• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نوازشریف لندن سے لاہور پہنچ گئے۔ اس کے باوجود کہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں، جس کے وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں، ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ ویسا ہی ہوا جیسا کہ ہونا تھا، راتوں رات اڈیالہ جیل پہنچا دیئے گئے۔ لیکن جیسا میاں صاحب نے سوچا تھا کہ ان کا فقید المثال استقبال کیا جائے گا تو نگرانوں کے طوطے اڑجائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے گزشتہ دنوں اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے کے سرمائے کو دبئی، سوئٹزرلینڈ سے واپس لانا ہے۔ یہ اربوں روپے کا خفیہ سرمایہ کیسے واپس لایا جاسکتا ہے جب کہ ہر آنے والے دن میں ملکی صورت حال سے بد دل ہونے والے تاجر سرمایہ دار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں، وطن عزیز میں ہر لمحہ بدلتی صورت حال کے پیش نظر ملکی سرمایہ دار اپنی صنعتیں بند کرتے جا رہے ہیں اور اپنا سرمایہ اور صنعتیں سری لنکا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش منتقل کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب اپنے ہی لوگ اپنے وطن میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے تو ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وطن عزیز میں بیرونی سرمایہ کار آکر سرمایہ کاری کرے گا۔ جب اپنے ہی سرمایہ دار خوف زدگی کا شکار ہوں تو ایسے ملک و مقام پر بیرونی سرمایہ کار کیسے اپنا سرمایہ لگا سکتا ہے۔ دراصل ہماری نوکر شاہی کے منہ کو جو خون لگ چکا ہے وہ کسی طرح چھٹتا نہیں، ہر طرح ہر کام میں جب تک متعلقہ نوکر شاہی کا حصہ نہ رکھا جائے وہ ایک قدم بھی آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ ہر سرمایہ دار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اپنے سرمائے کا تحفظ چاہتا ہے۔ تمام ہی تاجر و صنعت کار کسی ملی جذبے سے، قوم کی خدمت کے جذبے سے صنعت نہیں لگاتے بلکہ نفع حاصل کرنے کے لئے لگاتے ہیں۔ سرمایہ کار کہتے ہیں اگر ہم اپنے وطن میں اپنی قومی حمیت کے پیش نظر سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچیں بھی تو سب سے پہلے اس صنعت کی اجازت لینے کے لئے سرکاری محکموں کے چکر لگاتے رہیں، ہاں اگر آپ نے کام نکلنے کے لئے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لئے پیسے لگا دیے یعنی ان کا منہ ہی نہیں پیٹ بھرنے کے لئے پہلی سرمایہ کاری کردی تو پھر آپ کی فائل اڑتی چلی جائے گی، ہر ہر قدم پر آسانیاں حاصل کرنے کے لئے تحائف کی شکل میں نقد کی شکل میں ادا کرتے چلے جانا ہوگا ورنہ کسی بھی مرحلے پر کام روکا جاسکتا ہے۔
اگر آج پاکستان کے صنعتی علاقوں کو دیکھیں اور سمجھیں تو وہاں فیکٹری تو موجود ہوگی لیکن حالات کا شکار ہوکر بند کردی گئی ہوگی۔ اس طرح نہ صرف اس سرمایہ کار کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے اور ساتھ ہی اس صنعت سے وابستہ افراد بے روزگار بھی ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جو کبھی صنعتی طور پر مستحکم ہوا کرتا تھا، آج سرمایہ کاری کو ترس رہا ہے ہزار کوشش کے باوجود ملکی اور بیرونی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں اور جو تھوڑے بہت سرمایہ کار اپنی صنعتیں چلا رہے ہیں وہ بھی اپنا سرمایہ ہنڈی اور اسمگلنگ کے ذریعے بیرون ملک جمع کر رہے ہیں، کوئی آف شور کمپنی بناکر، کوئی بے نام جائیداد بناکر۔ جناب چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ بیرونِ ملک سرمایہ جمع کرنے والوں کا پتہ چلانا چاہیے، ہمیں بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے کو روکنا ہوگا، ایسے مؤثر اقدام اٹھانے ہوں گے جن سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے سے رک سکے، اس سلسلے میں ماہرین کی آرا کی روشنی میں مستقبل کا پروگرام بنانا ہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں چار ہزار دو سو اکیس پاکستانیوں کے اثاثے اور بینک اکائونٹ موجود ہیں جو جائز اور ناجائز طریقوں سے وہاں پہنچائے گئے ہیں۔ اس میں کرپشن، بدعنوانی اور چوری کا سرمایہ بھی شامل ہے۔ کچھ سرمایہ امریکا، یورپ اور کینیڈا بھی منتقل کیا گیا ہے۔ سوچنے سمجھنے والی بات ہے کہ آخر یہ ملکی سرمایہ کیوں باہر منتقل ہو رہا ہے، کیوں اپنے وطن میں نہیں لگایا جارہا۔ کیوں حکومتیں بیرونی قرضے لے لے کر وطن عزیز کو مقروض سے مقروض تر کرتی چلی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر چھوٹے بڑے کو اپنے وطن میں اپنے گھر میں ہر طرح کے تحفظ کا یقین کامل ہو، ہر طرح کے خوف سے آزاد ہونا چاہیے جب کہ بیرون ملک کسی بھی ملک میں آپ سرمایہ کاری کریں یا اپنا سرمایہ محفوظ کریں تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ کسی بھی وقت کسی ایسی پالیسی کا اعلان کردیں کہ بیرونی سرمایہ کار اپنا سرمایہ کسی بھی طرح واپس نہیں لے جاسکے گا تو؟ لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے علاوہ تمام ممالک نہ صرف اپنے لوگوں کو بلکہ بیرونی افراد کو بھی ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے ہیں، اگر یہی یقین وطن عزیز میں انہیں حاصل ہوجائے تو کبھی بھی کوئی بھی اپنا ایک دھیلہ بھی باہر نہیں لے جائے گا۔ اس کے لئے نہ صرف اعلیٰ و ادنیٰ نوکر شاہی کا درست اور ایماندار ہونا شرط ہے وہیں تمام اہل سیاست اور اہل اقتدار کا بھی محب وطن اور مخلص ہونا لازمی ہے، اگر ہماری حکومت اور حکمران درست ہوجائیں تو ہماری ترقی و خوشحالی کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ابھی موجودہ دور کے وزیراعظم جو تین بار وزارت عظمی کے مزے لوٹ چکے ہیں انہیں نیب سزا بھی دے چکا ہے وہ اب قید و بند کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر ان کے سرمائے کا حساب لگایا جائے تو اربوں کھربوں سے بھی زیادہ ان کا سرمایہ بیرون ملک ہے، کیونکہ بنیادی طور پر وہ اور ان کے تقریباً تمام ساتھی تجارت سے وابستہ ہیں اس لئے وہ سب نفع کا سودا کرنے والے ہیں، وہ انتخابات میں حصہ اس لئے لیتے ہیں کہ مسند اقتدار کے حوالے سے جتنا زیادہ نفع حاصل کیا جاسکتا ہے کر لیا جائے، کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری وہ انتخابات جیتنے کے لئے کرتے ہیں، منتخب ہونے پر وہ سب سے پہلے اپنی لگائی کی ہوئی رقوم حاصل کرتے ہیں پھر منافع کی طرف بڑھتے ہیں اب انتخابات میں جن لوگوں نے حصہ لینے کے لئے انتخابی فارم پر کئے ہیں اس میں اربوں پتی شخص نے بھی اپنی جائیداد جو اربوں کھربوں کی ہے وہ ایک سے دو لاکھ بتائی ہے۔ بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں نے اپنی جائیداد کی قیمت پچاس ساٹھ سال پہلے کی لگائی ہے۔ ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ کون ان کا احتساب کرے گا۔
یہ شاید ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ہر علاقے کے لوگ آنیوالے انتخاب کے امیدوار سے جواب طلب کر رہے ہیں۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں ووٹر میں شعور آگیا ہے وہ اپنے اچھے برے کو پہچاننے لگے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ہمارے رب کی جانب سے کیا ظہور میں آتا ہے، کس کے سر پر ہما بیٹھتا ہے۔ اللہ ہماری اور ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین