• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ڈیڑھ عشرے بعد اصغر خان کی پٹیشن پر جو اہم فیصلہ دیا گیا ہے اس نے سیاسی منظر نامہ کو کئی مباحث کی نذر کر دیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین بحث یہ ہے کہ کیا اس فیصلے کی روشنی میں کچھ سیاستدان نااہل ہو جائیں گے اور کچھ عسکری ملا کر وہ لوگ جن کے نام لئے جا رہے ہیں وہ بغاوت یا غداری کے الزام میں چالان ہو جائیں گے… ؟ اس اہم آئینی نکتے کو قانون کے میرٹ پر جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس اہم کیس میں الزام کی اصل نوعیت کو دیکھا جائے جو سابق عسکری عہدے دار کے بقول یہ ہے، آئی جے آئی کی کامیابی کے لئے کراچی کے کچھ تاجروں سے رقم اکٹھی کرکے آدھی نامزد سیاستدانوں میں تقسیم کر دی گئی اور آدھی سرکاری فنڈ میں ڈال دی گئی۔ اس الزام کے بارے میں سب سے بڑا تبصرہ یہ ہے کہ 1990ء کا الیکشن چوری ہو گیا یا اسے چرا لیا گیا، لہٰذا یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے موجودہ آئینی نظام میں عام پولیس، فیڈرل انویسی گیشن ایجنسی یا قومی احتساب کا ادارہ متعلقہ قوانین یعنی تعزیرات پاکستان ایف آئی اے ایکٹ یا قومی احتساب آرڈیننس کے تحت کوئی ایسا اختیار رکھتا ہے جس کو استعمال کرکے الیکشن کے متعلقہ کسی بھی تنازع کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے کر کوئی کارروائی کر سکیں گے…؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے، کیونکہ ان تینوں اداروں کا مینڈیٹ انتخابی تنازعات یا بڑی سے بڑی دھاندلی کے ذریعے الیکشن کے نتائج کو الٹا دینے کے الزام یا ثبوت پر بھی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا اور پھر یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں متعلقہ ناموں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم تو بجا طور پر صادر کیا گیا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے اس حکم نامہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ کارروائی کس قانون کی کون سی دفعہ کے تحت ہو گی…؟
اصغر خان کیس کے بطن سے ایک اور اہم سوال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کیا کسی سیاستدان یا فوجی کے خلاف بغاوت یا غداری کے الزام کے تحت کوئی قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب دینے کے لئے ہمیں آئین پاکستان مجریہ 1973ء کے آرٹیکل نمبر 6 کی ذیلی شق نمبر 3 کی طرف جانا ہو گا۔ اس میں یہ بات حتمی طور پر طے کر دی گئی ہے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہائی ٹریژن کے ملزمان کو سزا دی جائے گی۔ چنانچہ اس آئینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے پارلیمنٹ نے آئین کی تشکیل کے ساتھ ہی ہائی ٹریژن پنشمنٹ ایکٹ مجریہ 1973ء بھی بنا ڈالا جس کے شیڈول میں ان جرائم کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس قانون کے تحت قابل دست اندازی اور قابل سماعت ہوں گے۔ 1973ء کے اس ایکٹ میں ایسی کوئی دفعہ یا ضابطہ شامل نہیں ہے جس کی رو سے کسی بھی سطح کے انتخابی تنازع کو غداری یا بغاوت کے نام سے موسوم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ پچاس کی دہائی میں بننے والے آرمی ایکٹ کا بھی یہی حال ہے اس میں بھی کوئی الیکشن کا معاملہ جرم کی تعریف یا شیڈول میں شامل نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر وہ کون سا قانون ہے جس کے ذریعے سے اصغر خان کیس کے آئینی تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں…؟ اور کیا ہمارے ملکی قوانین اس حوالے سے خاموش کیوں ہیں؟ اس کا جواب پاکستان کے آئین کے باب نمبر 2 اور آئین کے آرٹیکل نمبر 225 میں پوری وضاحت اور مکمل صراحت سے دے دیا گیا ہے اور سب جانتے ہیں قانون سازی کی دنیا میں آئین کو برتر قانون یا سپریم لا مانا جاتا ہے۔ اس برتر قانون نے انتخابی تنازعات کے لئے نہ صرف طریقہ کار وضع کر دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس آرٹیکل 225 کے عنوان یا ٹائیٹل کے طور پر جو دو الفاظ چنے ہیں وہ بھی بڑے معنی خیز ہیں جو کہ یہ ہیں (ELECTION-DISPUTES) یا انتخابی تنازعات، اسی آرٹیکل میں ان تنازعات کو طے کرنے کے لئے عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت قائم کئے ٹربیونل کو فورم کے طور پر چنا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام انتخابی تنازعات کو عذرداری کے ذریعے صرف اور صرف اس ٹربیونل کے پاس ہی لے جایا جا سکتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس سارے معاملے میں واحد راستہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فورم کی طرف کھلتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 225 ہی کے اندر انتخابی تنازعات خواہ ان کی نوعیت کوئی بھی ہو کسی بھی دوسرے فورم میں نہ لے جانے کا امتناعی کلاز بھی موجود ہے جس کی زبان کسی طرح کی وضاحت یا ابہام دونوں ہی سے مبرا ہے لہٰذا اس مرحلہ پر اس حتمی نوعیت کے آئینی حکم کو یہاں درج کر دینا زیادہ مناسب ہو گا جو کہ یہ ہے… ”No Election Shall be Called in Question Except“ یعنی اس آئینی کلاز میں دیئے گئے طریقہ کار اور فورم کے علاوہ کوئی قومی و صوبائی الیکشن کا تنازع کسی دیگر طریقے سے یا کسی دیگر فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل میرے شہر یعنی وفاقی دارالحکومت میں کچھ عناصر کبھی منفی ایک اور کبھی منفی دو کے دعوے کرتے ہیں، مجھے کسی دعوے سے غرض نہیں صرف اس بات سے تعلق ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ”سویلین سپرمیسی“ کا جو موقع آج سے تقریباً ایک سو دن بعد قوم کو مل رہا ہے اسے کسی بند گلی میں نہ دھکیلا جائے اور اگر مائینس ون یا منفی دو کی روح پھونکی گئی تو پھر نہ تو الیکشن کا عمل قابل قبول رہے گا اور نہ ہی مخصوص لوگوں کے درمیان نورا کشتی کو کوئی الیکشن مانے گا۔
اصغر خان پٹیشن پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے جو جوڈیشل احتیاط کے اصول کو بھی پوری طرح اجاگر کیا ہے جس کی اشد ضرورت بھی تھی خاص طور سے آرمی چیف اور چیف جسٹس کے دو بیانات کو جس طرح ”سیاسی ٹاکرا“ بنا کر پیش کیا گیا تھا اس کے بعد عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہماری قومی سلامتی کی واحد عملی ضمانت فراہم کرنے والے اداروں کی سیاسی الزامات سے بریت کا کھلا اعلان ہر لحاظ سے قابل تحسین اور بروقت قدم ہے، اسے نظریہ ضرورت کی عینک ہیں کہ الیکشن کا کوئی چانس نہیں ہے ان کے لئے اس خلاف واقعہ تاثر کو پختہ کرنے کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ اسی لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ابھی تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا حالانکہ 20ویں آئینی ترمیم کے بعد اب کسی کو بھی اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ کوئی حکومت الیکشن ملتوی یا منسوخ کر سکتی ہے۔ ہاں اگر کوئی سیاسی ہرکولیز ایسا بھی ہے جو آئین کو سبوتاژ، پامال یا معطل و منسوخ کر سکے تو پھر الیکشن ملتوی یا منسوخ ہو سکتے ہیں۔ اس مخمصے میں سے قوم کو نکالنے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی متعلقہ ادارہ ہے جس کو واضح اعلان کر دینا چاہئے کہ موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی آئینی عمر 18مارچ 2013ء کو ختم ہو جائے گی اور پھر کیئر ٹیکر حکومتیں مارچ کے طے شدہ وقت کے اندر اندر عام انتخابات منعقد کروانے کی پابند ہوں گی۔ میں یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ملک کے سیاسی منظرنامے کے لئے رواں ہفتہ بھی اتنا ہی ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے جتنا اصغر خان پٹیشن پر ابتدائی فیصلے والا ہفتہ تھا کیونکہ اہل خبر اس ہفتے میں بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے روبرو سماعت کے لئے لگائے گئے تین بڑے مقدمات کے نتیجے میں بڑی خبریں لگانے کی شہ سرخیاں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ لیکن وہ خوش خیال جو اصغر خان کیس کے نتیجے میں غدار، باغی یا نااہل سیاستدان تلاش کر رہے ہیں انہیں آئین کے آرٹیکل 10-A کی وجہ سے مزید ایک سو دن مایوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ابھی تک کسی تفتیشی ادارے نے اصغر خان کیس کے نتیجے میں ابتدائی انگڑائی بھی نہیں لی…
تازہ ترین