• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات پر آمادگی کی تردید کر کے ایک بار پھر افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات کو دھندلا دیا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے ترجمان نے اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مدد دینے، سہولتیں فراہم کرنے اور حصہ بننے پر تیار ہےلیکن مذاکراتی عمل افغان قیادت کے تحت ہی ہوگا۔ افغانستان میں تقریباً دو عشروں سے جاری خونریزی کے خاتمے کیلئے طالبان کا موقف واضح ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ کابل حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ملک پر امریکہ اور نیٹو افواج کا قبضہ ہے اور مقامی قیادت کے ہاتھ میں کچھ نہیںاس لئے مسئلے کا حل یہی ہے کہ غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں اورامن افغانوں پر چھوڑ دیں، طالبان اس سلسلے میں امریکہ سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن کابل حکومت خود کو معاملے سے الگ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ سے حال ہی میں یہ بیان منسوب کیا گیا تھا کہ امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار ہے جس سے افغان مسئلہ پر پیش رفت کے امکانات پیدا ہوئے تھے لیکن امریکی ترجمان کی وضاحت نے معاملے کو ایک بار پھر الجھا دیا ہے افغانستان میں اس وقت طالبان تو حکومتی فورسز اور امریکی و نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں ہی، داعش بھی وہاں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے اور سرکاری فوجوں کے علاوہ طالبان پر بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان سمیت پورے خطے کا امن شدید خطرات سے دوچار ہے، حال ہی میں افغانستان سے آنے والے خودکش بمبار نے مستونگ کے قریب ایک انتخابی جلسے میں خود کو اڑا دیا جس سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، امریکہ اور بڑی طاقتوں کو پاکستان اور کابل حکومت سے مشاورت کے ساتھ طالبان سے قابل قبول شرائط پر براہ راست مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

تازہ ترین