• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے بوسنیا ہرزیگوینا کے علاقے سربرنیستا کی نسل کشی کے تیئس سال مکمل ہوگئے- جولائی 1995 ء میں سرب فوج اور سرب وزارت داخلہ کے خصوصی دستوں نے کمانڈر راتکو میلادک کی سربراہی میں آٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں خاص کر مردوں اور نو عمر بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- اس کے ساتھ ہی تیس ہزار سے زیادہ بوسنیائی مسلمان عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بناکر انہیں زبردستی علاقہ خالی کرانے پر مجبور کیا گیا اور یوں علاقے سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کرایا گیا جس کو سربوں نے اپنی الگ مملکت ریپبلیکا سربسکا کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے بہت ضروری سمجھا- قتل و غارتگری کا یہ اندوہناک کھیل یورپی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا- بوسنیا ہرزیگوینا کی پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد قتل کئے گئے جن میں دس ہزارکے قریب خواتین بھی شامل ہیں- ہلاک ہونے والوں میں لگ بھگ ستر فیصد مسلمان تھے- اس کے علاوہ ہزاروں مسلمان خواتین کے ساتھ جسمانی ذیادتی کی گئی اور لاکھوں افراد کو زبردستی نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا-
2005 ءمیں اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے سربرنیستا کے معاملے پر ایسی سنگین غلطیوں کا ارتکاب ہوا جو اقوام متحدہ کے تصورات سے میل نہیں کھاتیں-انہوں نے نسل کشی کے اس واقعہ کو ایسا سانحہ قرار دیا جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے سوہان روح بن گیا ہے- سربرنیستا کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک ’’محفوظ مقام‘‘ قرار دیا گیا تھا جہاں جنگ سےمتاثر مسلمان سربوں کے مظالم اور قتل و غارت سے تنگ آکر پناہ لے رہے تھے- اس کی حفاظت کی ذمہ داری ہالینڈ کی افواج کے پاس تھی جو اقوام متحدہ کی امن فوج کی صورت میں وہاں تعینات تھی- مگر اس فوج نے نہایت ہی افسوسناک رول ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو بچانے کے بجائے ان کو قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا- صرف 11 جولائی 1995ء کو سربوں نے دو ہزار سے زائد مسلمان مردوں اور نو عمر بچوں کوقتل کردیا- باقی لوگ ہزاروں کی تعداد میں اقوام متحدہ کے اس ’’محفوظ مقام‘‘ سے بھاگ گئے اور نزدیک جنگلوں میں پناہ لی جہاں انہیں سرب فوج نے چن چن کر بڑی بیدردی سے قتل کردیا- جس آسانی سے ڈچ فوج نے سربوں کو علاقے پر قبضہ اور قتل و غارتگری کی اجازت دی اس سے کئی مشاہدین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نے اس قتل عام میں سربوں کی معاونت کی-
خانہ جنگی کے دوران بوسنیا ہرزیگوینا کے چپے چپے پر قتل و غارتگری کی داستانیں رقم کی گئیں مگر سربرنیستا کا قتل عام وہ واحد مثال ہے جس کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے نسل کشی کا واقعہ تسلیم کیا گیا- دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں یہ سب سے بڑا اور سنگین ترین انسانیت سوز واقعہ ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا گیا- عالمی توثیق کے باوجود سرب سیاستدان اور عوام اور بوسنیائی سرب اور سربوں کا حلیف روس اس واقعہ کو یا تو ماننے سے کلی طور انکاری ہےیا اسے فوج میں بد انتظامی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے جو حقیقت کے عین برعکس ہے- چند سال پہلے بوسنیائی سرب رہنما ملوارڈ ڈیڈوک نے اس واقعہ کو ’’بیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا تھا‘‘۔ ماضی کی طرح اس سال بھی قتل عام کی سالگرہ پر سربوں کی طرف سے کوئی سرکاری وفد نہیں بھیجا گیا جو ان کی ضد اور نفرت کا ثبوت ہے- 2015ء میں روس نے اقوام متحدہ میں اس نسل کشی کے خلاف پیش ہونے والی مذمتی قرارداد کو ویٹو کردیا حالانکہ برطانیہ اور امریکہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح سے روس اور چین کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں حائل نہ ہوں- چین نے اگرچہ قرارداد کو ویٹو نہیں کیا البتہ اس نے انگولا، نائجیریا اور وینزویلا کی طرح ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا- سلامتی کونسل میں پیش کی جانیوالی اس قرارداد میں اس نسل کشی کی مذمت کو بوسنیا ہرزیگووینا میں ہونیوالے جنگی جرائم سے نمٹنے کی جانب ایک اہم پیشرفت تصور کیا گیا تھا مگر روس کے ویٹو کی وجہ سے معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا- سربیا کے اس وقت کے صدر ٹوملاؤ نکولچ نے قرارداد کو روس کی جانب سے ویٹو کرنے کو اپنے ملک کیلئے ایک بڑا اور یادگار دن قرار دیا تھا-
بوسنیا کے پہلے مسلمان صدر اور جنگ کے دوران مسلمانوں کے قائد عالیاہ عزت بیگوویچ کی وفات کی چودہویں برسی کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے تئیں یورپ کی بےحسی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بتایا کہ ’’یورپ بوسنیا میں مر گیا اور شام میں دفن ہو گیا-‘‘ خانہ جنگی ختم ہونے کے بیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ سرب، کرویٹ، یورپ کا امتیازی سلوک بدستور جاری ہے- جہاں ایک طرف ان کے تاریخی اور ثقافتی مقامات، مساجد اور ذاتی پراپرٹی کو واگزار یا اس کی مرمت کیلئے سرکاری سطح پر جان بوجھ کر طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں وہیں انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ سرب اور کرویٹ ایسی قدغنوں سے مبرا ہیں- میں نے ذاتی طور پر بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو، موستار اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کی ذاتی کیفیت کامشاہدہ کیا ہے جو واقعی تشویشناک ہے۔ مسلمانوں سے نفرت نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ انہیں آج کل پھر کھلے عام نسل کشی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں- اگرچہ حالات بہت گھمبیر ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے- پچیس سال پہلے خانہ جنگی کے اس تاریک دور میں بھی برسرپیکار قوموں نے ایک دوسرے کے سینکڑوں افراد کو بچایا اور ان کی امداد کی۔ ایک بار بوسنیا میں ایک مسلمان نوجوان نے مجھے بتایا کہ کس طرح اسے سرب پیراملٹری میں شامل ہونے والے ایک سابقہ ہمسایہ نے علاقے پر سربوں کی جانب سے ہونے والے حملے کی پیشگی اطلاع دے کر اسے موت سے بچایا- اسی طرح موستار سے بلاگئی تک سفر کے دوران میری ڈرائیور نے مجھے اپنی دلچسپ کہانی سنائی کہ اس کے والدین مختلف قومیتوں سے تعلق کے باوجود کس طرح وہ کئی بار موت کے قریب پہنچ گئی تھی مگر لوگوں کی بروقت امداد کی وجہ سے وہ بچ گئی-
روسمیر محمد چیہایچ بوسنیا کے ایک مشہور و معروف اور تاریخی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں- آپ کی بیگم کا تعلق بھی ایک تاریخی اور عالم فاضل گھرانے سے ہے جن کے نانا عثمانی دور میں بوسنیا کے مفتی تھے- روسمیر اصل میں فزکس کے پروفیسر تھے مگر جنگ کے دوران آپ ایک با صلاحیت قائد کے طور پر ابھرے- خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد آپ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور آج کل مختلف مذاہب اور قومیتوں کے نوجوانوں کو اکٹھا کرنے اور انہیں مل جل کر رہنے کی ترغیب دینے میں مصروف ہیں- ان کی ان کوششوں میں میں نے بھی کچھ کچھ حصہ لیا ہے اور لیکچرز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا ہے- صلح کی یہ کوششیں واقعی قابل تعریف بھی ہیں اور قابل تقلید بھی- مگر خطے میں دائمی امن کیلئے مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا اعتراف اور ازالہ نہایت ضروری ہے-

تازہ ترین