• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک میں جمہوریت اس وقت اتنی لنگڑی لولی ہوچکی ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی بھی سیاسی حکومت پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمیشہ ہی حکمرانوں نے عوام کو دھوکوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب الیکشن قریب ہیں ایک بار پھر پانچ سال بعد سیاستدان دوبارہ عوام کی عدالتوں میں موجود ہیں لیکن اس دفعہ عوام خاصے باشعو ر ہوچکے ہیں اور حکمرانوں اور سیاستدانوں سے گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں کچھ سیاستداں تو اپنے رعب اور دبدبے کی بنیاد پر عوام کو خاموش کرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں جبکہ کچھ منہ چھپائے پھر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس قدر بااختیار ہوگئے کہ اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں؟ شاید ایسا ممکن نہیں کیونکہ غربت اور تعلیم کی کمی اور ذات برادری کے دبائو کے باعث عوام کو ایک بار پھر انہی وڈیروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کو منتخب کرنا پڑے گا اور اگلے پانچ سال تک پھر اپنے ہی منتخب کردہ ارکان اسمبلیوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہنا پڑے گا۔ اس وقت معاشرے میں جو ایک مثبت تبدیلی نظر آتی ہے وہ عدلیہ کی جانب سے پسے ہوئے عوام کے حقوق کے لئے از خود نوٹس کے ذریعے اقدامات ہیں، عوام اس وقت اعلیٰ عدلیہ کو نجات دہندہ تصور کررہے ہیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب ایک معذور سائل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خود سپریم کورٹ سے باہر آکر اس کی دادرسی کررہے ہیں، جسکی منتخب وزیراعظم سے کبھی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب خود اسپتالوں کے دورے کرکے غریب مریضوں کے علاج معالجے کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لئے ہدایات دیتے ہیں منتخب حکمرانوں سے ایسی امیدیں کم ہی رکھی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے ڈیموں کے مسئلے کا حل نکال کر پوری قوم کا دل جیت لیا ہے غرض پاکستان کے کسی بھی حصے میں مظلوم عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر چیف جسٹس کی جانب سے نوٹس لینے کی بدولت اب انتظامیہ بھی حرکت میں رہتی ہے کہ کہیں ان سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کسی واقعے کا نوٹس نہ لے لے۔ بلاشبہ ہمارے مذہب کی بھی یہی شان ہے کہ انصاف ایسا ہو کہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے، ہمارے خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قاضیوں کا کردار انتہائی اہم رہا ہے اور بڑے بڑے خلیفہ بھی قاضی وقت کے سامنے انصاف کے لئے عام آدمی کی طرح حاضر ہوتے تھے۔ غریب کو بھی قاضی پر بھروسہ ہوتا تھا اور قاضی کا انصاف بھی ایسا ہوا کرتا تھا کہ شکایت یا الزام سچ ثابت ہوجائے تو حاکم کے خلاف فیصلہ اور اگر جھوٹ ثابت ہوجائے تو جھوٹی شکایت کرنے والے کی خیر نہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد آج بھی کچھ اسی طرح قائم ہے جس میں چیف جسٹس صاحب کے انسانی حقوق اور عوامی مفادات کے معاملے پر از خود نوٹس اور پھر بہترین فیصلوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دل بھی جیت لئے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ جب ایک جاتی ہوئی حکومت کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی جماعت اگلی دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی اور مخالف جماعت کے آنے کے امکانات واضح ہیں تو ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک کی معیشت کو نشانہ بنانا شروع کردیا جاتا ہے تاکہ آنے والی حکومت کو ملک معاشی بحران میں گھرا ہوا ملے اور موجودہ حکمراں جماعت مستقبل میں اپوزیشن میں بیٹھ کر نئی حکومت پر تنقید کرسکے۔ اس حکمت عملی پر عملدرآمد اورملکی معیشت پر حملے کے لئے ایک غیر منتخب شخص کو وزیر خزانہ بنا کر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا آغاز کیا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے ملکی کرنسی کی شرح کو اچانک اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گرانے کا عمل شروع ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فی ڈالر ایک سو پانچ روپے سے کرنسی کی قیمت کم ہوتے ہوتے صرف چند ماہ کے عرصے میں ایک سو تیس روپے فی ڈالر سے بھی زائد گرادی جاتی ہے جس کے لئے بہانہ یہ تراشہ جاتا ہے کہ ملکی کرنسی کو مصنوعی طور پر مضبوط رکھا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمراں اگلی آنے والی حکومت کو ورثے میں اتنی معاشی مشکلات دیکر جانا چاہتے ہیں کہ اگلے کئی سالوں تک نئی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں ہی لگی رہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جانے والے حکمرانوں کے اس طرز عمل سے پاکستان کے اوپر قرضہ آٹھ ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے اور نئی آنے والی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جائے گی اور مزید قرضہ لے گی۔ بین الاقوامی معاشی اداروں کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لئے عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے گا اور آخر میں پاکستانی عوام کو حکمرانوں کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کھیل کی قیمت ادا کرنا پڑے گی وہ عوام جو پہلے ہی شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں اور پہلے ہی روپے کی قدر میں بھاری کمی کے سبب مہنگائی کے جن کا سامنا کررہے ہیں ان پر ملکی قرض اتارنے کے لئے مزید ٹیکس عائد کیے جائیں گے اور ہمارے مظلوم عوام ظلم اور مہنگائی کی چکی میں پستی رہیں گے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں جان بوجھ کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے غلط فیصلے کرنا بھی ناقابل معافی جرم ہونا چاہیے جس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے لیکن اس کے لئے بھی عوام اب عدلیہ کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں ۔اس وقت سب سے اہم اقدام جو چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی جانب سے سامنے آیا ہے جس نے عوام کے دل جیت لئے ہیں وہ پاکستان میں ڈیموں کے قیام کے لئے انتہائی کم وقت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے دیا میر بھاشا ڈیم اور منڈا ڈیم کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں فنڈز جمع کرنے کا کام ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے توقع ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی دل کھول کراس فنڈز میں عطیات جمع کرائیں گے اور پاکستان کے مستقبل کے ضامن اس منصوبے کو مکمل کرنے میں سپریم کورٹ کی دل کھول کر مدد کریں گے۔ اس وقت عوام سپریم کورٹ سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس بات کی بھی تحقیقات کرائی جائے کہ پاکستانی کرنسی میں اتنی تیز رفتاری سے کمی کرنے کے کیا مقاصد ہیں کیا یہ آنیوالی حکومت کو سیاسی و معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سازش تو نہیں ہے اور اگر ہے تو اس سازش میں ملوث افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ جہاں تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا سوال ہے تو یہ اسی لاکھ باشعور پاکستانی اپنے ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں جو سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے ڈیموں کی تعمیر کے فنڈ میں دل کھول کر فنڈز دیں گے اور پاکستان کو پانی کی کمی کے اہم مسئلے سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین