• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیرنگی سیاست: ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

نیرنگی سیاست: ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

مُلک کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لینے سے پہلے سیاست دانوں کے طرزِ عمل، بالخصوص گِھسے پٹے اور اپنے کردار سے پہچانے جانے والے انتخابی امیدواروں کی ’’اذیّت ناک کام یابی‘‘ کے بعد یہ سوال ذہنوں میں ضرور اُٹھتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان زیادہ چالاک ہیں یا پھر پاکستان کے عوام بہت زیادہ معصوم؟ اس موضوع کو کبھی سنجیدگی سے قابلِ بحث نہیں سمجھا گیا اور اگر اس سلسلے میں کسی ٹاک شو میں ضمنی طور پر گفتگو ہوتی بھی ہے، تو اس دوران کوئی قد آور سیاست دان یا کسی پارٹی کا سربراہ عموماً یہی گِھسا پِٹا اور مقبولِ عام جملہ دُہرانے پر اکتفا کرتا ہے کہ ’’پاکستان کے عوام بڑے باشعور ہیں اور وہ ہمیشہ دُرست فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ لیکن آج تک شاید ہی کسی نے یہ سچّی، کھری بات کہی ہو کہ اگر پاکستانی عوام سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ بالخصوص انتخابات کے موقعے پر سوچ سمجھ کر صحیح فیصلے کریں، تو پاکستان کے نصف سے زاید مسائل حل ہو جائیں۔ پاکستانی سیاست دان گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کو اِن لگے بندھے جملوں کی ’’افیون‘‘ پِلا کر بہلانے میں مصروف ہیں اور ووٹرز بھی غنودگی اور سُرود کے عالم میں نا اہل، بد عنوان اور مطلب پرست امیدواروں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیج رہے ہیں، وزراء بنا رہے ہیں اور وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ بدحال معیشت کی صورت سب کے سامنے ہے۔

دوسری جانب آج جنوبی ایشیا میں کوئی ایک ایسا مُلک نہیں کہ جس نے ماضی کے مقابلے میں بہ تدریج ترقّی نہ کی ہو اور جس کی کرنسی کی قدر وقیمت میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی مُلک، افغانستان بھی، جو گزشتہ 3دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، کئی حوالوں سے پاکستان سے آگے ہے۔مثال کے طور پر ایک زمانہ تھا کہ طورخم کے بارڈر پر موجود کرنسی کے تاجر افغان کرنسی کے ڈھیر لگا کر، سبزی فروشوں کی طرح آوازیں لگا لگا کر پاکستان سے افغانستان جانے والے افراد کو زیادہ سے زیادہ شرح پر کرنسی تبدیل کروانے کا لالچ دیا کرتے تھے، جب کہ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ افغان دارالحکومت، کابل میں کرنسی تبدیل کرنے والے دُکان دار پاکستانی کرنسی لینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ صرف یو ایس ڈالر یا بھارتی روپے کو ترجیح دیتے ہیں اور خرید و فروخت بھی پاکستانی کرنسی میں نہیں کرتے۔ گرچہ آج پاکستان میں ایک یوایس ڈالر 120روپے کے لگ بھگ ہے، لیکن یہ ہمارے دونوں پڑوسی ممالک، بھارت اور افغانستان میں 70روپے اور 73افغانی کا ہے۔ ایک جانب پاکستانی روپے کی وقعت اندرونِ مُلک کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، تو دوسری جانب بیرونِ مُلک تو پاکستانی کرنسی کی شناخت ہی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہمارے اقتصادی ماہرین اور معاشی تجزیہ کار اس سوال کا جواب عالمی کساد بازاری اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں کی شکل میں دیتے ہیں یا پھر سابق حُکم رانوں کو اس گراوٹ کا ذمّے دار قرار دیتے ہیں، لیکن اُن طبقات کو ہرگز ہدفِ تنقید نہیں بناتے، جو برسرِ اقتدار ہوں۔ البتہ یہ فریضہ وہ اپوزیشن ضرور انجام دیتی ہے کہ جو ہمیشہ مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر بات کرتی ہے۔ اسی طرح چین اور پاکستان کی آزادی کا عرصہ بھی کم و بیش یکساں ہی ہے، لیکن آج چین کہاں کھڑا ہے اور پاکستان کہاں براجمان ہے۔ ایک چینی رہنما سے جب یہ سوال کیا گیا کہ’’ آخر ایسا کیوں ہے؟‘‘ تو اس نے اپنی نحیف آواز میں بڑے فخر سے کہا کہ ’’چینی عوام میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ یہ ہمارا مُلک ہے اور وہ اس کی اونر شپ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔‘‘

