• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوسکتا ہے ہمارے عوام کا کچھ حصہ الیکشن میں ووٹ دینے سے پہلے سیاسی پارٹیوں کو یا امیدواروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہو،ووٹ دینے سے پہلے پارٹی کے سربراہ کا ماضی دیکھتا ہو اس کے حال کا چال چلن دیکھتا ہو اور مستقبل کے حوالے سے اس کی سوچ پر دور بینی نظر ڈالتا ہو۔اس کی تعلیم اس کی قابلیت اور اہلیت،اس کا برتائو اوراس کا اعتماد بھی دیکھتا ہو۔اس کے ویژن کو بھی پرکھتا ہو۔اس کی اس اہلیت کو بھی جاننے کی کوشش کرتا ہوکہ یہ عوامی مسائل کو کتنا جانتا اوراس کو حل کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہےاور ہوسکتا ہے کہ عوام یہ بھی سوچتے ہوں کہ پاکستان کو کس طرح کے مسائل درپیش ہیں اوران مسائل کے حوالے سے کونسی ایسی پارٹی ہے جس کے پاس انہیں حل کرنے کا ویژن ہے ووٹ دینے سے پہلے کچھ ووٹرز یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہمارے ملک میں اس وقت جو مسائل چل رہے ہیں کیا یہ ہمارے اسی لیڈر کے پیدا کردہ تو نہیں جسے ہم ووٹ ڈالنے جارہے ہیں۔کہیں ہم ایسے لیڈر کو تو ووٹ نہیں ڈال رہے جس کے قول وفعل میں تضاد ہے۔یا ہم کسی ایسے لیڈر یا پارٹی کو تو ووٹ نہیں ڈال رہے جس کی لیڈر شپ تقریروں میں تو بہت اعلیٰ ہے لیکن عملی طور پر اس کے کریڈٹ میں کچھ نہیں۔کیا ہمارا ووٹ اس پارٹی کو تو نہیں جا رہا جو ملکی وسائل جنہیںعوام کی فلاح کے لیے خرچ ہوناچاہیے وہ لیڈر کی ذات اور رشتہ داروں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔کیا ووٹ دینے سے پہلے یہ بھی سوچاجاتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کون سے فرسودہ قوانین ہیں جنہیںتبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا ایسی کون سی نئی قانون سازی ہے جو موجودہ حالات کے مطابق ناگزیر ہوچکی ہے ۔ہوسکتا ہے کچھ ووٹرز یہ بھی سوچتے ہوں کہ ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ معدنی اور دیگر وسائل سے مالا مال کررکھا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری قیادت ان وسائل کو بروئے کار لا کر غربت کے خاتمے کے لئے کیو ں کردارادا نہیں کرسکی۔ لیکن ہمارے اکثر عوام یہ سب عوامل نہ دیکھتے ہیں نہ سمجھتے ہیں نہ پاکستان کے مستقبل اورآنے والی نسلوں کے مستقبل کو دیکھتے ہیں۔کچھ لوگ ذاتی تعلقات کی وجہ سے اپنا انتہائی قیمتی ووٹ کسی ایسے امیدوار کو دے دیتے ہیں جواس کا اہل نہیں ہوتا کہ وہ اس ووٹ کی قدروقیمت کو بروئے کار لا کر عوام اور ملک کو کچھ لوٹا سکے۔کچھ لوگ ووٹ دیتے ہوئے محض اپنی پرانی وابستگی کے مد نظر ایسے امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دے دیتے ہیں جس نے پہلے بھی عوام کو مایوس کیا ہوتا ہے اورآئندہ بھی ان سے خیر کی امید نہیں ہوتی۔کچھ لوگ اس حوالے سے خیانت کرتے ہیں کہ وہ سیاسی بحث ومباحثہ میں توبڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔یاکچھ لوگ بالکل خاموش رہ کر اپنا وقت گزارتے ہیں اور ووٹ ڈالنے کو مصیبت سمجھتے ہوئے اپنے قومی کردار سے پہلوتہی کرجاتے ہیں۔یہ دونوںطبقے کے لوگ ووٹ نہ ڈال کر صرف ایک اخلاقی جرم کا ہی ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اپنے ہی ملک کا وہ قرض یا احسا ن واپس لوٹانے میں ناکام ہوتے ہیں جو اس ملک کا شہری ہو نے کی شکل میں ہم پر وا جب ہے۔آئیں ووٹ ڈالنے سے پہلے ہم اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کی بجائے ٹھنڈے دل سے ملک وقوم کا سوچیں، ایسی پارٹی یا امیدوار کوووٹ دیں جواس قیمتی ووٹ کا حقیقی اہل ہو ۔ہم پہلے رائے قائم کرکے اس کے دلائل تلاش نہ کریں بلکہ کسی دلیل کے تحت اپنی رائے قائم کریں اور پھر اس کا دفا ع کریں۔کیو نکہ پہلے غلط را ئے کم کر کے ہم جس جھو ٹ کے لئے دلا ئل تلا ش یا گھڑ تے رہیں گے،اس میں سو ائے اپنی ذات کی تسکین کے ہم ملک کے لئے کو ئی مثبت کا م یا فر یضہ انجا م نہ دے سکیں گے۔ آپ کا غلط فیصلہ یا پانچ سال کے لئے تجربہ اس عظیم ملک اور عوام کے قیمتی پانچ سال ضائع کردے گا اور دنیا جو پہلے ہی آپ سے بہت آگے نکل چکی ہے اورآگے نکل جائے گی اور مسائل اور غربت کے پہاڑ ان پانچ سالوں میں مزید بلند ہوکرآنے والی روشنی کو معدوم اورہوا کے تازہ جھونکوں کو بھی روک لیںگے ۔خدا را اپنا ووٹ اور ملک وقوم کے پانچ سال ضائع ہونے سے بچالیجئے اور اچھی طر ح سو چ کر ملک و قوم کے لئے ووٹ دیں۔

تازہ ترین