• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رومی سلطنت انسانی تاریخ کی ایک انتہائی پر شکوہ اور شان و شوکت کی حامل سلطنت رہی ہے۔اس سلطنت کے کار ہائے نمایاں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ دنیا کے ایک وسیع و عریض علاقے کی حاکم تھی اور بہت سی ریاستیں اس کی باجگزار تھیں ۔اگر رومی سلطنت کا موازنہ آج کل کی تنہا عالمی قوت امریکہ سے کیا جائے ، تو شائد اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت امریکہ بہادر سے بھی زیادہ طاقتور اور با اثر تھی۔ رومیوں کی زبان لاطینی تھی۔ لاطینی زبان نے اس حد تک ترقی کی کہ پوری دنیا میں اسکا چرچا تھا۔ اس زبان میں بہت کام ہوا۔ یورپی اور مغربی زبانوں میں آج تک لاطینی زبان کے الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ غرض دنیا میں لاطینی زبان کو ایک دور میں وہی درجہ حاصل رہا ہے جو آج کل کے دور میں انگریزی زبان کو حاصل ہے۔
زبانوں اور عالمی سلطنتوں کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ انسانی تاریخ میں آج تک کسی ایسی قوم یا ریاست نے عالمی سلطنت کا درجہ حاصل نہیں کیا، کم از کم میرے علم کی حد تک،جس نے اپنی زبان کوفروغ اور ترقی نہیں دی۔سلطنت روم کی زبان لاطینی تھی، سلطنت ِایران کی زبان فارسی،سلطنت عرب کی عربی، ترکی کی سلطنت کی زبان ترکی ،سلطنتِ برطانیہ کی انگریزی، سوویت یونین کی زبان روسی اور امریکہ کی زبان انگریزی ۔
کہتے ہیں کہ اگر رومیوں کولاطینی زبان سیکھنی پڑتی تو وہ کبھی رومی سلطنت قائم نہ کر پاتے۔
چین ابھرتی ہوئی عالمی قوت ہے۔کوئی بعید نہیں کہ چند سالوں میں چین امریکہ کے مقابلے کی طاقت بن جائے یا پھر امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ جائے۔ انسانی تاریخ کی کسی بھی عالمی قوت کی طرح چین کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ جب تک دنیا چینی زبان نہ سیکھے گی تب تک اس کا امریکہ کے مقابلے میں اپنی جگہ بنانا ناممکن ہے۔ اسی لئے چینی حکومت دنیا کو چینی زبان سکھانے کی طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک تو اپنی ضرورت کے تحت اب بچوں کو چینی زبان سکھانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں لیکن بہت سے طفیلئے اور ازلی غلام ملکوں کو چینی زبان سکھانے کا ذمہ خود چینی حکومت نے اٹھایا ہوا ہے۔چین اس مد میں اربوں یوآن سالانہ خرچ رہا ہے ۔ بہت سے ایسے افریقی ممالک ،جہاں چین نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے ،میں تو ہر سال سینکڑوں چینی استادوں کو بھیجا جاتا ہے جو وہاں جا کر چینی زبان کے مقامی استاد تیار کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ چینی حکومت بہت سے ملکوں کے طلباء کیلئے وظائف مہیا کرتی ہے کہ وہ چین جائیں اور چینی زبان سیکھیں۔ ایسے تمام طلباء جو چین میں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے جاتے ہیں انکے لئے سال چھ مہینے کا چینی زبان کا نصاب لازمی ہوتا ہے۔غرض چین کی طرف سے اس ضمن میں ایک نہایت سنجیدہ اور کامیاب کوشش جاری ہے۔
