• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لمحوں میں رسائی

وہ دن ہوا ہوئے جب کارنر میٹنگز،نعرے بازی، ریلیاں ،جلسے جلوس اور گلی محلے میںلائوڈ اسپیکر کا شور، امید واروں کی برائے ووٹ دردر دستک،سرِ شام انتخابی دفاتر میں کارکنوں کا ہجوم،پارٹی ترانے،کسی میلے کا سماں پیدا کرتے تھے ، یکایک ذرائع ابلاغ کی دنیا میںانقلاب آیا اور سوشل میڈیا نےدنیا میں ہلچل مچادی۔ عام آدمی کی زندگی میںسوشل میڈیا کا عمل دخل اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ دنیا ان کی انگلی کے پوروں پر آگئی ہے۔ چند برس پیشتر کراچی میں ایک اغوا شدہ طالب علم کی بازیابی فیس بک کے ذریعے ہوئی تو علم ہوا کہ اس کے اغوا میں بھی فیس بک کا استعمال ہوا تھا۔نئی نسل اس تیز ترڈیجیٹل دنیا میں ڈوبی ہوئی ہےاور اس سے مکمل فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔ اس بارانتخابات میں فیس بک، ٹیوٹر، انسٹا گرام بہت زیادہ مصروف ہیں،دورِحاضر کے طاقت ور ترین،تیز ترین ، فوری و موئثرذریعہ اظہارسوشل میڈیا(فیس بک،ٹیوٹر،واٹس اپ،یو ٹیوب،انسٹا گرام)کسی فرد،ادارے اور ریاست کے دیگر معاملات پرآواز بلند کرنے کے علاوہ انتخابی عمل میں بھی اپنا گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں

فرزانہ روحی اسلم

وہ دن ہوا ہوئے جب کارنر میٹنگز،نعرے بازی، ریلیاں ،جلسے جلوس اور گلی محلے میںلائوڈ اسپیکر کا شور، امید واروں کی برائے ووٹ دردر دستک،سرِ شام انتخابی دفاتر میں کارکنوں کا ہجوم،پارٹی ترانے،کسی میلے کا سماں پیدا کرتے تھے کہ یکایک ذرائع ابلاغ کی دنیا میںانقلاب آیا اور سوشل میڈیا نےدنیا میں ہلچل مچادی۔ عام آدمی کی زندگی میںسوشل میڈیا کا عمل دخل اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ دنیا ان کی انگلی کے پوروں پر آگئی ہے۔ چند برس پیشتر کراچی میں ایک اغوا شدہ طالب علم کی بازیابی فیس بک کے ذریعے ہوئی تو علم ہوا کہ اس کے اغوا میں بھی فیس بک کا استعمال ہوا تھا۔نئی نسل اس تیز ترڈیجیٹل دنیا میں ڈوبی ہوئی ہے،اور اس سے مکمل فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔لہٰذا اس بارانتخابات میں فیس بک،ٹیوٹر،انسٹا گرام بہت ذیادہ مصروف ہیں۔

دورِحاضر کے طاقت ور ترین،تیز ترین ، فوری و موئثرذریعہ اظہارسوشل میڈیا(فیس بک،ٹیوٹر،واٹس اپ،یو ٹیوب،انسٹا گرام)کسی فرد،ادارے اور ریاست کے دیگر معاملات پرآواز بلند کرنے کے علاوہ انتخابی عمل میں بھی اپنا گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنے والوں،اپنے پسندیدہ و نا پسندیدہ امیدوار کی حمایت و مخالفت میں بولنے والوں کو، ایک دوسرے کی قربت نصیب ہو گئی ہے۔

شکوہ شکایتیں،وعدے وعید، راضی نامے،پیغام رسانی ،سبھی سوشل میڈیا کی بدولت نہایت سہل ہو چکے ہیں۔بلا معاوضہ و براہِ راست اپنے ووٹرزسے رابطہ رکھنے والے یہ ذرائع نہایت کامیابی سے اپنا سفر طے کرتے جا رہے ہیں۔فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کے مطابق ،،انھوں نے ایک تحقیق کا آغاز کیا تھا کہ جمہوری عمل پر سوشل میڈیا کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟تاکہ جمہوریت کی سالمیت پر بات کی جا سکےاور دنیا میں ہونے والے الیکشن کی شفافیت برقرار رکھی جا سکے۔

امریکی انتخابات، نئے افق

۲۰۱۶ میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب امریکا کے صدر کی حیثیت سے ہوا تو لوگ دنگ رہ گئے کہ ایک کاروباری اور ٹی وی اسٹار کیوںکر دنیا کا طاقتور ترین شخص بن کر ابھرا،جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یقیناََ سوشل میڈیا سیا سی فیصلہ سازی میں بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور شہریوں پر بھی ۔تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پرجاری رہنے والی سر گر میاں محض پرو پیگنڈہ ہوں یا جھوٹی خبریں اڑائی جا رہی ہوں۔

فیس بک ،ٹیو ٹر، یو ٹیوب،واٹس اپ انسٹا گرام وغیرہ ڈر امائی انداز میں رابطہ مہم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سیاست میں سوشل میڈیا کا غلبہ رائے دہندہ اورامیدوار دونوں کی دلچسپی اور انہماک پر ہے۔اول تو یہ کہ امیدوار سے بلا معاوضہ،بلا تردد،براہِ راست رابطہ ہو جاتا ہے۔یہ سیاسی جماعتیں اپنا منشور یا نکتہ نظر ادائیگی کے ذریعے اور مفت بھی پیش کر تے ہیں۔اس پلیٹ فارم کے ذریعے مخصوص سوچ کو بدلنے، شعور کو بیدار کرنے،اور اپنے دیرینہ حلقے کو تبدیل کرنے کے علاوہ تبادلہ خیال کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔

انتخابی عمل کے دوران سوشل میڈیا ایک ،، ہاٹ پروموشنل ٹول،، کے طور پر نمایا ہوا ہے۔انتخابی گھما گھمی، گلی محلوں سے نکل کر فیس بک ،ٹیو ٹر،واٹس اپ تک آگئی ہے۔ جہاں ووٹرزاپنے گزشتہ تجر بات آپس میں شیئر کرتے ہیں،شکایات درج کرتے ہیںاور براہِ راست کھل کر تنقید بھی کرتے ہیں،گویا اس طرح الیکشن کے دوران رائے عامہ ہموار کیا جا تا ہے۔اس نئی ٹیکنا لوجی کے ذریعے بطورِ خاص نئی نسل کو رائے دہندگی کے لئے تیار کیا جا تا ہے۔

امریکی اخبار گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق،فیس بک ، ٹیو ٹر اور انسٹا گرام وہ نئے افق ہیں جو مارکیٹنگ پو لیٹیکل کمپیئن کے ذریعے امیدواروں اور ووٹرز کے درمیان باہم ملا قات کا ذریعہ ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات کے دوران چوالیس فیصد بالغ امریکنوں نے سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کیں جب کہ چوبیس فیصد نے ہیلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں خبریں حاصل کیں۔ٹرمپ کے ٹیوٹر پرتقریباََ دس ملین فالورز ہیں،جبکہ کلنٹن کے سات ملین۔فیس بک فالورز نو ملین ہیں۔۲۰۱۶ کے انتخابات میں محدود نششتوں کے لیے امیدوار، فیس بک پر اوسطاََ پانچ سے سات پوسٹ فی یوم اپلوڈ کرتے رہے، اور دس سے بارہ پوسٹ فی یوم اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر۔

پاکستان میں نیا زمانہ نئے انتخابات

سوشل میڈیا نے عوام اور سیاسی جماعتوں کے پرانے طریقہ کار کا تقریباََخاتمہ کر دیا ہے۔ان جدید سہولیات سے امیدواران،ان کی جماعت،اور کارکنان بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے نوجوان سوشل میڈیا کے ماہرین ،اپنی جماعت کے پیغام کو لمحہ لمحہ ٹوئیٹ کر رہے ہیں،ملک بھر میں پھیلنے والے ان پیغامات سےتحریکِ انصاف کے مقاصد کو وسیع پیمانے پر وسعت پذیری حاصل ہو رہی ہے ۔ان کی دیکھا دیکھی دیگر جماعتوں نے بھی ٹیوٹر انسٹا گرام پر لمحہ بھر میں عوام تک رسائی حاصل کر لی۔تمام سیاسی رہنما بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز،شہباز شریف،،عمران خان،شیخ رشید، فاروق ستار، بہت سے قومی و بین الاقوامی ایشوز پر اپنا نکتہ نظر ٹیوٹر کے ذریعے بیان کر رہے ہیں۔ جو لمحہ بھر میں نہ صرف وائرل ہو رہے ہیں بلکہ مختلف ٹی وی چینلز،ویب سائیٹس ،اسے بریکنگ نیوز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں بلکہ اس پر ماہرین کی گفتگو اور بحث مباحثہ بھی جاری ہے۔بلاگز لکھے جا رہے ہیں ۔جنھیں اپنے اپنے گروپس میں شیئر بھی کر رہے ہیں۔ان کاموں کے لئے باقائدہ معاوضوں کے عوض ماہرین رکھے گئے ہیں ۔بلاول بھٹو نے جب سب سے پہلے ٹویٹ استعمال کیا ،تو اس کی ہنسی اڑائی گئی تھی بعد ازاں سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سب اسی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہو تےگئے۔پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئر مین عمران خان ،پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری،پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی رہنما مریم نواز ٹیو ٹر کا روزانہ پا بندی سے استعمال کر تے ہیں۔ ان کے لا تعداد فالورز ہیں۔تاہم ان تمام میں عمران خان مقبول ترین لیڈر ہیں،سوشل میڈیا کے استعمال کا سب سے دیرینہ تجربہ تحریکِ انصاف کا ہے۔ جنکے ٹیوٹر پرآٹھ ملین سے زائد فالورز ہیں،لمحہ بھر میں انھیں اپنےفالورز کےلاکھوں لائکس مل جاتے ہیں۔پی ایل ایم کی مریم نواز دوسرے نمبر پر،جن کے چار اعشاریہ تہتر ملین لائکس،جب کہ بلاول کے دو اعشاریہ بہتر ملین فالورزٹیوٹر پر ہیں،علاوہ ازیں فیس بک فرینڈز الگ ہیں۔ ان تمام جماعتوں کے آفیشل پیجز بھی ہیں۔

اس بار بلوچستان کی سیا سی جماعتیں،بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنمائوں نے صوبے کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی مہم کے دوران باقاعدہ پلاننگ کے تحت اس ٹیکنا لوجی کا سہا را لیا ہے اور وہ بھی فیس بک ،ٹیوٹر سے مستفید ہو رہے ہیں۔بلوچستان کے سابق وزیرِاعلی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئر مین سردار اختر مینگل نے اپنی عوامی مہم کا آغاز ہی ٹیوٹر پر اس بات سے کیا کہ کارکن بی این پی (مینگل) کو بھر پور سپورٹ کریں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر جام کمال نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز سے ہی فیس بک اور ٹیوٹر پر آپس میں دھواں داربیانات کا تبادلہ کیا اور پولنگ میں دھاندلی سے متعلق ایک دوسرے کو زبردست ری ایکشن کا سامنا کرنے کی دھمکی دی۔دونوں رہنمائوںنے ایک دوسرے کا نام لیئے بِنا ٹوئیٹ کیا جسے تمام اخبارات ،ٹی وی چینلز اور ویب سائیٹس نے رپورٹ بھی کیا۔بلوچستان میں یہ بھی ایک نیا ٹرینڈ تھا کہ دونوں رہنمائوں نے آپس میں مباحثہ کیا۔سردار اختر مینگل نے نہایت کامیابی کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنے قدم جما رکھے ہیں۔موجودہ انتخابات میں اس بار بلوچستان کی سیاسی فضا میں تبدیلی سوشل میڈیا کے سبب ہی آئے گی،جس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم،صحت،روز گار،توانائ اور معاشی ڈویلپمنٹ پر زیادہ تر جماعتوں نے کوئی قابلِ عمل کام نہ کیا ،نہ ہی س کی منصوبہ بندی کی اور ا س معاملے پرعوام تک کوئی رسائی بھی نہیں رکھتی ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے دیرینہ ووٹرز کے بدل جانے کا بھی امکان ہے۔بلوچستان کے شہری علاقوں میں سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہےجب کہ دیہی علاقے اس سے ابھی تک محروم ہیں۔عوام کی اکثریت نا خواندہ ہے،یہی سبب ہے کہ وہ جدید ٹیکنا لوجی کی اہمیت اور اس کے استعمال سے ناواقف ہے۔

حالات حاضرہ سے باخبری

الیکشن میں سوشل میڈیا کا کردار اور اہمیت کے حوالے سے شعبہ صحافت کراچی یو نی ور سٹی کی لیکچرارفلک نازکا کہنا ہے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا کئی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔سیاسی گفتگو اور رائے عامہ کے اظہار کے لئے عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی اس سے مستفید ہورہے ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنا منشور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا کر براہِ راست ان سے بات چیت کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر جہاں مستقل تازہ ترین خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔وہاں اس خبر کی سچائی اور ذرائع کی تصدیق بھی تعلیم یافتہ صارف باآسانی کر سکتے ہیں۔

