• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج محمد بشیر کی ریفرنسز سننے سے معذرت انہونی بات نہیں، شاہ خاور

جج محمد بشیر کی ریفرنسز سننے سے معذرت انہونی بات نہیں، شاہ خاور

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں جج محمد بشیر کی معذرت اور ایون فیلڈ ریفرنس کی اپیل پر میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل گئے ہوئے آج تین دن ہوگئے ہیں، مریم نواز نے اپنی اپیل میں درخواست پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے ضمانت دینے کی درخواست کی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کے دیگر دو ریفر نسز کی سماعت سے معذرت کرلی ہے، ، پیرکو اسلام آباد ہائیکو رٹ میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ احتساب عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر عجلت میں سزائیں سنائیں، ۔میزبان شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ جج محمد بشیر نے باقی دو ریفرنسز سننے سے معذرت کرلی ہے جبکہ پہلے ریفرنس کا فیصلہ وہ خود سناچکے ہیں، نواز شریف کے وکیل کی طرف سے اعتراض بھی کیا گیا تھا کہ انہیں باقی دو ریفرنسز نہیں سننے چاہئیں، اب انہوں نے معذرت کرلی ہے تو کیس کیسے آگے بڑھے گا؟ اس سوال پرسابق جج شاہ خاور نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقیناً ایک بڑی خبر ہے، ان کا یہ فیصلہ غیرمعمولی ہے لیکن یہ کوئی اتنی انہونی بات نہیں ہے، قانون کے اصول یہ ہیں کہ جو بھی جج ہو چاہے وہ ٹرائل کورٹ کا جج ہو ، چاہے وہ سپریئر کورٹس کے ججز ہوں وہ اپنے ضمیر کے ماتحت ہوتے ہیں، اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور اقدامات کرتے ہیں، چونکہ اس میں نواز شریف اور مریم نواز کے وکلاء کی طرف سے بڑی واضح طور پر درخواست گزاری گئی تھی معزز فاضل جج صاحب کو، یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس کو رد کردیں یا اس کو قبول کرلیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ ان پر بہت بڑا عدم اعتماد کردیا گیا اور جب کسی جج پر کلائنٹ یا سائل عدم اعتماد کردے تو فیصلہ اس جج نے خود کرنا ہے کہ وہ ان کی اس درخواست کو مانے یا نہ مانے، اس طرح کے بہت سارے واقعات موجود ہیں، ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں نہ صرف ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان نے بلکہ سپریریئر کورٹس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں پر جب عدم اعتماد کردیا جائے تو وہ خود کو اس مقدمہ سے الگ کرلیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ بھی اسی چیز کی کڑی ہے جس کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہاکہ میری ناقص رائے یہ ہے کہ یہ مقدمہ جس دوسرے جج کو تفویض ہوگا تو جہاں اس کی سماعت ختم ہوئی ہے وہیں سے آگے بڑھائی جائے گی، دوبارہ سماعت اس کیس میں ہوتی ہے جب ایک جج کی jurisdictionکو غلط ثابت کردیا گیا ہو کہ انہوں jurisdiction ہی غلط لی تھی، یہاں پر چونکہ jurisdiction کا ایشو نہیں ہے تو ایسی صورت میں جس معزز جج کو یہ مقدمہ تفویض ہوگا وہ اس کی سماعت وہیں سے شروع کرے گا جہاں سے یہ آخری سماعت ہوچکی تھی یا کارروائی ہوچکی تھی۔اس سوال پر کہ آج شریف فیملی نے ہائیکورٹ میں اپیل کی ہے اور کل ہی دو رکنی بنچ ان اپیلوں کی سماعت بھی شروع کرے گا، اس حوالے سے کیا قانونی پروسیجر ہے کہ ان کو فوری طور پر ریلیف کیا مل سکتا ہے فیصلہ معطل ہونے کا یا ضمانت کا، کیا پروسیجر ہوسکتا ہے؟ سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ جو انہوں نے درخواست دی ہے اپنی سزا کی معطلی کی اور ضمانت پر رہائی کی اس پر بھی پراسیکیوشن کو ایک نوٹس جاری ہوگا جو یہاں پر نیب ہے، اس میں ہفتہ دس دن کی تاریخ مقرر کی جائے گی، اس دن نیب کی موجودگی میں جب ان کا ریکارڈ سامنے ہوگا تو ان کو بھی موقع دیا جائے گا تو وہاں پر جو سزا کی معطلی کی جو درخواست ہے اس کی سماعت ہوگی اسے سننے کے بعد فیصلہ ہوگا، اس میں جو عدالتی مثالیں موجود ہیں یا جو اصول وضع کیے گئے ہیں قانون میں کہ کن صورتوں میں سزا معطل ہوسکتی ہے، جہاں تک کیپٹن صفدر کا تعلق ہے ان کو دو اکاؤنٹس میں ایک ایک سال سزا ہوئی ہے، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 426 جو براہ راست نیب کے قانون پر اپلائی نہیں ہوتی لیکن اس کے اصول مستعار لیے جاسکتے ہیں، اس کی روشنی میں جس کی سزا تین سال یا اس سے کم ہو اس میں عموماً اپیلٹ کورٹس سزا معطل کردیتی ہیں لیکن استغاثہ کو سننے کے بعد۔ جب تین سال سے زیادہ سزا ہوجائے وہ جتنی زیادہ ہوتی جائے گی جتنے بھی ہمارے عدالتی نظائر موجود ہیں اس میں ان کے چانسز کم ہوجاتے ہیں لیکن اس کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ڈویژن بنچ اس کی سماعت کررہا ہے اس کی صوابدید میں ہے کہ وہ کوئی ایسی وجہ بتا کر معطل کرسکتے ہیں لیکن عموماً جو عدالتی مثالیں موجود ہیں وہ تین سال سے زیادہ سزا جو ہے، اس میں چونکہ مریم نواز کی ایک اکاؤنٹ میں سات سال دوسرے میں ایک سال کی سزا ہوئی ہے ، نواز شریف کو دس سال اور دوسرے اکاؤنٹ میں بھی سزا ہے تو اس میں دس سال کا جو بنچ مار ک ہے اس سے زیادہ کی سزا جو ہوتی ہے اس میں عموماً سزا معطل نہیں ہوتی ہے اور اس میں ضمانت نہیں ملتی، اگر آپ ضابطہ فوجداری 426کو دیکھیں تو اس میں جو رہنما اصول دیئے گئے ہیں اس کے تحت کیپٹن صفدر کی ضمانت آسان جبکہ باقی دو کی مشکل نظر آرہی ہے۔ اس سوال پر کہ یہ ضمانت اور سزا کی معطلی دونوں ایک ساتھ ہی ممکن ہے یا سزا معطل نہ ہو ضمانت ہوجائے اس قسم کی کوئی possibility ہے یا ایک ساتھ ہی ہوسکتے ہیں اگر دونوں کام ہوئے؟ سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اس میں سزا کی معطلی کی استدعاہوتی ہے اور اس کے ساتھ اضافی استدعا یہ ہوتی ہے کہ سزا معطل کر کے ہمیں ضمانت پر رہا کیا جائے تو یہ دونوں چیزیں جڑی ہوئی ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ سزا تو معطل ہوجائے لیکن ضمانت نہ دی جائے اور دوسری صورت میں ان کو ضمانت دیدی جائے اور سزا معطل نہ ہو، یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، یہ دونوں ریلیف یا اِس طرف یا اُس طرف ان کو ایک ریلیف ملے گی۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ یہ اہم بات ہے کہ سزا معطل ہو، ضمانت ہو تب ہی مریم نواز الیکشن لڑسکتی ہیں جس کا ظاہر ہے فیصلہ عدالت کرے گی، میڈیا احتساب عدالت میں آتا رہا، میڈیا جاتا تھا پھر رپورٹ کرتا تھا، اڈیالہ جیل میں میڈیا نہیں ہوگا، آپ سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے سوالات اٹھیں گے، ایسا نہیں ہے کہ میڈیا جاتا تھا ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آیا تو اس کے باوجود سوال اس ججمنٹ پر نہیں اٹھ رہے مگر کیا زیادہ سوال اٹھیں گے اگر اڈیالہ میں ٹرائل ہوتا اور میڈیا نہیں ہوتا یا میڈیا جاسکتا ہے؟ سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ یہ تھوڑا سا سوالیہ نشان بالکل اٹھتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب عدالت میں جتنی پروسیڈنگز ہوتی ہیں وہ اوپن کورٹ پروسیڈنگز ہوتی ہیں، اس میں تھوڑی سی پابندی اس وجہ سے ضرور لگائی جاسکتی ہے کہ اگر کیس ہائی پروفائل ہے تو کورٹ میں اگر گنجائش کم ہے تو اس کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے لیکن ایک سوال یہ ضرور آئے گا کیونکہ اکثر جو جیل ٹرائل ہوتے ہیں وہ انسداد دہشتگردی عدالت کے کیسوں میں ہوتے ہیں کیونکہ ان میں ملزمان بہت ہائی پروفائل ہوتے ہیں ان کی mobility problem ہوتی ہے کہ ان کو