کسی زمانے میں پاکستانی بینکرز کو دُنیا میں نمایاں مقام حاصل تھا اور انہیں خاصی ترغیبات و مراعات کے ساتھ بیرونِ مُلک ملازمت کی پیش کش کی جاتی تھی، لیکن آج ہمارے بینکرز منی لانڈرنگ کے الزامات میں عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا کہ جب پاکستان کی قومی ائیر لائن، پی آئی اے کا شمار دُنیا کی بہترین ائیرلائنز میں ہوتا تھا اور دوسرے ممالک اپنی ایئر لائنز کا آغاز کرنے یا اُن کا معیار بہتر بنانے کے لیے پی آئی اے کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے، جب کہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پی آئی اے کے طیّارے میں نشست نہیں ملتی، لیکن اس قومی ادارے کو ہر سال اربوں روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ پی آئی اے کے منافع بخش رُوٹس فروخت کر دیے گئے ہیں اور فضائی عملہ آئے دِن منشّیات کی اسمگلنگ اور بیرونِ مُلک اسٹورز سے اشیا چوری کرنے کے الزامات کے سبب دُنیا بَھر میں مُلک و قوم کی رہی سہی ساکھ تباہ کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟ ہم کیوں اس قدر گر گئے؟ اور دُنیا بَھر میں بے توقیر کیوں ہو گئے؟ درحقیقت، یہ حکومتوں کا نہیں، بلکہ حُکم رانوں کا قصور ہے اور پالیسی میکرز کی نا اہلی ہے، جو اپنے ایک پاؤ گوشت کی خاطر ’’حکومت کی دودھ دینے والی گائے، بھینس‘‘ کو ذبح کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نااہل، بد عنوان اور قومی و مُلکی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والے افراد کو اہم حکومتی مناصب پر پہنچانے کی ذمّے داری کس پر عاید ہوتی ہے؟ ظاہر ہے، یہ افراد ووٹوں کی مدد ہی سے قانون ساز ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے والے عوام ہی ہوتے ہیں۔ بہ قول شخصے ،وہ ووٹر کہ جسے ایک سو روپے کا فروٹ بھی خریدنا، ہو تو 10مقامات پر چھان پھٹک اور خوانچہ فروشوں سے بحث مباحثے کی صورت پوری تسلّی کرنے کے بعد ہی پھل خریدتا ہے، لیکن جب اسمبلی میں بھیجنے کے لیے کسی امیدوار کو ووٹ دینا ہو تو قیمے والے نان اور ایک وقت کا کھانا کھلانے والے یا گلی کی نالی ٹھیک کروانے یا پتنگ بازی ممنوعہ قرار دیے جانے کے موقعے پر پتنگ اُڑانے کے الزام میں گرفتار اپنے بیٹے کو تھانے سے نکلوانے کے لیے فون کرنے والے ہی کو ووٹ کا حق دار قرار دے دیتا ہے اور جب ایسے نا خواندہ اور نااہل افراد ایوان میں پہنچتے ہیں، تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ آج سب کے سامنے ہے، کیوں کہ قانون ساز اسمبلیوں کے یہی ارکان بعد ازاں وزیر بنتے ہیں اور پھر بیورو کریسی کو بھی اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، جب کہ بعض مواقع پر صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ یعنی بیورو کریٹس ان سیاست دانوں کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ مُلک کا قانون ساز ادارہ ہے، جس میں سینیٹ کو برتری حاصل ہے اور اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ایوانِ بالا بھی کہا جاتا ہے، جو قومی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے قانون سازی کے اہم بِلز بھی منظور کرتا ہے، لیکن اس ایوان میں مُلکی و قومی مفاد اور سلامتی سے متعلق اہم فیصلوں کا تعیّن کرنے والوں کو ووٹ دینے والے کون ہوتے ہیں۔ یہ وہی نا اہل افراد ہیں، جنہیں عوام اپنی چھوٹی چھوٹی مجبوریوں، ضرورتوں اور دباؤ کے تحت منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔

نیرنگی سیاست: ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

آج ایک مرتبہ پھر رائے دہی کا مرحلہ سَر پہ ہے اور بعض سیاسی شعبدہ باز طرح طرح کے بہروپ بَھر کر سڑکوں اور گلیوں میں نکلے ہوئے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل پر گھوم رہا ہے، تو کوئی ننگے پاؤں گلیوں میں ووٹ کی خاطر کشکول لیے بیٹھا ہے۔ کوئی صاحب گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پر بیٹھ کر گندے پانی سے منہ دھو رہے ہیں، تو کوئی گدھا گاڑی پر سوار ہے۔ اسی طرح کوئی امیدوار عوام کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے اپنے حلقے کے ووٹرز کے جوتے پالش کر رہا ہے، تو کوئی تنور پر کُلچے اور روٹیاں لگا رہا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کا خواہش مند کوئی سیاست دان مزدوروں کے ساتھ ڈھابے یا ریڑھی پر پہنچ گیا، تو کسی نے میڈیا کی ٹیم کے جَلو میں گاؤں، دیہات میں جاکر عوام سے اُن کے مسائل پر ’’تبادلۂ خیال‘‘ کیا، تو کوئی مزاروں پر حاضری اور چوکھٹ پر سَر جُھکانے کے لیے بھی پہنچ گیا۔ بعض امیدوار ایسے بھی دیکھے گئے کہ جو 5سال بعد انتخابی ماحول میں اپنے دیرینہ دوست یا ہم جماعت کی یاد آنے پر اس کے گھر گئے، تو پتا چلا کہ اس کا تو انتقال ہوئے بھی کئی برس بِیت چُکے ہیں۔ اس دوران علاقے میں کئی کئی ماہ قبل ہونے والی میّتوں کی تعزیت کے مناظر بھی عام دکھائی دیتے ہیں۔

نیرنگی سیاست: ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ اپنی انتخابی مُہم کے دوران جس صوبے میں جاتے ہیں، وہاں کی ثقافت کی نمایندگی کا اظہار کر کے مقامی باشندوں کی ہم دردریاں اور اپنائیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قائدین سندھ میں جاتے ہیں، تو گلے میں سندھی اجرک ڈال لیتے ہیں یا پھر سندھی ٹوپی پہن کر، چادر کو سَر پہ لپیٹ لیتے ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا پہنچ کر روایتی کُلاہ سَر پہ سجا لیا جاتا ہے اور سادہ لوح عوام ہر مرتبہ کی طرح ایک بار پھر ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ یہ عوام کی مجبوری ہے، ضرورت یا سادگی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے علاقے کی ناپسندیدہ شخصیات کو ووٹ دیتے ہیں۔ پھر اب یہ کلچر بھی عام ہو چُکا ہے کہ کسی شریف النّفس اور خاندانی وقار رکھنے والے فرد کو، جو ہر اعتبار سے ووٹ کا مستحق ہو، محض اس لیے ووٹ سے محروم کر دیا جاتا ہے کہ وہ بد معاش نہیں۔ نیز، وہ نہ تو قبضہ گروپ سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی اس نے قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور حرام کی کمائی سے کار، بنگلے اور کوٹھیاں بنائی ہیں، بلکہ وہ خود کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں عموماً یہ رائے ہوتی ہے کہ ’’جو اپنے مسائل حل نہیں کر سکا، وہ ہمارے لیے کیا کرے گا۔‘‘ اسی طرح اگر کوئی شخص جھوٹے وعدے اور لچّھے دار گفتگو نہیں کرتا، علاقے کے عوام کو سبز باغ نہیں دِکھاتا اور جُھوٹی ترغیبات نہیں دیتا، تو وہ بھی عوام کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا اور اسے اُلٹا قصور وار گردانا جاتا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخرایک بد کردار، بدعنوان اور غیر مستحق فرد کے، جو ووٹ حاصل کرنے کے لیے بہروپ بدل رہا ہے، عوام کے پاؤں پکڑ رہا ہے، اپنی جماعت سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی کو فنڈز دینے کے نام پر اور انتخابی مُہم پر کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے، مقاصد کیا ہیں؟ 

نیرنگی سیاست: ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

کیا وہ مُلک و قوم کی خدمت کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ یہ اُن افراد میں سے ایک ہے کہ جو اپنے گناہوں، عیوب اور کالے دھن کو چُھپانے اور پارلیمنٹ کی چھتری تلے اپنے جرائم کو تحفّظ دینے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں اور بہروپ بدل بدل کر سامنے آرہے ہیں۔ ان میں سے بہ مشکل صرف 10فی صد امیدوار ہی دیانت دار، اہل اور بدعنوانی سے پاک ہیں، جو ایوانوں میں پہنچ کرواقعتاًاپنے معاشرے، مُلک اور قوم کے لیے آواز اُٹھانا چاہتے ہیں، وگرنہ باقی سب تو وہی ہیں، جنہیں عوام دہائیوں سے بُھگتتے چلے آرہے ہیں۔

تازہ ترین