• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی کو ہونیوالے الیکشن میں اب صرف 10دن باقی ہیں اور الیکشن مہم ایک مشکل اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور تاحال کوئی نہیں جانتا کہ کراچی میں کون جیتے گا۔ ماضی کے برعکس جب ‘دیہی اور شہری‘ تقسیم کےباعث سیاست میں نسلی عوامل نمایاں تھے، اب شہرمیں بگڑتے ہوئے حالات لوگوں کےاہم مسئلے کے طور پر سامنے آئےہیں لیکن ایسے تین عوامل جوحالات بدل سکتے ہیں وہ نئےووٹرزاورنوجوان فیملی کےعلاوہ ’خاموش ووٹ‘ ہوں گے۔ اتوار کو ایم ایم اےکےجلسے کے ساتھ پہلے ہی مہم تیزہوچکی ہے، اس کےبعدعمران خان اور شہباز شریف 21جولائی اور22جولائی کو عوامی جلسوں سےخطاب کرنےپہنچیں گے۔ ایم کیوایم(پاکستان) کانیاچہرہ اوردوسال پرانی پاک سرزمن پارٹی مہم کےآخری دن 23جولائی کو عوامی جلسے کریں گے۔ یہ بھی پہلی بار ہے کہ وزیراعظم کےلیےدو ممکنہ امیدوار یہاں سے الیکشن لڑ رہےہیں یعنی عمران خان اور شہباز شریف، اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کےروایتی حلقے لیاری سے الیکشن لڑیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی اپناپہلاالیشکن 1997میں یہاں سے ہی لڑا تھالیکن وہ ہار گئے تھے۔ بلاول کا جیتنے کاامکان ہے اور ووٹ کافرق دیکھنا دلچسپ ہوگاکیونکہ گزشتہ چند انتخابات کےدوران حلقے میں پی پی پی پی کا ووٹ کم ہوا ہے۔ کراچی کی سیاست کئی دہائیوں سے روایتی عوامل کےگرد گھومتی ہے، جیسے کہ نسلی، مذہبی اور کراچی کی جانب قومی جماعتوں کی کم دلچسپی، اس کے نتیجے میں ’دیہی اور شہری‘ تقسیم کی بنیادپرسیاسی تفریق پیداہوئی۔ تاہم 2013میں نئے ووٹرزمیں اضافےکےباعث ایک تبدیلی اور انتخابی سیاست میں ان کی دلچسپی محسوس کی گئی۔ نہ صرف انہوں نے خود کو رجسٹرڈ کرایا بلکہ سرگرم بھی ہوگئے اور بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشنز بھی گئے۔ نوجوانوں اور فیملیز بالخصوص خواتین نے جماعتوں کو مجبور کیاہے کہ وہ اب صرف کارنرمیٹنگز اورعوامی جلسوں پرانحصارنہ کریں، بلکہ ’ڈورٹوڈور‘ جائیں اور مشکل سوالات کے جواب دیں۔ اس سے الیکشن کے نتائج پر کتنااثرپڑےگااس کا نتیجہ 25جولائی کو ہی آئےگا۔ 2013 میں اس کا کچھ اثرہواتھا اور اس بار مزید اس کا اثرنظرآئےگا۔ ایم کیوایم کےاثرورسوخ والے حلقوں میں ایم کیوایم کی کی تقسیم کےباعث ’خاموش ووٹرز‘ کی تعدادکافی ہے۔ ان کا فیصلہ اہم ہوگابالخصوص ایم کیوایم، پی ایس پی، ایم ایم اےجیسی جماعتوں کیلئے، لیکن اگرانہوں نے گھرپررہنےکافیصلہ کیا تواس سےپی ٹی آئی، پی پی پی، پی ایم ایل(ن)، ٹی ایل پی کواور کچھ حد تک اے این پی کو بھی فائدہ ہوگا۔ روایتی عوامل تاحال ختم نہیں ہوئے۔ سندھ کی سیاست میں نسلی حوالے سےحتٰی کہ آج بھی ان کااپنا کردارہے۔ کسی بھی ایسی پارٹی نے جس نے سندھ اور مرکزمیں حکومت بنائی اس نےکراچی سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ کیا تین جماعتوں پی ٹی آئی، پی ایم ایل(ن) یا پی پی پی میں سے کوئی اس بار تاریخ رقم کرسکتی ہے یا یہ معمول کے مطابق ہی کام ہوگا اور مرکزی جماعتوں میں سے زیادہ تر یہ 21سیٹیں شیئرکریں گیں۔ 2017کےبعد متنازع مردم شماری کےباعث قومی اسمبلی کی سیٹیں 20سے بڑھ کر21اورصوبائی اسمبلی کی 44ہوگئیں۔ حلقہ بندیوں سےپی پی پی کو دویاتین سےچار یا پانچ تک اپنی سیٹیں بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لہذاالیکشن2018ان عوامل کا مجموعہ ہوسکتاہےاور جوبھی پارٹی صورتحال سے فائدہ اٹھائےگی اسے انتخابات میں اضافی فائدہ ملےگا۔ کراچی انتخابات پر مقامی حکومتوں کا بھی اثرہوتا ہےجیسا کہ مضبوط مقامی حکومتوں کےنظام کی غیرموجودگی میں پاکستان کے دیگر حصوں میں ہوتاہے۔ بگڑتےہوئےشہری حالات جیساکہ پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، سڑکیں وغیرہ بھی لوگوں کے ذہین تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ لہذا کراچی کو ایک حقیقی ’’میٹروپولیٹن شہر‘‘ اور مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنےکامسئلہ بھی گزشتہ 15دنوں میں مہم پر چھایا رہا۔ چونکہ گزشتہ 45سالوں میں کراچی پر یا تو مذہبی جماعتوں کاکنٹرول رہا ہے یا نسلی جماعتوں کا، اس کی مرکزی قومی سیاست سے علحیدگی کی جڑیں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن تک جاتی ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی شکست نےکراچی کے ووٹرزکو قومی سیاست سےدور دھکیل دیاتھا اورگہری نسلی تفریق کے باعث وہ ایم کیوایم پراعتماد کرنےسےپہلےجماعت اسلامی اور جمعیتِ علمائےپاکستان کی طرف چلے گئےتھے۔ یہ عوامل شہری سیاست کاحصہ ہیں۔ نئی نظرآنےوالی ایم کیوایم(پاکستان) اپنےووٹ بینک کومتحد کرنےکیلئےتاحال ’مہاجرکارڈ‘ استعمال کررہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ پہلی بار تین قومی جماعتوں کے سربراہان ایک الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، عمران خان،شہباز شریف اوربلاول بھٹو۔ وہ مختلف حلقوں سے دوڑ میں شامل ہیں لیکن کراچی کی نشستیں کو حاصل کرےگا کیونکہ وہ سب اپنے گھریلوں حلقوں سے بھی لڑرہے ہیں یعنی میانوالی، لاہور اور لاڑکانہ۔ نوجوانوں کے عوامل کےباعث عمران خان کو کچھ حلقوں میں دیگر امیدواران کی نسبت کچھ فائدہ حاصل ہوگا، لیکن یہ دلچسپ ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنی پوزیشن کتنی بہتر کرےگی۔ پچھلی بار اس نے ایک قومی اسمبلی اور تین براہِ راست صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی تھیں۔ پی ایم ایل(ن) نے شہبازشریف کو لانےکابڑا فیصلہ کیاہے اور وہ ان کی فتح کیلئےپُرامید بھی ہیں۔ حتٰی کہ اگروہ نہیں بھی جیتتےتو بھی پی ایم ایل(ن) کویہاں سے لڑنےکےفیصلے کے باعث مستقبل میں فائدہ ہوگا۔ مضبوط اور منظم’مہاجرووٹرز‘ میں تقسیم کےباعث دیگرجماعتوں کو جگہ ملی ہےاور یہ دلچسپ ہوگا کہ تقسیم شدہ ووٹ پی ٹی آئی یا پی ایس پی کے حق میں جاتے ہیں۔ یہ عوامل فیصلہ کن ہوں گےکیونکہ متحدووٹ کے باعث ایم کیوایم جیتی تھی اور اگر انھوں نےاپنے ووٹوں کوبڑھانےکیلئےطاقت استعمال نہ کی یا کچھ سیٹیں ہاربھی گئےتب بھی وہ پہلے نمبرپرہی ہوں گے۔ موجودہ صورتحال میں ایم کیوایم(پاکستان)کا حصہ سب سےزیادہ ہے اوروہ اپنےمضبوط حلقوں میں ’ووٹ بینک‘ کو متحد رکھنےکیلئے بہت زیادہ کوشش کررہے ہیں۔ اگروہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور چھ سےساتھ سیٹیں نکال لیتے ہیں تو وہ مطمئن ہوں گے۔ وہ تاحال ’نسلی عوامل‘ پرانحصارکررہےہیں، جو ان کے منشور سے بھی ظاہر ہورہاہےجس میں وہ مزید ’انتظامی یونٹس‘یاصوبوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ موجودہ ایم کیوایم کو 1988 سے 2013 تک کی جیت سے جانچنا غلط ہوگا جو صرف2002 میں جب وہ ایم ایم اے کوچھ سیٹیں ہار گئے۔ پاک سرزمین پارٹی مہاجرووٹ بینک کو مرکزی سیاست میں واپسی کیلئے ایک درمیانی راستہ دکھا رہی ہےاور ان کی مہم بھی کافی منظم نظرآرہی ہے۔ سابق میئرمصطفیٰ کمال اور ایک منتظم انیس قائم خانی کی زیرقیادت پی ایس پی ایم کیوایم کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں لینےکیلئےپُرامید ہے۔

تازہ ترین