• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج کے اخراجات بڑھے تو پارلیمنٹ اور عوامی حلقوں میں لے دے ہوئی۔ وزیراعظم چرچل کا جواب چشم کشا تھا ”فوج تو بہرحال ضروری ہے، اپنی نہیں تو کسی اور کی ہو گی“۔ فطری طور پر ہم ایک جذباتی قوم ہیں، گفتار کے بادشاہ ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ باتیں بنانا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ترنگ میں آکر ایسی ایسی درفطنیاں چھوڑ جاتے ہیں کہ اپنی ”دانش“ پر خود ہی فدا ہوتے ہیں۔ مگر جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے اور یاد رہنا چاہئے کہ مارشل لاؤں اور فوجی حکومتوں کے حوالے سے ہماری ایک بھیانک تاریخ بھی ہے۔ دعاوی ہم کتنے ہی بلند و بالا کیوں نہ کر لیں مگر ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام تر ادارے فوج کی غیر مرئی اور غیر محسوس نگہداشت میں ہی پروان چڑھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں دو تہائی چھوڑ90 فیصد نشستیں لے آئیں، پارلیمنٹ لاکھ پیش بندیاں کر لے، عدالتیں شاہکار آئینی فیصلے صادر کر دیں اور فخر کریں کہ نظریہ ضرورت کی جڑ کاٹ دی گئی ، میڈیا ملٹری ٹیک اوور کے امکانات کے خلاف دلائل کا ہمالہ کھڑا کردے۔ ناقابل تردید حقیقت یہی ہے کہ ٹرپل ون بریگیڈ کا صرف ایک ٹرک قوم کو پھر سے زیرو پوائنٹ پر واپس بھیج سکتا ہے اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اب انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ جنرل کیانی کی قیادت میں ادارے نے اپنی بے دریغ تہلیل نفسی ہی نہیں کی، خود احتسابی کے ساتھ ساتھ کچھ قدغنیں اس طور پر اپنے اوپر لگا لیں کہ حتی الامکان ریڈ لائن عبور نہیں ہو گی۔ فوج کی طرف سے یہ بہت بڑا چینچ ہے اور وہ بجا طور پر توقع کرتی ہے کہ یہ یکطرفہ نہیں ہوگا، ریاست کے دیگر ادارے بھی فوج کی اس سوچ کا احترام کریں گے۔
اپنی تربیت اور پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت فوج الگ تھلگ رہ کر خدمات انجام دینے میں سہولت محسوس کرتی ہے، بلا ضرورت خبروں میں رہنا اسے اچھا نہیں لگتا ہے، ہمیں بھی چاہئے کہ فوج کی پرائیویسی میں رخنہ ڈالنے سے اجتناب برتیں، فوج کی قربانیوں کی ایمان افروز داستان بھی پیش نظر رہنا چاہئے جو نئے سرے سے رقم ہوئی ہے، ہونہار جوان بیٹوں اور بھائیوں کے جنازوں کو کندھا دینا کوئی آسان کام نہیں۔ انہوں نے تو اپنے بچوں اور بزرگوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ،دو دو، تین تین نسلوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے ہیں، محاذ پر لڑی جانے والی آج تک کی جنگوں میں بریگیڈیئر رینک کا صرف ایک افسر شہید ہوا تھا اس بے چہرہ لڑائی میں تو ٹو اورتھری اسٹار جرنیلوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ مہینوں پہلے سیاچن کے خونخوار برفیلے تودے تلے دبے شہیدوں کی نعشیں ابھی تک برآمد ہو رہی ہیں اوران کے لواحقین کے صبر آزما انتظار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ قوم ان شہیدوں، مجاہدوں اور ان کے لواحقین کو سلام پیش کرتی ہے۔