پاکستان میں چینی زبان کو فروغ دینے کی کوششوں کو سراہا جاناچاہئے ۔ اسی لیے حکومتِ سندھ کے اس بیان پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سندھ میں چینی زبان کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیسے؟ چینی زبان کو نصاب میں شامل کرنا کوئی چینی کے نرخ بڑھانا تو ہے نہیں کہ وزیراعلی سندھ بائیں ہاتھ سے کرگزریں۔انگریزی تو ہم اپنے بچوں کو سکھا نہیں سکے جس کو سیکھنے کے مواقع چینی زبان کی نسبت اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک خاص انگریزی زدہ طبقہ ہے جس کے بچے تسلی بخش حد تک انگریزی سیکھ پاتے ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔باقی نمک میں جو آٹا ہے اسکی انگریزی تو ہیلو ، ہاؤ آر یو کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔اگر چند سالوں میں چینی زبان کو اسکول کی سطح پر متعارف کروانا خلافِ معمول کوئی سنجیدہ بیان ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں چینی زبان کو سکھانے والے اساتذہ کہاں سے آئیں گے جبکہ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں چینی زبان جاننے والوں کی تعدادایک دو ہزار سے زیادہ نہ ہوگی اور وہ بھی ایسے لوگ ہیں جن کا چین کے ساتھ واسطہ رہتا ہے تعلیم ، کاروبار یا پھر نوکری وغیرہ کے سلسلے میں اور ان میں سے بھی شائد ہی کوئی ایسا ہو گا جس کو چینی زبان کا مہارت کی حد تک علم ہو۔
چینی دنیا کی مشکل ترین زبان ہے ۔ یہ میں اس لئے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے سفارتکاری کے پیشے کے دوران خود چین میں جا کر دو سال تک چینی زبان کی تعلیم حاصل کی تھی ۔دو سال کے کورس کے بعد بھی چینی زبان میں مہارت کا صرف درمیانی درجہ ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ اگر سندھ حکومت ہزاروں کی تعداد میں چینی زبان کے درمیانے درجے کے استاد بھی تیار کر نا چاہے تو اس کیلئے بے پناہ وسائل درکار ہوں گے، وہ کہا ں سے آئیں گے؟ کیا اس کام کیلئے بھی پاک چین دوستی کا نعرہ لگا کر بھیک مانگنے کا ارادہ ہے؟اگر تو ہم اپنے بچوں کو اپنے مفاد کیلئے چینی زبان سکھانا چاہتے ہیں تو پھر اپنے وسائل سے سکھانا ہو گی لیکن اگر ہم اپنے بچوں کو چینی زبان چینی مفاد میں سکھانا چاہتے ہیں تو پھر میں تو یہی کہوں گا کہ ایسی چینی سے ہم ویسے ہی بھلے۔ کہاوت ہے کہ دنیا میں کوئی مفت کا کھانا نہیں کھلاتا۔ فی الوقت اشارہ ہی کافی ہے مزید وضاحت پھر کبھی سہی۔
بہتر ہو گا کہ اسکولوں کی سطح پہ چینی زبان سکھانے کی بجائے اسے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پڑھایا جائے اور اس سطح کے پہلے سے موجود جوپروگرام چل رہے ہیں ان کو مزید توجہ دی جائے اور انکے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل مہیا کئے جائیں۔مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم آنے والے چند سالوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں چینی زبان کے ماہر پیدا کر سکیں جن کاہنرپاکستان میں بڑھتی ہوئی چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے پیدا ہونے والی ضروریات میں استعمال ہو سکے۔ پھر اس سے بھی بڑامقصد یہ ہونا چاہئے کہ چینی زبان کے ماہرین چینی زبان میں موجود علمی ذخیروں کو اردو زبان میں ترجمہ کرکے ان کو ایک عام پاکستانی کی دسترس میں لا سکیں۔