فیس بک اور ٹیوٹر دو ایسے اہم نیٹ ورک ہیں۔ جن تک صارفین کی باآسانی رسائی ہوتی ہےاور یہی عوام میں مقبول بھی ہیں۔ان ہی دو نیٹ ورک کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے۔متفق اور غیر متفق رائے کوسوشل میڈیا پر مختلف سیاسی جماعتیں،سول سوسائٹی اور میڈیا انسٹی ٹیوٹ استعمال کرتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے اہم اعلانات بھی سوشل میڈیا پر ہی ہوا کرتی ہیں۔جس سے نہ صر ف عوام بلکہ مرکزی میڈیا بھی معلومات حاصل کرتی ہے۔سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس کی ایک بنیا دی وجہ یہ ہے کہ انٹر نیٹ کی عام افراد تک رسائی با آسانی ہو جاتی ہے۔اس کے صارفین اٹھارہ سے پچاس برس کی عمر کےافراد ہیں،ووٹ ڈالنے کی عمر بھی یہی ہے۔

معاشرے میں سوشل میڈیا کے اثرات جلد اور تیزی کے ساتھ پھیلتے ہیں۔سوشل میڈیا کی مدد پر عوام کی طاقت سے حالات و واقعات میں تبدیلی آسکتی ہے۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کے ذریعے آنے والی تبدیلی یا قائم ہو نے والی رائے کتنی دیر پا ہو سکتی ہے۔سوشل میڈیا معاشرے میں سوچ کو بیدار کرتا ہے۔شاہ زیب قتل کیس کی سب سے پہلی مہم ٹیوٹر اور فیس بک پر چلی تھی۔ بیک وقت مختلف صارفین نےٹیوٹر کے ذریعے جاگیر داری نظام کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی،ممتاز قادری کے نمازِ جنازہ پرپیمرا کی جانب سے مکمل پابندی عاید کی گئی تھی ،ایسی صورتِ حال میں ٹیوٹر اور فیس بک نے اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔اسلام آباد میں خادم حسین کے جلسے میں بھی مرکزی میڈیا پر پا بندی عاید تھی اس وقت سوشل میڈیا ہی واحد ذریعہ تھا جس نے اپنے صارفین کو صورتِ حال سے آگاہ رکھاایک اور نکتہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا نہ صرف رائے عامہ کی تعمیر کرتا ہے بلکہ بہ ضرورتِ وقت مرکزی میڈیا(اخبارات،ریڈیو،چینلز) کا متبادل بھی ثابت ہوتا ہے۔

۲۰۱۴ کی لوک سبھا کے الیکشن میں،،بی جے پی،، کے سوشل میڈیا سیل نے صارفین میں مقبولیت حاصل کی،نتیجتاََ وہ الیکشن میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔۲۰۱۷ کے امریکی صدارتی انتخابات میں سوشل میڈیا کا واضح اثر دکھائی دیتا ہے۔ ووٹرز کو سماجی مسائل پر بحث اور مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایتاور مخالفت میں پوسٹیں لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔۲۰۱۸ میں سوشل میڈیا کا سب سے بڑا اسکینڈل،،کیمبرج اینالٹیکا اسکینڈل،، تھا جس میں ثابت ہوا کہ فیس بک نے ۲۰۱۷ کے امریکی الیکشن میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ سوشل میڈیا کے فورم پر سیاسی سر گرمیوں کی وجہ سے اس کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اس لیئے کہ یہ عام شہریوں میں سیاسی جذبے کو فروغ دینے کے لیئے مختلف طریقے فراہم کرتا ہے۔ جس سے نہ صرف ان کے شعور میں اضا فہ ہوتا ہے بلکہ ووٹ کی اہمیت اور بہتر سیاسی جماعت کو منتخب کرنے کا شوق بھی پروان چڑھتا ہے۔سوشل میڈیا انتخابات اور انتخابی مہم دونوںمیں اپنا مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