پھر پینتیس برس تک ملک کے سیاہ وسفید کی مالک رہنے والی فوج کو کسی بھی طرف سے دباؤ میں رکھنے کی خواہش کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی حماقت ہی کہا جائے گا ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح بہت عام ہے۔ براہ راست نام نہ بھی لیا جائے تو بھی اس سے مراد فوج ہی ہوتی ہے اور ”اسٹیبلشمنٹ “ کا یہ رواج ہمارے ہاں ہی نہیں، کسی نہ کسی حد تک دنیا بھر میں موجود ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور امریکہ کرہٴ ارض کی واحد سپر پاور،اسٹیبلشمنٹ وہاں بھی موجود ہے۔ سدھار راتوں رات نہیں آتا، اس میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ چوتھا مارشل لاء بھگتائے ابھی تو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور آپ فوج کو اٹینشن کر کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں؟ ”ایں خواب است و خیال است“۔ فوج آج بھی ملک کا طاقتور ترین ادارہ ہے اور طاقت کی اپنی سائیکی ہوتی ہے جسے آپ للکار کر نہیں بچھاڑ سکتے اس کے لئے تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
سول وار کے زمانے میں ایک صبح صدر ابراہم لنکن وزیر دفاع کے ہمراہ فوج کے سربراہ جنرل میکلیگن کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ پتہ چلا کہ جنرل صاحب گھڑ سواری کے لئے گئے ہوئے ہیں، کمرہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ جنرل صاحب واپس آئے تو منتظر مہمانوں کو کہلوا بھیجا کہ ابھی وہ فارغ نہیں، کچھ اور کام ہیں، ان سے ملاقات بعد میں ہوگی۔ صدر واپسی کے لئے اٹھے تو وزیردفاع برہم ہو گئے۔ بولے ”عجب بدتمیز آدمی ہے، جناب صدر! آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا؟“ دانش مند لنکن کا جواب تھا۔ ”دھیرج رکھو، یہ تو کچھ بھی نہیں، کمانڈر انچیف اگرجاری جنگ جیتنے کی یقین دہانی کرا دیں تو میں ان کے گھوڑے کی رکاب تھامنے کو بھی تیار ہوں“۔ اور امر واقعہ ہے کہ جب امید بر نہ آئی اور جنرل میکلیگن کارکردگی نہ دکھا سکے تو صدر لنکن نے دوران جنگ ہی انہیں برطرف کر کے جنرل گرانٹ کو سپہ سالار بنادیا۔ جن کی سربراہی میں یونین آرمی نے سول وار جیتی اور بعد میں موصوف امریکہ کے صدر بھی بنے۔
فوج سمیت جملہ ریاستی ادارے مملکت پاکستان کے دست و بازو ہیں جسے مضبوط و توانا بنانے کے لئے سب کو مل جل کر آگے بڑھنا ہے خامیوں اور خرابیوں کو طشت ازبام نہیں کرنا بلکہ دانشمندوں کی طرح مل بیٹھ کر درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور جگ ہنسائی کی کسی بھی حرکت سے اجتناب برتنا ہے۔ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے حالیہ بیانات کو خواہ مخواہ اداروں کی کشاکش سے تعبیر کیا گیا اور ٹکراؤ کے اندیشہ میں مبتلا نابغوں نے دونوں کے بیانات کو وہ وہ معانی پہنائے کہ الامان و الحفیظ، یہ دیکھنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ دونوں اکابر آئین و قانون کی بات کر رہے ہیں اور ملک کی سلامتی اورفلاح کے لئے فکر مند ہیں۔ یہ گل کس نے کھلایا؟ اور کیوں کھلایا؟ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، زبان کے چٹخارے کے لئے زہر نہیں پھانکا کرتے۔
رائل ملٹری اکیڈمی سینڈھرسٹ کی ایک تقریب کے بعد ہونے والی گپ شپ میں ایک کیڈٹ نے مہمان خصوصی چرچل سے پوچھا کہ آپ نے بھرپور عسکری اور سیاسی زندگی گزاری ہے، مشکل کام کون سا ہے؟ سگار کو مٹھی میں دباتے ہوئے موصوف نے جواب دیا تھا۔ دونوں ہی مشکل ہیں، دونوں کیلئے اعصاب کی مضبوطی ضروری ہے مگر سیاستدان کے اعصاب فوجی سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئیں۔ ہمارے ہاں تو فوجیوں اور سیاستدانوں کے علاوہ عدلیہ اور میڈیا کو بھی اعصاب پرقابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ جنہیں (اعصاب) آہنی شکنجوں سے آزاد ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے، جو اب بھی کبھی دب جاتے ہیں، تو کبھی پھڑ پھڑانے لگتے ہیں۔ اعصاب کی یہ بیماری بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ مکمل صحت یابی میں وقت لگتا ہے اور جلد بازی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین