• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے قومی تعلیمی پالیسی 2018کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ملک بھر میں تدریسی نصاب کو یکساں و معیاری بنانے کیلئے قومی نصاب کونسل کے قیام کے اعلان سے جہاں شعبہ تعلیم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے وہاں نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم اور نصاب میں واضح فرق کے باعث عام طالب علم کو درپیش مشکلات میں بھی کمی آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شیخ محمد یوسف نے نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت کی جانب سے تشکیل دیا گیا قومی نصاب فریم ورک تمام تعلیمی اداروں میں سیلبس یکساں بنانے کیلئے ماڈل کردار ادا کرے گا۔یہ بھی بتایا گیا کہ گریڈ پری ون سے گریڈ8 تک کیلئے تیار کئے گئے نصاب کو تمام صوبوں سے شیئر کیا جائے گاتاکہ وہ اپنی نصابی کتب پر نظر ثانی کرکے اسے اپ ڈیٹ کرسکیں۔واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کے ساتھ تعلیمی شعبہ بھی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آگیاہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں کئی تعلیمی بورڈز کام کررہے ہیں سب کا اپنا اپنا نصاب ہوتا ہے۔ مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کا اپنا نصاب ہے جبکہ سرکاری اسکولوں کی حالت زار سے کون آگاہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ستر برس سےہمارا نظام تعلیم انحطاط کی جانب گامزن ہے اور تعلیمی معیار روز بروز گرتا جارہا ہے۔ میٹرک وانٹر کے سالانہ نتائج میں تو یہ تفاوت نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح یکساںاور جدید نصاب سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے سرکاری و عام اسکولوں کے اکثر طلبا وفاقی ملازمتوں کیلئےہونے والےمقابلے کے امتحان میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں۔اگرچہ تعلیم کے شعبے میں وفاقی وزارت تعلیم کی حالیہ کوششیں اور اقدامات بلاشبہ قابل تعریف ہیں لیکن ان میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب صوبائی سطح پر بھی ان سے فائدہ اٹھانے کیلئے پیشرفت ہو اور تعلیمی میدان میں جدید اصلاحات لانے کیلئے تمام صوبےمل کر کام کریں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین