لندن کے ایک ہوٹل میں تین غیرملکی خفیہ ایجنسیوںکے نمائندوں کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں کچھ پاکستانی بھی شریک تھے۔ یہاںپاکستان میں فسادات کا پورا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ کس طرح افغانستان کے راستے دھماکے کرنےوالوں کو داخل کیاجائے گا۔ پاکستان کے اندر کس طرح افواج پاکستان کے خلاف نفرتیں پیدا کی جائیں گی۔ جس ہوٹل میں یہ سب کچھ ترتیب دیا گیا، یہ ہوٹل ایک بھارتی شہری سبھرتا رائے کاہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو ان تمام کارروائیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔
رہی سیاست تو اس سلسلے میں اب لوگ بہت سمجھدار ہوگئے ہیں۔ ملک لوٹنے والوں نےمہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ایسے تحفے دیئے ہیںکہ ہر ایک شہری کا حال بقول ندیم اختر ندیم ایسا ہے کہ؎
ہم کو کچھ بھی نظر نہیں آتا
کس طرح کا یہاں اُجالا ہے
عزتِ نفس تک نہیں باقی
رہنمائوں نے مار ڈالا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)