• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے بگڑتے بنتے حالات میں ذرائع ابلاغ عامہ ایک ایسا تاریخ ساز کردار ادا کر رہے ہیں، جو صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر کے علمی ابلاغی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ ”پاکستان ٹوٹتا پھوٹتا اسٹیٹس کو اور خون خرابے کے بغیر جگہ بناتی مطلوبہ صورتحال نئے رویوں کا حامل بنتا نیا پاکستانی معاشرہ اور اس کی تشکیل میں میڈیا کا نتیجہ خیز کردار“ ترقی پذیر ممالک علوم ابلاغ کی دنیا میں تحقیق کا پُر کشش موضوع بن رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹس کو کی مفاد پرست طاقتوں نے میڈیا کو ”درست“ کرنا اپنا سب سے بڑا ہدف بنایا ہوا ہے وہ ہر حربہ استعمال کر کے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی مسلسل تگ و دو میں ہیں، کم از کم ہدف یہ ہے کہ اسے اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے سے تو باز رکھا جائے لیکن میڈیا ہے کہ بے قابو ہو رہا ہے اور اپنی پوزیشن آپ لینے کی طرف مائل ہے۔ وہ طاقتور طبقات جو بظاہر میڈیا کی تعریف اور اس پر تنقید بھی کرتے ہیں، وہ بھی میڈیا کے ان پہلوؤں سے خائف ہیں جو مفاد عامہ کے لئے ناگزیر ہیں، لیکن یہ جاری عوام دشمن نظام کی مفاد پرست قوتوں کے لئے وقت کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستانی میڈیا اپنی آزادی کا فائدہ اٹھا کر اگر وکلاء کی ”آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ“ کے قیام کی ملک گیر تحریک میں اپنے مقصد کی روح اور پیشے کے تقاضوں کے مطابق تحریک پر جرأت مندانہ اور انتہائی ذمے دارانہ پوزیشن نہ لیتا تو اسٹیٹس کو کی سب سے بڑی سیاسی قوت (گٹھ جوڑ سے بننے والا حکومتی ڈھانچہ تحریک کے ہدف (ججز کی بحالی) کو ختم کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔ مکمل ڈھٹائی سے اور وہ بھی الیکشن کے فوراً بعد ، نا صرف یہ کہ ججز کی بحالی کے مطالبے سے طوطا چشمی برتی جا رہی تھی بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ وکلاء کو تقسیم کرنے کے لئے روایتی حربوں کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔ اگر اسٹیٹس کو کی ہی دوسری بڑی سیاسی قوت ن لیگ بدلتے حالات سے مفاہمت اور میثاق جمہوریت کا پاس کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہی تو میڈیا نے وکلاء کے ساتھ ساتھ اس کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔ نئی حکومت کے بنتے ہی وکلاء کی سرگرمیوں میں پیدا ہوتی سرد مہری کو میڈیا نے میاں نواز شریف، عمران خاں اور دوسری غیر پارلیمانی جماعتوں کے ”ججز کی بحالی“ کے مطالبے کو جس طرح ابلاغی معاونت فراہم کی، اس سے ہی پاکستانی وکلاء کی شہرہ آفاق تحریک کا ہدف حاصل ہوا۔ اس میں جنرل پرویز کیانی نے حکومت کی امکانی مزاحمت کو لمحوں میں ختم کرنے میں جو خاموش لیکن نتیجہ خیز کردار ادا کیا، وہ ملک میں حقیقی بحالی جمہوریت کے لئے افواج پاکستان کا تاریخی کردار اور جمہوری عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے سابقہ کردار کا بڑا کفارہ تھا۔ قومی تحریک کے اس بڑے ہدف کے حصول کے بعد میڈیا، کرپشن کی نیت باندھے (جیسا کہ اقتدار کے چار سال میں بخوبی ثابت ہوا) حکومت کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ حکومت میڈیا کے ایجنڈے کو اپنے مطابق سیٹ کرنے یا اس میں زیادہ سے زیادہ اپنی مرضی کی جگہ بنانے کے لئے ابلاغ عامہ کی مشہور تھیوری Theory Of Political Economy کے اطلاق میں بری طرح ناکام ہوئی۔ بڑی وجہ یہ بنی کہ وہ سب سے بڑے ملکی میڈیا گروپ کو دبانے یا اس پر اثر انداز ہونے میں یکسر ناکام رہی۔ حقیقی جمہوری عمل کی بحالی، خصوصاً آزاد عدلیہ کے قیام پر گروپ کی لی گئی پوزیشن کو کسی طور تبدیل نہ کرایا جا سکا۔ حکومت کی بھاری بھر کم مالی بدعنوانیوں، خلاف آئین و قانون انتظامی اختیارات کے بے دریغ استعمال اور عدلیہ کی آزادی معاونت نے پاکستان میں میڈیا کو ایسی طاقت جاریہ عطا کی جس میں مسلسل اضافے کو روکنا حکومت کے اختتامی سال تک ممکن نہ ہوا۔
سو، اس نے انتخاب سے پہلے ”میڈیا کو میڈیا سے کاٹنے“ کی نئی حکمت عملی اختیار کی۔ اس مرتبہ ایوبی دور کی طرح اس حربے کا نام ”نیشنل پریس ٹرسٹ“ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ اپنی طرز کا ہی ”میڈیا ٹرسٹ“ ہے، جس کے پس پردہ کافی راز و نیاز میڈیا کی دنیا میں تو بے نقاب ہو گئے ہیں، اب عوام پر بھی آشکار ہوتے جا رہے ہیں۔ سو، خود صحافی اور سیاسی و صحافتی شعور کے حامل رائے عامہ کے حلقے اب بخوبی جانتے ہیں کہ میڈیا میں کون کون ہے؟ وسیع تر سماجی ذمے داری کے احساس و شعور کی حامل میڈیا تھیوری Theory Of Social Responsibility کو اختیار کئے ذمے دار، آزاد و بیباک اور عوام دوست میڈیا کے مقابل بے بس ہو کر حکومت نے Theory Of Political Economy کے اطلاق سے مطلب کا نیا میڈیا تشکیل دینے کی ٹھانی۔ اس حکمت عملی کو اختیار کرنے پر نیم حکیموں کی ٹیم پیش پیش رہی جو کرپٹ حکومت کو سمجھاتی رہی کہ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، اسی طرح میڈیا کو میڈیا کاٹے گا، حالانکہ میڈیا کی سائنس میں یہ اصول کارآمد نہیں۔ اس کے لئے تو کچھ اور ہی درکار ہے۔ سو، کرپشن زدہ حکومت کے نئے حربے کو سوشل میڈیا کی چند منٹ کی ایک ہی فوٹیج نے بے نقاب کر دیا۔ اگرچہ اس شرمناک فوٹیج سے پو را میڈیا ہی وقتی طور پر عوام کی نظر میں گر گیا، لیکن جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ اب باشعور عوام پر بھی خاصا واضح ہے کہ میڈیا میں کون کون ہے۔ چند سالوں میں بنے میڈیا کا یہ عوام دوست کردار اپنے مجموعی کردار میں خامیوں اور پکڑ سے خالی نہیں۔ میڈیا پر سنسنی پھیلانے، صرف برا برا ہی رپورٹ کرنے۔ معاشرے کے طاقتور طبقات کو ہی زیادہ سے زیادہ وقت اور جگہ دینے۔ صحافیوں پر سیاسی جماعتوں کے وکیل بلکہ کارندے بننے۔ ٹاک شوز میں سیاست دانوں کو لڑانے۔ پیشہ ورانہ شائستگی کی کمی۔ شعوری کو ششوں سے اپنی ہی پروجیکشن کے لئے محنت کرنے، کلاسیکل قسم کی بلیک میلنگ کرنے، خود خوب خوب کمانے اور کمائی کا موجب بننے والے کارکن صحافیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے، صحافت سے زیادہ سیاست کرنے اور صحافت کو ذاتی زندگیوں میں داخل ہونے کے لئے استعمال کرنے، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، صحافتی قوانین سے ناآشنائی اور ان کی خلاف ورزی زبان زد عام ہیں۔ اپنے گریبان میں بار بار جھانک کر اعتراف کی طاقت سے ان امراض سے نجات حاصل کرنا بھی ہمارے لئے اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنی معاشرہ دوستی کے لئے Theory Of Social Responsibility کا اختیار کرنا۔
تازہ ترین