• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصل بات سے پہلے ان حاسدوں کا حساب صاف کر لیا جائے جو سمجھتے ہیں کہ خاکسار خود سے عنوان گھڑ کے اردو شاعری کے جھاڑ جھنکاڑ میں اضافہ کرتا ہے ۔ نیز یہ کہ اس کے خود ساختہ مصرعوں میں عیب تنافر پایا جاتا ہے اور ضاحافات کی کثرت ہوتی ہے۔ قسم لے لیجئے کہ جس چوپائے کو عیب تنافر اور ضاحافات میں فرق معلوم ہو، اسے موت سے پہلے خفیہ پولیس کی نوکری نصیب ہو۔ حضرت یہ درج بالا عنوان اردو کے ایک نفیس الطبع اور صاحب طرز شاعر احمد مشتاق کی تراوش فکر سے ماخوذ ہے ۔ بال کی کھال مت اتارئیے۔ شعر پڑھیے اور لطف اٹھائیے ۔
گھر سے نکلے تو ملاقات ہوئی پانی سے
کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے
فراوانی کی لغت ایک طرف مگر عزیزو، خوشیاں تو چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ بڑی خوشی میں تو ، مولا علی نے فرمایا، انسان منکشف ہو جاتا ہے۔ گلابی جاڑوں کے دن ہیں۔ ایک عزیز نے دوستوں کی محفل سجائی۔ مجیب الرحمن شامی فروکش تھے۔ کچھ خورد سال احباب مجلس میں پہنچے اور صف نعلین میں بیٹھ گئے۔ شامی صاحب نے کمال شفقت سے فرمایا، ”تشریف لایئے۔ آپ لوگوں کے آگے آنے کا وقت ہے“۔ صاحب آگے آنا ایسا آسان نہیں ہوتا۔ مت پوچھیے کہ صاحب ارشاد کی وسعت قلبی اور اپنی کم علمی پر نظر کرکے کیسی شرمندگی ہوئی۔ اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا۔ شان ِخدا ہے، آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا۔ ہمارے ملک میں اصحاب علم ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ خوش نصیب مشرق و مغرب کے شناور ہیں۔ انہوں نے علم اور ہنر کے ان سرچشموں سے پیاس بجھائی ہے جنہیں دور سے دیکھنا بھی ہمارا مقدر نہیں تھا۔ کچھ عشق تھا، کچھ مجبوری تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میری نسل بے آب و گیاہ ٹھہری۔ بعد میں آنے والوں سے البتہ بہت امید ہے۔ غالب نے کیا بھلی بات کہی۔ ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا۔ ہماری عذر داری مگر فیض صاحب نے داخل دفتر کی تھی۔ آنے والوں سے کہو ، ہم تو گزر جائیں گے۔ ہمارا زاد راہ محض یہ اعتراف ہے کہ اردو صحافت میں غلام رسول مہر ، چراغ حسن حسرت، منّو بھائی اور مجیب الرحمن شامی کی کرسیاں ہمیشہ خالی رہیں گی۔ رضا علی عابدی کا مقام البتہ الگ ہے۔ یہ حضرت دست ہنر سے چھانٹ کر قلم لگاتے ہیں۔ بنفس نفیس پیڑ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر ایک چھتنار سی شاخ کا انتخاب کر کے گھونسلہ بناتے ہیں۔ ایسے ظالم کا کیا کرے کوئی؟
اس پرلطف صحبت کی سرخوشی ابھی باقی تھی کہ میاں نواز شریف قومی ذرائع ابلاغ پر جلوہ افروز ہوئے ۔ فارسی میں کس سلیقے سے کہتے ہیں، اے آمد نت باعث آبادیٴ ما۔ فرمایا۔ ”عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ہم ایف آئی اے کے ذریعے تحقیق میں پورا تعاون کریں گے۔ فوج کے خیر خواہ ہیں۔ فوج کے جرنیل آئین و قانون کے مطابق چلیں تو ہمیشہ ان کی تائید کرتا ہوں۔ اداروں کو آئین و قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ اگر حکومت اپنے دائرے میں رہتی ہے تو دوسرے اداروں یا ان کے لوگوں کو بھی اپنے دائرے سے نہیں نکلنا چاہیے۔ ہم نے بہت سے اختلافات کے باوجود خندہ پیشانی سے اس حکومت کو برداشت کیا کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت عوام کی مدد سے تبدیل ہو اور آئندہ حکومت بھی عوام کے ووٹ سے بنے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ایک حکومت فوج کی چھتری کے بغیر اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور ایسا پہلی بار ہورہا ہے“۔ تیری آواز مکّے اور مدینے! خوبصورت استدلال اور کیسی پختہ سوچ۔ لہجہ سادہ و پرکار۔ اپنا سیاسی تشخص برقرار، اختلاف بیان کیا مگر قوم کے پاؤں تلے سے زمین نہیں کھینچی۔
اساتذہ نے بہت پہلے سمجھایا تھا ، بھائی جمہوریت کا شجر کچھ دیر میں پھل پھول لاتا ہے۔ ہر دوسرے روز اس کی پنیری اکھاڑ کے خورد بینی معائنہ مت کیا کرو۔ نواز شریف دو مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ہر لحاظ سے قابل احترام ہیں۔ غالباً وہ پاکستان کے واحد جمہوری سابق وزیراعظم ہیں جنہیں ساٹھویں سالگرہ نصیب ہوئی۔ ان کے سیاسی ارتقاء میں اس بلوغت کے آثار صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے محترم رہنماؤں کو یہ موقع نہیں مل سکا۔ نوابزادہ لیاقت علی چھپن برس کے تھے کہ کمپنی باغ راولپنڈی میں انہیں سازش کی گولی چاٹ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو لاکھوں دعاؤں کے سائے میں اکیاون برس کے ہوئے ۔ اڈیالہ کی منحوس جیل میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ بے نظیر بھٹو چون برس کی تھیں ، انہیں راولپنڈی سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ صاحب، پنڈی کی زمین پر ہمارا بہت قرض ہوگیا۔
بد خواہ مہینوں کی محنت سے سازش کے غبارے میں ہوا بھرتے ہیں۔ جمہوری رہنما سیاسی ڈھنگ سے اس کی ہوا نکال دیتے ہیں۔ ایک مرحلے میں جب دباؤ بہت بڑھ گیا تو شہید بے نظیر کی برسی پر آصف علی زرداری لاڑکانہ پہنچ گئے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے ایک خطاب کیا، پھر مہینوں کچھ سنائی نہیں دیا۔ ماندگی کے ایک وقفے کے بعد پھر سے میدان سجایا گیا، اس مرتبہ میاں نواز شریف آگے بڑھے۔ صرف ایک بیان کافی تھا کہ اگر جمہوری بندوبست کو غیر مستحکم کیا گیا تو میں پیپلز پارٹی سے بھی پہلے اس کی مزاحمت کروں گا۔
اگر آصف علی زرداری کی مفاہمت پر مبنی سیاست پاکستان کے مدبر رہنما غوث بخش بزنجو کی روایت کی توسیع ہے تو نواز شریف کی پہلو دار سیاست میں حضرت مفتی محمود مرحوم کی جھلک نظر آتی ہے۔ مقیم کون ہوا ہے ، مقام کس کا تھا۔ تھوڑا سا زاویہ بدل کے دیکھیے تو شمال میں اسفند یار ولی حریت کی روایت کے امین ہیں ۔ جنوب میں الطاف حسین پاکستان کے صنعتی اور تجارتی مفادات کے محافظ ہیں۔ آئندہ انتخابات کے بعد یقیناً اس تصویر میں نئے کردار شامل ہوں گے۔ یہ تو ایک خوشگوار منظر ہے۔ اس میں ایسی مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہیں جس کی چٹھی ہمیں ہر شام ذرائع ابلاغ کے ذریعے موصول ہوتی ہے۔ اگر قوم کی گاڑی جمہوریت کی پٹڑی پر چلتی رہے، تو اگلا اسٹیشن ضرور آئے گا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے سربراہ مملکت آصف علی زرداری ہیں اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف ہیں۔ جس ملک کی سیاسی قیادت میں ایسا تدبر، تحمل اور ضبط موجود ہو، وہاں جمہوری تجربہ ضرور کامیاب ہو گا۔ ایسی زندہ قوم میں فروغ گلشن و صوت ہزار کی مزاحمت ممکن نہیں۔
تازہ ترین