سب کہہ دو، پابندی کوئی نہیں

الیکشن میںسوشل میڈیا کی اہمیت کے حوالے سےآئی بی اے،کراچی یونی ورسٹی کی ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہےکہ، ،، الیکٹرانک میڈیا پر جو بات نہیں کی جا سکتی یا جس بات کو بیان کرنا ممنوع ہو،وہ سوشل میڈیا پر باآسانی کہی جا سکتی ہے۔مار شل لا کے دور میں جب اخبارات پابندیوں کا شکار ہوئے تب تازہ ترین خبریں قارئین تک پہنچانے کا کوئی دوسراذریعہ نہیں تھا ،لیکن سوشل میڈیا کی موجودگی نے اب یہ مشکل آسان کر دی ہے۔جو بات ہم پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر نہیں کہہ سکتے اس پر سوشل میڈیا پر بحث کر سکتے ہیںجو تنقید سوشل میڈیا پردیکھتے ہیںوہ کسی اور ذرائع ابلاغ میں نہیںہے۔

بے شک سوشل میڈیا کا استعمال اب بہت زیادہ ہے،پھر بھی اس کا پھیلائو شہری علاقوںتک محدود ہے۔اسے تعلیم یافتہ طبقہ ہی استعمال کرتا ہے۔عام آدمی اس سے اس انداز میں فیض یاب نہیں ہو سکتا ،جس طرح اعلی تعلیم یا فتہ طبقے کے افراد اس سے فائدہ اٹھا تے ہیں وہی اس کی قدر و قیمت کو بھی سمجھتے ہیں ۔اس بار کے الیکشن میں سوشل میڈیا کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس کا کر دار بھی پہلے سے فزوں تر ہو گیا ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال نئی نسل بہ کثرت کرتی ہے،۲۰۱۸ کے الیکشن میں نوجوان نسل کے نمائندوں کی شمولیت بھی ذیادہ ہو گی،لہذا وہ سوشل میڈیا پر انحصار بھی زیادہ کریں گے۔

لمحوں میں رسائی

سوشل میڈیا کی وجہ سے اب کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔دیکھتے ہی دیکھتے ویڈیو وائرل ہو جاتی ہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت کےرہنما کا بیان یا سخت رویہ فوری طور پر فیس بک، ٹیوٹر،انسٹا گرام پر آجاتی ہیں جسے دنیا دیکھتی ہے۔یہ سوشل میڈیا کا ہی کرشمہ ہے کہ عوام اپنے مسائل پر اپنے حلقے کےنمائندوں سے درشت لہجے میں باز پرس کرنے لگے ہیں ۔الیکشن ۲۰۱۳ میں ایک خاتون امیدوار نے اندرون سندھ،پولنگ آفیسر کو سرِعام تھپڑ مار دیا تھا۔وہ واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی منظرِ عام پر آیا تھا۔اب ایسا برا سلوک کسی کے ساتھ کرتے ہو ئے کوئی کئی بار سوچے گا،کیوں کہ سوشل میڈیا سب پر نگاہ مرکوز رکھتا ہے۔

کسی بھی معاملے میں سوشل میڈیا لوگوں کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کرے یا نہ کرے،اپنا اثر و رسوخ ضرور رکھتا ہے۔اسے کنٹرول کرنا مشکل ہے یہ رابطے کا ایک نہایت اہم ذریعہ ہے۔اس پر سیاست دانوں کا اثر و رسوخ بھی نہیں چلتا،لہذا اس سے کوئی کوتا ہی یا غفلت بھی چھپا ئی نہیں جا سکتی۔،،

انتخابی عمل پر اثر اندازی

گزشتہ برس دنیا کے اٹھارہ ممالک نے سوشل میڈیا جیسے آلے کو انتخابی عمل میں اثر انداز ہو نے کے لئے استعمال کر کے اپنی اپنی اجا رہ داری قائم کی اور اس دوران انٹر نیٹ کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا میں جھوٹی خبروں کی ترسیل کی گئی۔