یہی زندہ قوموں کا دستور ہے کوئی زندہ قوم بغیر مقصد کے غیر ملکی زبان نہیں سیکھتی ۔ ہماری مثال الگ ہے ، ہم نے تو بے مقصد ہی انگریزی زبان سیکھنے کی کوشش میں چونسٹھ سال ضائع کر دئیے۔ ہماری اشرافیہ کیلئے انگریزی زبان سماجی برتری اور ملکی وسائل پر قبضہ قائم رکھنے کا ایک موثر آلہ ہے لیکن ایک عام آدمی کو اس کا ٹکے کا فائدہ نہیں،الٹا نقصان ہے ۔ نہ اسکی انگریزی زبان میں موجود لاتعداد علمی خزانو ں تک رسائی ہوئی کیونکہ وہ اردو یا مقامی زبانوں میں ترجمہ ہی نہ کئے گئے، نہ وہ خود انگریزی زبان سیکھ سکا کیونکہ غیر ملکی زبان سیکھنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ پھر انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کا زمانہ آگیا تو اسکا عام آدمی کو اور بھی نقصان ہوا ہے۔ باوجود ہزار کوششوں کے اور بے پناہ وسائل ضائع کرنے کے اس کوانگریزی میں اتنی مہارت تو حاصل نہیں ہوسکی کہ وہ انٹرنیٹ کی بدولت گھر کی میز پر موجوددنیا جہاں کے علوم اور معلومات سے استفادہ حاصل کر سکے کیونکہ یہ ساراخزانہ انگریزی زبان میں ہے اور ہماری اشرافیہ کے جرائم کی ایک لمبی فہرست میں سے ایک نمایاں جرم یہ ہے کہ اس نے( انگریزی میں اپنی مہارت کے باعث )نہ صرف کتب کی حد تک عام آدمی کی علوم تک رسائی قائم کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ انٹر نیٹ کی عام آدمی تک رسائی بھی اپنی مجرمانہ اور غلامانہ ذہنیت کے سبب ممکن نہیں ہونے دی ۔
چین ہی کی مثال کو لے لیں ۔ چین کی مادی ترقی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن دنیا میں شائد چینی ہی ہیں جن کی انگریزی سب سے کمزور ہوگی۔ انگریزی زبان میں سب سے زیادہ مہارت رکھنے پر فخر کرنے والے بھارت کی ترقی چین کے مقابلے میں ناقابلِ یقین حد تک کم ہے۔ وجہ سیدھی سی ہے چین نے اپنی زبان پر فخر کرنا سیکھا اور اس کو فروغ دیا۔ کئی عشروں تک فروغ کا عمل اندرونی حد تک محدود رہا ۔ شائد ہی دنیا کی کسی زبان کی کوئی قابلِ ذکر کتاب ہو جو چینی زبان میں ترجمہ ہو کر ایک عام چینی کی دسترس میں نہ لائی گئی ہو۔ انٹر نیٹ کا زمانہ آیا تو ہر طرح کی ویب سائٹس کو چینی زبان میں متعارف کروایا گیا اور آج گوگل جیسی تحقیقی ویب سائٹ سے لیکروکی پیڈیا جیسی معلوماتی ویب سائٹ تک اور فیس بک جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے لیکر یاہو اور جی میل جیسی ذاتی رابطے کی ویب سائٹ تک ، ہر طرح کی انٹر نیٹ کی سہولتیں ایک عام چینی کو اپنی زبان میں میسر کی گئی ہیں اور پھر یہ تمام سہولتیں چین کے اپنے دائرہ اختیار میں ہیں ، کوئی دوسرا ملک جب چاہے اس سے یہ سہولتیں واپس نہیں لے سکتا یا ان ویب سائٹس میں موجود معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا(جیسا کہ ہمارے معاملے میں ہے)۔اب چینی اشرافیہ نے زبان کے فروغ کا سلسلہ بیرون ممالک تک پھیلا دیا ہے ۔
عرض صرف اتنی ہے کہ ہمیں دنیا میں جینے کے طور طریقے سیکھنے چاہئیں۔ ہمیں چینی زبان سیکھنے کے معاملے میں وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جو ہم نے انگریزی کے معاملے میں کی ہیں اور کرتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ ہمیں چینی زبان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی، جرمن، روسی، جاپانی اور دوسری اہم زبانیں بھی اپنے بچوں کو سکھانی چاہئیں لیکن ایک بامقصد اور وضع شدہ پروگرام کے ساتھ اور صر ف اپنے قومی مفاد میں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی سیکھیں اور سکھائیں۔ کم از کم چونسٹھ سال گزرنے کے بعد ہی اسکو دفتری زبان کا درجہ دئیے جانے کا وعدہ پورا کر دیں، اگرچہ اس کام کے لئے آپ کو کہیں سے کوئی بھیک نہیں ملے گی۔
تازہ ترین