• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
22 اکتوبر 2012کو اپنے اِسی ہر دلعزیز جنگ اخبار میں، میں نے ایک کالم بعنوان تعلیم و تربیت لکھا تھا۔ اس میں تعلیم و تربیت کے کردار و اخلاق پر اثرات پر تبصرہ کیا تھا۔ کافی لوگوں نے اس کالم کو سراہا تھا لیکن برادرم جناب صادق سواتی نے روزنامہ نیوز میں انگلش زبان میں شائع شدہ اسی کالم پر اسی اخبار میں اپنے ردّ ِعمل کا اظہار کیا تھا اور میرے اس بیان پر کہ اگر ان مدارس میں کچھ تعلیمی اصلاحات کردی جائیں تو یہ بہت مفید کردار ادا کرسکتے ہیں کچھ تحفظّات کا اظہار کیا تھا۔
بھائی صادق سواتی کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ میرا مقصد یا مطلب یہ نہ تھا کہ یہ اصلاحات معجزات پیدا کرسکتی تھیں بلکہ یہاں سے فارغ التحصیل بچّے نہ صرف ایک اچھے شہری بن جاتے بلکہ رزق ِ حلال کمانے، کھانے اور گھر والوں کی مدد بھی کرسکتے تھے۔ میرا جو پلان تھا اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں۔یہ میرا تصور اور خیال تھا ممکن ہے بھائی صادق سواتی اس سے اتفاق نہ کریں یا اس سے بہتر پلان پیش کرسکیں جو بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لئے میرے پلان سے بہتر ہو۔ مقصد بچوں کا مستقبل اچھا بنانا ہے اور اگر شیطان بھی کوئی اچھی تجویز دے دے تو نہ مجھے اور نہ ہی بھائی صادق کو کوئی اعتراض ہوگا۔
اپنے اس پلان کی بیک گراؤنڈ پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو علم ہے کہ مشرف کو مجھ سے ذاتی بغض تھا اور وہ سخت احساس کمتری اور خود اعتمادی کے فقدان کا شکار تھا۔ 12 اکتوبر 1999 کو حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد میری اس سے دو چار ملاقاتیں ہوئیں اور میں نے باتوں باتوں میں صاف کہہ دیا کہ میں مزید کام نہیں کرنا چاہتا۔ میں جس نیک مقصد کے لئے یورپ میں ایک اعلیٰ ملازمت و مستقبل چھوڑ کر آیا تھا وہ مقصد پورا ہوگیا اور اس ملک کو نہ صرف ایک ایٹمی قوّت بلکہ میزائل قوّت بننے کی سعادت حاصل ہوگئی تھی۔ ہم نے اپنی خاندانی زندگی کی بہت قربانی دی تھی اورمیری بیگم، بچیوں کو بہت ہی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور میں نے بھی اپنی زندگی قالینوں پر لیٹ کر نہیں گزاری تھی۔ مشرف کے پوچھنے پر میں نے کہہ دیا کہ میں باقی وقت تعلیمی و فلاحی کاموں میں صرف کروں گا۔ میں نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے تھے اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی نہ صرف مکمل پلاننگ کی تھی بلکہ اسکی تکمیل اور ابتدا بھی کی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ کے بچّے آج بھی مجھے یاد کرتے ہیں اور میری غیر موجودگی کو بہت محسوس کرتے ہیں۔بہرحال میرے عِندیہ اور ہماری بات چیت کا ریکارڈ جنرل خالد احمد قدوائی نے بنایا تھا اورمجھے بھی ایک کاپی بھیج دی تھی۔ چند ماہ بعد جنرل مشرف نے جنرل عزیز احمد خان اور جنرل قدوائی کی معرفت مجھے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی پیشکش کی جو میں نے شکریہ کے ساتھ مسترد کردی اور ان کے پوچھنے پر میں نے عزیز دوست ڈاکٹر عطاء الرحمن کا نام تجویز کردیا اور ان کو یہ منصب مل گیا۔ میری ریٹائرمنٹ کے وقت مجھے دفاعی معاملات اور کے آرایل کے معاملات کے مشیر کی پیشکش کی گئی جو میں نے قبول کرنے سے معذرت کرلی،لیکن چند فوجی افسران اور دوسرے دوستوں کی درخواست و اصرار پر کہ میں وہاں بیٹھ کر بہت سے دوسرے کام باآسانی کرا سکتا ہوں اور خالی بیٹھنا اچھا نہیں ہے۔ یہ پیشکش چند دنوں بعد قبول کرلی مگر اس شرط کے ساتھ کہ میں کسی کیبنٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کروں گا۔ بعد میں دو تین مرتبہ پروفیسر عطاء الرحمن کی بریفنگ میں شرکت کی اور محترم جناب جمالی صاحب کی وزارت ِ عظمیٰ کے دوران ان کی دعوت پر چند مختصر سی میٹنگ میں شرکت کرلیتا تھا۔ میں نے اس دوران ایک نہایت ہی اعلیٰ یونیورسٹی کی تیاری کی مکمل رپورٹ تیار کی جو میں نے ملائشیا کے سرکاری دورے کے موقع پر ڈاکٹر مہاتیر کو دے دی۔ ایک کاپی امارات کو دے دی اور ایک سعودی عرب کو۔ ہمارے یہاں اس پر سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت ناپید تھی۔
اُسی دوران میں نے سوچا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں تعلیم کا فقدان ہے۔ اچھے اسکول ناپید ہیں اور وہاں کے بچے پورے ملک میں دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے بھیج دےئے جاتے ہیں۔ والدین ان کی پرورش کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ ان مدرسوں میں بچوں کو کلام مجید پڑھایا جاتا ہے اور حفظ بھی کرایا جاتا ہے اور جب بچے گھر جاتے ہیں تو کچھ رقم بھی دے دی جاتی ہے اور بسیں ان کو اپنے علاقوں کے قرب و جوار میں چھوڑ آتی ہیں۔ اس طرح یہ بالغ ہوکر کسی نہ کسی مسجد میں موٴذن اور پھر امام بن جاتے ہیں اور عموماً دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ میں نے ایک پلان تیار کیا کہ میں خود اس پروجیکٹ کی ذمہ داری قبول کروں گا اور اپنے چند صوبہ سرحد کے رفقائے کار کی مدد سے علاقوں کا تعین کرکے وہاں فنی تربیتی اسکول بمعہ ہوسٹل تعمیر کراؤں گا جہاں نہ صرف دینی اور دنیاوی (اردو، انگریزی، حساب، تاریخ، جغرافیہ، فارسی وغیرہ) تعلیم دی جائے گی بلکہ ان کو کم از کم تین سال ایک فنی تعلیم بھی دی جائے گی تاکہ یہاں سے تعلیم یافتہ بچے نہ صرف دینی و دنیاوی تعلیم سے بھی اچھی طرح واقف ہوں بلکہ وہ ٹیکنیکل فیلڈ میں بھی اس طرح مرصع ہوں کہ رزق ِ حلال کمانے ، کھانے اور اہل خانہ کی دیکھ بھال بھی خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں۔ مجھے یقین تھا کہ میں تقریباً تین سال میں یہ پورا نظام اپنے قبائلی علاقوں میں قائم کرسکتا تھا۔ میرے پاس نہایت اچھے ، ہنرمند، محب وطن اور خوفِ خدا رکھنے والے رفقائے کار تھے جو اچھّے، نیک اور ماہر فن تھے اور میرے ساتھ کام کرنے کو تیار تھے۔ اس وقت مغربی ممالک، جاپان، کوریا، چین وغیرہ سے ہمیں اس مد میں بہت فنڈز مل رہے تھے جو چوروں کی جیب میں جاکر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں جاتے رہے اور یہ نہایت اچھا پروجیکٹ ردّی کی ٹوکری میں چلا گیا۔ اگر یہ پروجیکٹ شروع کردیا جاتا تو ہمارے بچے قطعی خود کش حملہ آور، ڈاکو، خیرات مانگنے والے، بھتہ خور نہیں بنتے۔ ان کا شمار اچھّے عزّت دار پڑھے لکھے، فنی قوّت میں شمار ہوتا۔ غلام اسحق خان انسٹیٹیوٹ کے علاوہ میں نے میانوالی میں اعلیٰ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بنایا ہے جہاں DAE کی ڈگری دی جاتی ہے اور 1500 طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں ایک اعلیٰ انسٹیٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینئرنگ بنایا ہے جو دس سال سے M.Phil اور Ph.D کی تعلیم مہیا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے مخلص دوستوں کی مدد سے ایک دماغی امراض کے علاج کا اسپتال بنایا ہے جہاں ہزاروں ذہنی امراض یا پریشانیوں سے متاثرہ افراد مفت علاج حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں اپنے مخلص اور محب وطن دوستوں اور رفقائے کار کی مدد سے ایک این جی او SACHET کے نام سے قائم کی ہے جو تقریباً 12 سال سے ہزاروں مریضوں، ضرورت مندوں، ہنرمندوں کی مفت مدد کررہی ہے اور اس کے زیر سایہ 5 کلینک مفت علاج مہیا کررہے ہیں۔ یہ چند باتیں اس لئے بیان کی ہیں کہ میں فلاحی اور تعلیمی میدان میں اچھا بھلا تجربہ رکھتا ہوں اور جس پروجیکٹ پر کام کرنے کا عندیہ دیا تھا اس کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچا سکتا تھا اور مجھے یہ کام کرنے میں خوشی اور فخر محسوس ہوتا۔ بہرحال انسان بہت کچھ سوچتا ہے اور تدبیریں کرتا ہے لیکن آخری فیصلہ اللہ رب العزّت کے ہاتھ میں ہے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ 5 نومبر کے روزنامہ نیوز میں برادرم عثمان خان صاحب کا ایک نہایت ہی اعلیٰ حقائق پر مبنی اور مختصر مگر اہم معلومات پر مبنی آرٹیکل شائع ہوا ہے۔ اس مختصر سے آرٹیکل میں انہوں نے ان تمام وجوہات پر روشنی ڈال دی ہے جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے اور جن کو روکنے اور دور کرنے کے نظریہ سے میں قبائلی علاقوں میں ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کرنا چاہتا تھا جو دہشت گرد، بیروزگار، منشیات استعمال کرنے والے، چور، قاتل، فقیروں کی پیداوار ختم کردیتی۔ مگر جیسا کہ عثمان خان صاحب کے آرٹیکل سے تصدیق ہوئی ہے مشرف نے جہالت کا ثبوت دے کر اس مسئلہ اور پرابلم کو حل کرنے کے بجائے شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں چھپا لی اور یہ سمجھا کہ یہ مسئلہ حل ہوگیا ۔ اس نے جس نااہلی اور جہالت کا ثبوت دیا اس کا خمیازہ پورا ملک اب بھگت رہا ہے۔
ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا ہے۔ ملک میں لاتعداد تعلیم یافتہ اور روشن خیال علماء موجود ہیں۔ ان کی مدد سے ان مدارس میں مثبت بہتری لائی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں دینی تعلیم کے ساتھ دوسرے مضامین بھی پڑھائے جا سکتے ہیں اور ان میں ایک تین سالہ فنی تعلیم کا کورس شامل کردیا جائے تو ہم ہنر مند، اچھے طلباء پیدا کرسکتے ہیں جو معاشرے میں مثبت رول ادا کر سکتے ہیں۔ ضرورت اچھے اسکولوں، اچھے ہوسٹلوں، اچھی سہولتوں اور کچھ ماہانہ وظیفہ دینے کی ہے۔ یہ چیزیں اگر دیدی جائیں تو واقعی بہت ہی مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ میرے خیالات تھے اور ابھی بھی ہیں۔ اگر کبھی یہ کام کرنے کا موقع ملا تو برادران صادق سواتی اور عثمان خان صاحب سے رہنمائی حاصل کروں گا۔
تازہ ترین