• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں، جسٹس شوکت صدیقی

ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں، جسٹس شوکت صدیقی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خفیہ ایجنسیوں کی عدلیہ ، میڈیا اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مبینہ مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی مداخلت ملک کو بڑا نقصا ن پہنچا سکتی ہے۔ فاضل جسٹس نے اوپن کورٹ میں اپیل کی کہ لوگوں کو روکیں، عدلیہ میں ججز کو اپروچ کیا جا رہا ہے ، ان کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں جس سے ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خفیہ طاقتوں کے ڈر سے پولیس بھی بے بس اور خاموش تماشائی بن چکی ہے اور سچ نہیں بولتی ، یہ صورتحال تشویشناک ہی نہیں بلکہ ریاست کیلئے ایک چیلنج ہے۔ خدا کے لئے ملک پر رحم کریں ، اپنے آپ کو عقل کل مت سمجھیں ، عقل کل سے قبرستان بھرے ہیں ، پولیس والے ان کے آگے بے بس ہیں۔ اگر دیگر اداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو تباہ کن ہو گا۔ فاضل جسٹس نے یہ ریمارکس دو لاپتہ بھائیوں عثمان سلیم اور ذیشان سلیم کی بازیابی کے مقدمہ کی سماعت کے دوران دئیے۔ بدھ کو سماعت کے دوران ایک اور لاپتہ شہری ربنواز عدالت میں پیش ہوا اور بتایا کہ اسے کسی نے اغوانہیں کیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے وہاڑی میں اپنی زمین کے سلسلے میں گیا تھا۔ اس موقع پر ربنواز کے بھائی افتخار راجہ نے عدالت کو بتایا کہ اس کا بھائی جھوٹ بول رہا ہے، اسے اہلکاروں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اغواءکیا اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اغواءکنندگان نے اس کے بھائی سے کہا ہے کہ اگر ہدایات کے برعکس بیان دیا تو پھر خیر نہیں ہو گی۔ اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ربنواز کا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ عثمان سلیم اور ذیشان سلیم کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ایجنسی کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ کے لوگ اپنی مرضی کے بنچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان لوگوں کے کالے کرتوت سامنے آنے چاہئیں، لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں، اگر دیگر اداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو تباہ کن ہو گا۔ فاضل جسٹس نے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد کو عثمان سلیم اور اس کے بھائی ذیشان سلیم کو آئندہ سماعت 20 جولائی کو عدالت میں پیش کرنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس سلسلے میں ہر ممکن وسائل بروئے کار لانے کا حکم دیا۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ ایس پی انوسٹی گیشن زبیر احمد شیخ اس سلسلے میں ناکام رہے ہیں ، لگتا ہے ان پر بھی کسی مخصوص حلقے کا دباؤ ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے زبیر شیخ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو افسر سچ نہ بول سکے اور خوف و مصلحت کا شکار ہو اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔عدالت نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ اسلام آباد میں عام شہریوں، کاروباری شخصیات ، وکلاءاور دیگر افراد کا اغوامعمول بن چکا ہے ،ادارے اپنی آئینی ذمہ دا ر ی کو سمجھیں۔ عدلیہ ، ایگزیکٹو اور دیگر اداروں میں مداخلت روکی جائے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ حساس ادارے ملک پر توجہ دیں، ریاست کے اندر ریاست کا تصور ختم کیا جائے، اگر دیگر اداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو تباہ کن ہو گا۔جسٹس صدیقی نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ اس خطر نا ک صورتحال کو سمجھیں اور اداروں میں لوگوں کی مداخلت روکیں۔ فاضل جسٹس نے عدالتی حکم کی نقل سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے۔

تازہ ترین