کورٹس میں لانا او ر واپس لے جانا ، سیکیورٹی پرابلمز تو اس وجہ سے ان کے جیل ٹرائل ہوسکتے ہیں لیکن اِن کیمرہ کوئی پروسیڈنگ نیب کی نہیں ہوسکتی یہ تھوڑا سا questionable issue ہے کیونکہ ایک عدالت ہے اور اس کی اوپن ٹرائل ہے اس کی ان کیمرہ پروسیڈنگ نہیں ہے تو اس میں میڈیا کے نمائندوں کو بھی، صحافیوں کو بھی اور دیگر لوگوں کو بھی جتنی اس میں گنجائش موجود ہے اس پر بلانا لازمی ہے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کے آنے سے ن لیگ کو کوئی فرق نہیں پڑا، عوام نظریات پر چارج ہوتے ہیں مگر نواز شریف کا تو بیانیہ ہی صحیح نہیں ہے، نواز شریف اور مریم نواز نے اپنی سیاست بچانے کیلئے واپسی کا فیصلہ کیا، لوگ نواز شریف کا کرپشن کا پیسہ بچانے کیلئے باہر نہیں نکلیں گے، نواز شریف اور مریم نواز کو اپنے استقبال سے بہت مایوسی ہوئی، لاہور جیسے شہر میں چند سو لوگ بھی اکٹھے نہیں ہوسکے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صرف عمران خان ہی نہیں حبیب جالب نے بھی کہا تھا کہ بیس کروڑ یہ گدھے کیا کریں گے کیا بنیں گے حکمراں، عمران خان کی طرف سے بھی نواز شریف کے استقبال کرنے والوں کو گدھا کہنا اسی تناظر میں تھا، عمران خان بنیادی طور پر یہ کہہ رہے تھے کہ کتنی بیوقوفی کی بات ہے کہ جن کا پیسہ لوٹا گیا انہیں کو نواز شریف کا استقبال کرنے کیلئے کہا جارہا ہے اورا ن میں سے کچھ چلے بھی گئے، جو لوگ اپنے پیسے لوٹنے والوں کا استقبال کرنے چلے گئے انہیں گدھا نہیں تو اور کیا کہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ بلاول بھٹو جو بھی بات کریں وہ اس وقت کھلاڑی نہیں ہیں، یہ تو بڑے کھلاڑیوں کی بات ہے جو اپنے ووٹرز کا جوش و جذبہ بڑھارہے ہیں، احتساب عدالت نے نواز شریف پر تین ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام لگایا ہے۔ سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی سے ن لیگ کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا، لیکن ان کے نہ آنے سے جو نقصان ہورہا تھا وہ اب رک جائے گا، نواز شریف کے استقبال کو ایونٹ شہباز شریف نے بنانا تھالیکن وہ ناکام رہے، شہباز شریف نے استقبالی یا مزاحمتی ریلی کے بجائے انتخابی ریلی نکالی، شہباز شریف کو خواجہ آصف اور پرویز رشید کو ساتھ کھڑا کر کے ایئرپورٹ جانا چاہئے تھا لیکن ان کے ساتھ رانا مشہود اور مشاہد حسین کھڑے تھے، شہباز شریف نے ایئرپورٹ کی طرف جانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ سات گھنٹے لاہور کے اندر ہی پھرتے رہے، نواز شریف کی واپسی سے ن لیگ کا ووٹر پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہوگا ، لیکن اس ریلی کی وجہ سے مجموعی طور پر بددلی کا تاثر بڑھا ہوگا، جب آپ جارحانہ رویے کیخلاف مزاحمت نہیں کرتے تو آپ کے ووٹر کے حوصلہ پست ہوتے ہیں، ایسی صورتحال میں ووٹر اس سیاسی جماعت کی طرف چلے جاتے ہیں جسے اقتدار میں آنا ہو، شہباز شریف کی شاید کوئی انڈراسٹینڈنگ بھی ہو کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ، شہباز شریف جمعہ کو سیاست کرسکتے تھے وہ نہیں کی ، وہ اس دن چیف منسٹر ہی رہے سیاستدان نہیں بن سکے، تحریک انصاف آہستہ آہستہ غالب آرہی ہے، پنجاب میں ن لیگ جیت بھی گئی تب بھی فارورڈ بلاک بن جائے گا۔ ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ پچھلے دو سال سے روپے کی قدر کم ہونے کے اشارے مل رہے تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی وجہ سے پچھلے چھ مہینے میں خدشات بہت بڑھ گئے تھے، اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے لگتا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر توقعات کے برعکس بہت زیادہ کم ہوئے ہیں، پاکستان معیشت کی صورتحال اس وقت بالکل اچھی نظر نہیں آرہی ہے۔

تازہ ترین