گزشتہ برس امریکا کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت میں سوشل میڈیا کا بڑا اہم کردار رہا۔ ترکی،وینزویلااور فلپائن کے علاوہ مزید دو درجن سے زائد ممالک نے سوشل میڈیا پر رائے عامہ ہموار کرنے والوں کو باقاعدہ ملازمتوںکی پیشکش کی۔ چین اور روس نے اپنے فوجی آن لائن ملازم رکھے جو کم از کم ایک دہائی کے لئے مخصوص پروپیگنڈے کو پھیلا کر سوشل میڈیا کو بند کر سکیں۔یورپی یونین میں جعلی خبروں سے نمٹنے کے لئے ایسےماہرین تیار کئے گئے جو غیر جانبدارانہ طور پر اپنی جنگ لڑسکیں۔جرمنی اس جانب خصوصی طور پر توجہ دے رہا ہےکہ اس برس کے اوائل سے ہی اپنے تمام نظام کو شفاف رکھے گا۔آئندہ انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لئے مغربی صومالیہ میں درجن بھر سائیٹس کو بلاک کیا جا رہا ہے۔انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لئے سوشل میڈیا کا وجود ضروری ہے۔

لمحوں میں رسائی

ملائشیا کے ترانوے سالہ مہاتیر محمد وہ تجربہ کار اور جدید تبدیلیوں کو قبول کرنے والے رہنما ہیں جنھوں نے اپنے ملک میں بد عنوانیوں کے خلاف جنگ میں نئی ٹیکنا لوجی کا سہارا لے کر آواز بلند کی۔انھوں نے عوامی رابطے کے لیئے سوشل میڈیا سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور انتخابات میں بھاری اکثریت سے فاتح قرار پائے۔نئی نسل نے انھیں سپورٹ کرنے کے لیئے جدید ٹیکنا لوجی کا شب وروز بےدریغ استعمال کیا۔یہ ملائشیا میں ایک نیا رجحان تھا۔ جدید حکمتِ عملی کے ذریعے نوجوان ووٹرز تک رسائی حاصل کرنے کے لیئےسوشل میڈیا نہایت موئثر ذریعہ ثابت ہوا۔جس میں ان طلبا نے بھی گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا جن کا ابھی ووٹ نہیں تھا تاہم وہ رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے اور بدعنوانیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ملائشیا میں ۲۰۱۳ کے الیکشن کے مقابلے میںانٹرنیٹ کے ذریعے ۲۰۱۸ کے انتخابات کی بہترین کوریج ہوئی۔ ملائشیا کے وہ خاموش رائے دہندگان جو کسی انتخابی سرگرمی میں شمولیت سے قاصر رہتے ہیں ان کے لیئے اپنی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا سہل ہو گیا،اس لیئے کہ ملائشیا تیز ترین خبروں کے لئے فیس بک اور واٹس اپ پر انحصار کرتا ہے۔

طیب اردگان سوشل میڈیا کے دوش پر

ترک حکومت اور عدلیہ نے طویل مدت سے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔۲۰۰۷ میں لگنے والی پابندی وقفے وقفے سے اٹھائی جاتی رہی اور ۲۰۱۰ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ترکی کی عدالت نے یو ٹیوب کو ،،شر انگیز اور خطر ناک،،کہہ کر اس پر کئی بار پابندی لگائی۔جس کی وجہ یہ تھی کہ جدید ترکی کے بانی،، مصطفی کمال پاشا اتاترک ،،کے متعلق نا پسندیدہ وڈیوز اپلوڈ کی گئی تھیں۔ جس کے بعد ہی سوشل میڈیا بندش کا شکار ہوئی۔

وہ ایک خوشگوار صبح تھی جب ترکی کے صدرطیب اردگان جنوب مغربی مارمرس میں تعطیلات منا رہے تھے کہ ان کی فوج کے ایک گروہ نے دار الحکومت انقرہ اور استنبول میں کلیدی عہدوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ہوائی اڈے اور ٹی وی چینل پر بھی قابض ہو گئے۔اس نازک صورتحال کے موقع پر ارد گان نے اپنے آئی فون پر فیس بک کے ذریعے عوام سے اپنا احتجاج شاہراہوں پر لانے کے لئے کہا۔طیب اردگان کی شخصیت اس خوبی کی حامل ہے کہ کسی کام کو کس انداز میںکیا جائے اور انھوں نے عوام کو یہ بھی بتایا کہ وہ فیس بک کا کس طرح استعمال کر رہے ہیں لہذا وہ بھی انہی کا انداز اپنائیں ۔دوسروں پر ہنسنے والے ان کا مزاق اڑا رہے تھے کہ ترکی کا صدر سوشل میڈیا پر ان سے احتجاج کی اپیل کر رہا ہے۔ ا س اپیل نے عوام کی سوشل میڈیا تک محدود احتجاج کو سڑکوں تک پھیلا دیا ۔یہ دنیا کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے کہ جس شخصیت نے سوشل میڈیا کو خطر ناک کہہ کر اس پر پابندی لگائی تھی ، اسی سوشل میڈ یا نے اسے اور اس کی حکومت کوبچا لیا۔

