• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018کے انعقاد میں چند دن ہیں مگر 85 حلقوں کی اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا یا زیر سماعت ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے کون کون سا حربہ ہے جو آزمایا نہیں جا رہا۔یہاں آمریتیں بھی رہی ہیں لیکن آزادیٔ اظہار پر ایسی قدغنیں کبھی نہیں لگائی ہوں گی جن کا آج میڈیا کو سامنا ہے۔ الیکشن کے روز پریزائیڈنگ آفیسرز کو مجسٹریٹ کے اختیارات قابلِ فہم ہیں لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس کے پاس لاٹھی ہو وہ بھینس کو جدھر چاہے ہانک کر لے جائے۔ رہی سہی کسر خود کش حملوں کی صورت پوری ہو رہی ہے۔
ایک منظر نامہ قوم نے ہفتہ قبل لاہور میں دیکھا جب ہزاروں کنٹینرز لگا کر شہر بھر کی سڑکوں کے علاوہ انٹرنیٹ اور موبائل فونز کو جام کر دیا گیا تھا۔ پھر باپ بیٹی کی گرفتاری جس طرح عمل میں لائی گئی اسے کچھ صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تین مرتبہ عوامی ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم منتخب ہونے والی شخصیت کے ساتھ یہ عزت افزائی کی جارہی ہے ؟ کرپشن کے اس چارج پر جس کے متعلق خود فیصلہ صادر کرنے والا بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ استغاثہ کرپشن کا الزام ثابت کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اثاثے آمدن سے زائد ہونے پر سزا سنا رہا ہوں۔ اگر سزا سنانے کا یہی معیار ہے تو پھر یہ شکنجہ محض ایک شخص کے لیے کیوں؟ آپ کی برق آخر منتخب پاپولر قیادت پر ہی کیوں گرتی ہے۔ قوم کے اصلی دشمن اس کی گرفت میں کیوں نہیں آتے ہیں ؟
احباب پوچھتے ہیں کہ مسلم لیگی قائد کی گرفتاری سے ووٹر پر کیا اثر پڑا ہے یا پڑے گا؟عرض ہے کہ ہمارا ووٹر ہارنے والے کو ووٹ دے کر اسے ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لیے ہمدردی کا ووٹ بھی تبھی ملتا ہے جب جیتنے کی امید ہو لہٰذا امید کے دیے کو بجھنے نہ دینا ہی آپ کو کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے ورنہ خلائی مخلوق کے بالمقابل جو بھی آیا ہے وہ ہاتھ مل کے ہی گیا ہے۔ قائد مسلم لیگ کی وطن آمد نے جہاں اُن کے ووٹر کو اعتماد دیا ہے وہیں اُن کی گرفتاری اور جیل یاترا نے اس اعتماد کو متزلزل بھی کیا ہے۔ اُن کا ووٹر انہیں اس حالت میں ہر گز دیکھنا نہیں چاہتا۔ اب لیگی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن کے جعلی الزامات کی حقیقت اُسی جوش و جذبے سے قوم پر واضح فرمائیں جتنے پر جوش ہو کر اُن کے مخالفین پروپیگنڈے کا کیچڑ اچھالتے ہیں بلاشبہ اس کے ساتھ اپنی کارکردگی کا اشتہار بطور ثبوت زیادہ شدو مد کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔
رہ گیا ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ، بلاشبہ بہت سے لبرل طبقات کو اس بیانیے نے آپ کا ہمنوا بنا دیا ہے لیکن گراس روٹ لیول تک اس کی اثر آفرینی میں ہنوز کئی مراحل اور کئی ماہ و سال حائل ہیں۔جس قوم میں عوامی شعور کی بیداری ہنوز گھٹنوں کے بل چل رہی ہو، جہاں بچوں کو مطالعہ پاکستان کے نام پر ایک جاہلانہ چورن 70سالوں سے کھلایا پلایا جارہا ہو جہاں شاہ دولے کے اذہاں کی فوج ظفر موج دندناتی پھر رہی ہو جہاں سیاستدان کرپشن ثابت نہ ہونے پر پابندسلاسل ہورہے ہوں اور سیاستدانوں کے روپ میں عوامی اعتماد سے محروم بہروپیے سچے اہل سیاست کا گلا گھونٹنے کے لیے کرائے کے ٹٹو بننے کو تیار ہوں وہاں آپ مغربی جمہورتیوں کا معیار ڈھو نڈیں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے آپ چیل کے گھونسلے سے ماس تلاش کر رہے ہوں۔ جسے ہمارے ان وچاروں پر شک ہے وہ مملکت کے تمام منظر نامے اور اس پر کھیلی جانے والی شطرنج اور اس کی چالوں پر گہری نظر ڈال کر نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ تمام مہرے اور نابغے اگر اس وقت طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر یہاں تو موقع بے موقع دہراتی ہی رہتی ہے۔ چند دہائیاں قبل کی بات ہے جب طاقتوروں کا ایک مہرہ اپنے نشریاتی خطاب میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم نے نہلا دہلا کر کفن پہنا کر اسے تابوت میں ڈال دیا ہے اب آپ کا کام ہے کہ اس مردے کو کیسے دفن کرتے ہو۔اگر ہم اپنی یاداشت پر زور دیں تو یہ تمامتر الفاظ محترمہ کے حوالے سے کہے جا رہے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اسی نوع کی واردات میاں صاحب کے خلاف بھی دہرائی گئی جس پر وہ چیخ اٹھے کہ ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘۔
درویش کو افسوس ہے کہ یہاں پروپیگنڈے کے طوفان تو خوب اٹھائے جاتے ہیں غیر جذباتی و شعوری، تجزیہ کرتے ہوئے کسی شخصیت کا ہمہ پہلو تنقیدی جائزہ لینے کی روایت معدوم ہی رہی ہے۔ اس کسوٹی پر اگر سابق کھلاڑی کو پرکھا جائے تو شاید سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہ آئے جبکہ بالمقابل کھڑے سہ بار منتخب ہونے والے کی انسان نواز شخصیت اندھیرے میں روشنی کی آخری کرن یا امید دکھائی دے گی۔ یہاں ایسے بھی وزرائے اعظم رہے ہیں جنہوں نے ازخود ذہنی طور پر یہ تسلیم کیے رکھا کہ وہ محض طاقت وروں کی نوکر ی کے لئے بھرتی ہوئے ہیں انہوں نے اس قابلِ احترام عوامی ذمہ داری کو ڈاؤن کرتے ہوئے کلرکی تک پہنچا دیا۔ نواز شریف سے آپ ایک سو ایک اختلافات کریں، اس کے طرزِ حکمرانی پر پروپیگنڈے کی بوچھاڑ کریں لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ جب بھی اس عوامی ذمہ داری کے لیے منتخب ہوا اس کی اہمیت و اتھارٹی منوانے کے لیے اُس نے اپنی جان لڑا دی۔ ضرورت پڑنے پر اس نے اپنے سیاسی مخالفین سے سمجھوتے بھی کیے کبھی چار قدم پیچھے بھی جانا پڑا کڑوے گھونٹ بھی پینے پڑے لیکن کبھی سر کے کو شہد کہا نہ سمجھا۔
ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات یا تواز ن پر دور دور کی کوڑیاں لا کر عجب نوعیت کے ڈرامے گھڑے جاتے ہیں کبھی اداروں کے تقدس و پارسائی کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ کاش اس نکتے کو ہمارے تجزیہ کار، کالم نگار اور اینکرز باریکی سے سمجھ سکیں اور عام ووٹر کو اس کے مضمرات سمجھا سکیں، غضب خدا کا یہاں عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے پارلیمنٹ اور اس کی تشکیل کردہ کتاب آئین کو چیتھڑہ قرار دے دیا جاتا ہے اور کسی کے ضمیر کو چوٹ نہیں لگتی تماش بین اس منظر نامے کی شان میں روایتی قصیدے شروع کر دیتے ہیں اور انصاف کے سود اگر اس کی حمایت میں دلائل لا رہے ہوتے ہیں جس سے عام ووٹر کی کنفیوژن مزید بڑھ جاتی ہے یاد رکھیں اسی سوچ سے طالع آزمائی کی راہ ہموار ہوتی ہے ورنہ پاکستانی قوم ہی کی تذلیل کیوں ہو۔ اگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر اس بیانیے کا اظہار پارلیمنٹ کی تشکیل اور جمہوری اداروں کی تعمیر سے مترشح ہونا چاہیے۔ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کی آخری امید کیاہے اس پر اگلے کالم میں اظہارِ خیال کیا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین