• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلزپارٹی کو اپنے مضبوط گڑھ سندھ میں جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی صورت میں مشترکہ اپوزیشن اور تحریک انصاف نہیں بلکہ خود اپنی ہی صفوں میں انتشار اور اختلافات سے خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات اس قدر سنگین صورت اور وسعت اختیار کر گئے ہیں کہ خود پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بڑے فکرمند دکھائی دیتے ہیں، ان کی حتی المقدور کوشش ہے کہ پیپلزپارٹی کی کم از کم2013ء کی پوزیشن کو ہی برقرار رکھا جائے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں واحد بڑی جماعت بن کر ابھر سکتی ہے لیکن صوبے میں اپنی بنیاد کھو دینے کا خدشہ موجود ہے۔ جب سے آئندہ عام انتخابات کے لئے تاریخ کا اعلان ہوا ہے، ٹکٹوں کی تقسیم اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اختلافات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں جس کے نتیجے میں کئی ایک اہم رہنما پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اپوزیشن جی ڈی اے اور تحریک انصاف کی قیادت دو مضبوط پیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ پیرپگارا اور شاہ محمود قریشی کے علاوہ بارسوخ خاندان بھی اس کا حصہ ہیں جو صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے آپس کے اختلافات رفع نہ کئے تو وہ آئندہ انتخابات میں کچھ نشستوں سے محروم ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن میں جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی میدان میں ہے لیکن سندھ کا روایتی ووٹ بینک پیپلزپارٹی کے حق میں جاتا رہا ہے۔ دوسرے اس کا نچلی سطح پر تنظیمی نیٹ ورک ہے۔ تیسرے کوئی متبادل سیاسی جماعت بھی نہیں۔ چوتھا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جو20 لاکھ خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے، یہ عوامل25جولائی کو انتخابی نتائج میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کے معتمدین ناہید خان، ڈاکٹر صفدر عباسی، منور عباسی اور دیگر ایک طرف کر دیئے گئے لیکن حقیقی دھچکا تب لگا جب سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جنہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی قیادت کی، انہوں نے آصف زرداری کے خلاف بغاوت کر دی اور براہ راست الزامات عائد کئے۔ ان کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور بیٹا حسنین مرزا بھی ساتھ ہیں۔ ان کے بعد اسی علاقے سے نظامانیوں نے پیپلزپارٹی کا ساتھ چھوڑا جو 1970ء کی دہائی سے پیپلزپارٹی کے ساتھ تھے۔ اب پیپلز پارٹی کو بدین میں دوبارہ قدم جمانے میں دشواریاں درپیش ہیں۔ پیپلزپارٹی کو جیکب آباد میں بھی مسائل کا سامنا رہا تاہم زرداری نے شبیر بجارانی اور سلیم جان مزاری کے ساتھ اختلافات پر قابو پا لیا ہے۔ بجارانی2018ء کے انتخابات میں اب تک بلامقابلہ منتخب واحد رکن قومی اسمبلی ہیں۔ دادو کا مہیسر گروپ بھی ناراض ہونے والوں میں شامل ہے جنہوں نے اب تحریک انصاف میں شمولیت اختیا ر کرلی ہے۔ علی نواز شاہ، شاہد بھٹو، عبدالستار راجپر، عبدالخالق بھرت اور محمدعلی شیخ نے یا تو پیپلزپارٹی چھوڑ دی یا پھر خاموشی سے پیپلزپارٹی مخالف امیدواروں کے حق میں سرگرم ہیں۔ اس طرح زرداری کو نہ صرف انتخابات بلکہ بعد از انتخابات سندھ کی حکومت بنانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ پیپلزپارٹی کو اپنی انتخابی مہم کا آغاز خسارے سے کرنا پڑا ہے۔ پارٹی کے دو اہم رہنما نثار کھوڑو اور منظور وسان نااہل قرار دے دیئے گئے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے باوجود نواب وسان کے بجائے نفیسہ شاہ کو پارٹی ٹکٹ دیئے جانے پر منظور وسان اور سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے اختلافات حل ہونے میں دن لگ گئے۔ اب طے یہ ہوا ہے کہ وسان صوبائی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہوں گے اور قومی اسمبلی کی نشست کے لئے نفیسہ شاہ کی حمایت کریں گے لیکن یقیناً مستقبل کے سیٹ اپ کے لئے مخصوص یقین دہانیاں ضرور کرائی گئی ہوں گی۔ پیپلزپارٹی دیگر تین صوبوں میں مکمل انتشار کا شکار ہے۔

تازہ ترین