انتخابات میں فیس بک کا غلط استعمال

تا حال اس امر کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ سیاسی جماعتیں اپنے رائے دہندگان کورنگ برنگے اشتہارات اور سنہریں سپنوں کے ذریعے اپنا انتخابی ہدف بنانے کی خواہشمند ہیں یا محض اپنے مقصد کے لیئےشکار کرنا چاہتی ہیں۔ اس بارے میں فیس بک کا کہنا ہے کہ مشتہرین کی شناخت، ان کی تصدیق، ان کے اشتہارات کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے صا رفین کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔تاہم ان تمام معاملات کی ذمہ دار فقط فیس بک نہیں ہے بلکہ پا کستان کے تمام شہری،سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ہے ،لہذا مذکورہ ذمہ داران اس سلسلے میںاپنا کردار ادا کریںاور میڈیا کے غلط استعمال کا تدارک کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کی منصوبہ بندی اپنی مہم جوئی کے لئے کی ہے تو انھیںچاہئے کہ اپنے رائے دہندگان کی راز داری کا اہتمام کریں ،اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ کسی میڈیا نے ان کا غیر قانونی طور پر ڈیٹا حاصل نہ کیا ہو۔ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سماجی میڈیا منیجرز نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی سے جعلی اکائونٹ بنا رکھی ہیں۔

موئثر،ارزاں اور برق رفتار پیغامات کی تر سیل کے باعث سوشل میڈیا کا الیکشن کےدوران استعمال امیدوار اور رائے دہندگان دونوں کے لیئے لازمی ہے،دنیا بھر میں سوشل میڈیا اس سلسلے میںاپنا کردار ادا کر رہا ہے،ماسوائے بنگلہ دیش کے،جہاں کسی بھی صورت میںکوئی بھی اہم سیاسی رہنما یا حکومتی عہدیدار،یہاں تک کہ سربراہِ مملکت بھی سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کر سکتا ،چاہے حالات کتنے ہی متزلزل کیوں نہ ہوں۔کارپوریشن کے انتخابی مہم میںکوشش کی گئی کہ سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائےتاہم نوجوانوں کے چند گروہ کا ایسا شدید ردِعمل سامنے آیا،کہ سیاسی معاملات اور انتخابی عمل کی تیاری میں سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت نہ مل سکی۔سوشل میڈیا پر شر انگیزی کے باعث،دنیا کے پچپن ترقی پذیر ممالک میں بنگلہ دیش کا سوشل میڈیا کے استعمال میں تینتیسواں نمبر ہے۔سعودی عرب بھی سیاسی معاملات تو درکنار حکومتی معاملات میں مداخلت یا تنقید کی اجازت نہیں دیتا،چاہے وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک سعودی شہری بداوی کوبلاگ لکھنے پر سرِعام سو کوڑے اوردس سال قید کی سزا دی گئی تھی۔

آن لائن میڈیا کی تنقید،جارحانہ تبصرےاورسفاکانہ جواب طلبی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیئے دنیا کےتینتیس ممالک نے آن لائن میڈیا پر پابندی لگائی ہے۔روس کے علا وہ ترکی کے قرب وجوار وینزویلا،فلپائن میں بھی آن لائن جھوٹی گفتگو،حذبِ مخالف کے احتجاج کرنے والوں کی طرف سے کنفیوژن ،جوڑ توڑ، جمہوریت اور پر امن شہریوںکے لیئے تباہ کن ہے۔سوشل میڈیا پر ایسے وڈیوز اپلوڈ کرنے پر دنیا کے تقریباََ نو ممالک نے پابندی لگائی ہے جن میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی بات کی گئی تھی۔

اس امر کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں،اپنے قدم آگے بڑھانے کے لئے ذرائع ابلاغ کے جتنے راستے ہیں ان میں سوشل میڈیا واحد ذریعہ ہے جو بیک وقت اپنی تحریری، صوتی،سمعی و بصری اثرات کے ذریعے ہمارا رابطہ قرب و جوار کی تمام دنیا سے مربوط کر دیتا ہے۔تعمیری کاموں کے لیئے اس کا استعمال مثبت انداز میں کیا جائے تو اپنے مقاصد میں کامرانی کے حصول سے کو ئی نہیں روک سکتا۔ 

تازہ ترین