• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوب ناصر

خطہ پوٹھوہار کو پارلیمنٹ کے اندر ہمیشہ ہی فوقیت رہی ہے حکومت کسی کی بھی رہی ہو اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد اس حکومت میں نمایاں پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ 2008کی حکومت میں دوسرا وزیراعظم پرویز اشرف گوجر خان سے تھا سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے بعد قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور2017 میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد دوسرا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی خطے کا باسی ہے۔خطہ پوٹھوہار میں ووٹروں کی کل تعداد 73 لاکھ بیاسی ہزار پانچ سو بتائی جاتی ہے جن میں سے 31لاکھ 12ہزار پانچ سو ضلع راولپنڈی، 12 لاکھ 11ہزار پانچ سو ضلع اٹک، 9لاکھ 45ہزار پانچ سو ضلع جہلم اور 11لاکھ13ہزار پانچ سو ضلع چکوال کی ہے، قومی اسمبلی کا حلقہ این اے59 راولپنڈی تھری خطہ پوٹھوہار10بڑی اہمیت کا حامل حلقہ بن کر رہ گیا ہے۔ راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں 

دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان جی ٹی روڈ کے دونوں طرف کے علاقے کو ’’خطہ پوٹھوہار ‘‘ کہا جاتا ہے قومی اسمبلی کی13 اور صوبائی اسمبلی کی27 نشستوں پر مشتمل خطہ پوٹھوہار کو پارلیمنٹ کے اندر ہمیشہ ہی فوقیت رہی ہے حکومت کسی کی بھی رہی ہو اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد اس حکومت میں نمایاں پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ 2008کی حکومت میں دوسرا وزیراعظم پرویز اشرف گوجر خان سے تھا سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے بعد قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور2017 میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد دوسرا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی خطے کا باسی ہے۔خطہ پوٹھوہار میں ووٹروں کی کل تعداد 73 لاکھ بیاسی ہزار پانچ سو بتائی جاتی ہے جن میں سے 31لاکھ 12ہزار پانچ سو ضلع راولپنڈی، 12 لاکھ 11ہزار پانچ سو ضلع اٹک، 9لاکھ 45ہزار پانچ سو ضلع جہلم اور 11لاکھ13ہزار پانچ سو ضلع چکوال کی ہے۔ خطہ پوٹھوہار کا ضلع اٹک صوبہ خیبر پختونخوا سے جا لگتا ہے اس ضلع سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے55 اٹک I اٹک شہر اور ملحقہ مضافاتی علاقوں پر مشتمل ہے اس حلقے سے2008 اور 2013 میں شیخ آفتاب احمد منتخب ہوئے تھے2008 سے2013 تک مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں چیف وہیپ رہے جبکہ2013 سے 2018 تک وفاقی وزیر پارلیمانی امور رہے۔ 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کے امیدوار ہیں ان کا مقابلہ پرانے حریف تحریک انصاف کے نامزد امیدوار طاہر صادق، پاکستان پیپلزپارٹی کے سردار ذوالفقار حیات خان، تحریک لبیک پاکستان کے حفیظ اللہ جان اور اللہ اکبر تحریک کے ملک آصف اقبال سمیت8 دیگر امیدواروں سے ہے جن میں پی ٹی آئی نظریاتی کے تیمور اسلم، متحدہ مجلس عمل کے سعید احمد اور پاکستان ہیومن رائٹس پارٹی کے ملک امیر افضل شامل ہیں۔ ضلع اٹک سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے56 سے 7امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی سے واپس آنے والے ملک سہیل کمڑیال کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے56 سے میدان میں اتارا ہے پی ٹی آئی نے ق لیگ سے آنے والے طاہر صادق کو ہی اس حلقے سے بھی ٹکٹ دے دیا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے سردار سلیم حیدر کو مقابلے میں اتارا ہے۔ تحریک لبیک نے سید فیصل محمود کو نامزد کیا ہے پی ایف ڈی پی نے مہرام خان کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ شہریار خان اور غلام اصغر آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار ان دونوں حلقوں میں سخت مقابلے کی نوید سنا رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس علاقے میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کروائے ہیں پنجاب اسمبلی کے حلقہ ایک سے ن لیگ کے محمد سلیمان سرور پی ٹی آئی کے سید یاور علی بخاری، پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد عرفان متحدہ مجلس عمل کے محمد اقبال، ملی مسلم لیگ کے سید اختر اور تحریک لبیک کے عمر ارشد کے علاوہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 2 سے 7 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ن لیگ کے شہید شجاع خانزادہ کے صاحبزادے جہانگیر خانزادہ، پی ٹی آئی کے قاضی احمد اکبر ، پی پی پی کے احمد خانزادہ، ایم ایم اے کے چنگیز خان، تحریک لبیک کے سید طاہر شاہ، پاکستان جسٹس پارٹی کے شوکت حیات اور آزاد امیدوار لیاقت محمود شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی تھری پنڈی گھیپ سے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بہنوئی آصف علی ملک پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں اس حلقے سے7امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں پی ٹی آئی نے طاہر صادق کو ہی صوبائی اسمبلی کے لئے بھی نامزد کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے محمد ریاض خان، ایم ایم اے کے تاج الدین، تحریک لبیک کے راحت علی خان، پاکستان جسٹس پارٹی کے عمران علی خان اور پاکستان سنی تحریک کے محمد ارشد امیدوار نامزد ہیں۔ پنجاب اسمبلی حلقہ پی پی4میں صرف پانچ امیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔ ن لیگ نے شیر علی خان، پی ٹی آئی نے ملک محمد انور، پیپلزپارٹی نے محمد اختر، تحریک لبیک نے ملک امانت خان کو نامزد کیا ہے۔ ایک آزاد امیدوار ملک رحمت علی بھی میدان میں موجود ہیں۔ ضلع اٹک سے پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 5میں 10 امیدوراوں میں مقابلہ ہو گا جن میں ن لیگ کے ملک بہادر یار، پی ٹی آئی کے ملک جمشید الطاف، تحریک لبیک پاکستان کے سید حسن محمود شاہ گیلانی، متحدہ مجلس عمل کے رازق داد خان، تحریک لبیک اسلام کے داود عالم، متحد علما مشائخ کونسل پاکستان کے خرم شہزاد خان کے علاوہ ملک ہارون رمضانی، منظر امیر اور نیاز علی ملک آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ضلع اٹک میں ن لیگ کو برتری حاصل تھی تاہم پارٹی کے ساتھ چلنے والے کئی گروپ ناراض ہو کر طاہر صادق کی حمایت میں چلے گئے ہیں اس کے باوجود ن لیگ کی قیادت کامیابی کے لئے پر امید نظر آتی ہے، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابی مہم میں شرکت کا موقع مل گیا تو غیر معمولی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ ضلع راولپنڈی خطہ پوٹھوہار کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے اس ضلع میں قومی اسمبلی کے7اور پنجاب اسمبلی کے 15حلقے ہیں ملکہ کوہسار مری، کہوٹہ اور کوٹلی ستیاں این اے57راولپنڈی ون میں شامل ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ماضی میں مسلسل تین بار اس حلقے سے منتخب ہوتے رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا گیا جہاں انہوں نے پارٹی کے ایک وفادار وزیراعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ شاہد خاقان عباسی کی پارٹی سے وفاداری اور بحیثیت وزیراعظم کارکردگی پر پارٹی نے انہیں ان کے آبائی حلقے سے ٹکٹ دینے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام ٓآباد کے حلقے این اے 53سے بھی میدان میں اتار دیا ہے جہاں وہ سست روی سے انتخابی مہم شروع کر رہے ہیں، شاہد خاقان عباسی نے اپنے آبائی حلقے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا خود حلقے میں جائیں نہ جائیں مگر حلقے پر توجہ موجود رہتی ہے۔ این اے 57 سے 2018کے انتخابات میں آٹھ امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ جن میں ثمینہ شاہد، راجہ طارق محمود جنجوعہ اور سردار محسن اختر عباسی آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔ ثمینہ شاہد سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں جن کے کاغذات نامزدگی کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے حتمی فہرست میں موجود رکھے گئے ہیں دیگر امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی پی ٹی آئی کے صداقت علی خان، پاکستان پیپلزپارٹی کی مہرین انور راجہ، تحریک لبیک کے جاوید اختر عباسی اور منیب ستی پاکستان سنی تحریک کے امیدوار ہیں پی ٹی آئی کے صداقت علی خان گزشتہ دس برسوں سے اس حلقے میں متبادل قیادت کے لئے خود کو پیش کر رہے ہیں تاہم ابھی بھی سیاسی حلقے اس نشست پر شاہد خاقان عباسی کا پلہ بھاری قرار دے رہے ہیں 2018کے انتخابات میں تحصیل مری سے بھاری اکثریت لے کر مخالفین انہیں شکست سے دوچار کرسکتے ہیں۔ این اے 57 میں شاہد خاقان عباسی کے صوبائی حلقوں پی پی 6اور پی پی 7میں راجہ اشفاق سرور اور راجہ محمد علی کی نامزدگی پارٹی کا فیصلہ ہے پی پی6میں راجہ اشفاق سرور کا مقابلہ پی ٹی آئی کے میجر(ر) محمد یعقوب ستی، پی پی پی کے سجاد احمد عباسی، ایم ایم اے کے سجاد عباسی اور تحریک لبیک کے نیئر منیر سمیت13 امیدواروں کے ساتھ راجہ اشفاق سرور پنجاب کے سینئر وزیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے یقینا انہوں نے مری کو اہمیت دی ہو گی جس کی وجہ سے وہ دعویدار ہیں کہ لوگ انہیں ووٹ دے کر کامیاب بنائیں گے۔ پی پی 7 میں بتایا جاتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی ن لیگ کے امیدوار راجہ محمد علی کی بجائے آزاد امیدوار راجہ صغیر احمد کو ساتھ لئے پھرتے ہیں جس کی وجہ سے بلال یاسین ستی بھی انہیں ستی ووٹ دلانے کے لئے کوشاں ہیں مگر راجہ محمد علی بھی عام امیدوار نہیں بلکہ صاحبزادہ ساجد الرحمن کے داماد ہیں ن لیگ کے چیئرمین اور سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کے صاحبزادے ہیں جن کا اپنا ایک ووٹ بیک موجود ہے۔ کلر سیداں کی چھ یونین کونسلیں انہیں کامیاب کرنے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہیں۔ صاحبزادہ ساجد الرحمن کے مریدین بھی راجہ محمد علی کی کامیابی کو اپنی دینی فریضہ سمجھتے ہیں اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے راجہ ظفر الحق کبھی پیچھے نہیں رہے۔ این اے58 گوجر خان راولپنڈی ٹو کو بھی ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں اہمیت حاصل رہی ہے راجہ جاوید اخلاص 2013کے انتخابات میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو شکست دے کر پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اس سے پہلے وہ متعدد بار پنجاب اسمبلی کے رکن رہے اور پرویز مشرف کے دور میں نائب ضلع ناظم کے بعد ضلع ناظم کے منصب بھی بھی منتخب ہوئے 2018کے انتخابات میں ن لیگ نے انہیں ہی نامزد کیا ہے اور ان کی پسند اور مرضی کے مطابق پنجاب اسمبلی کے لئے امیدوار نامزد کئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے چوہدری محمد عظیم، پاکستان پیپلزپارٹی نے راجہ پرویز اشرف جبکہ تحریک لبیک نے محمد رمضان اعوان کو نامزد کیا ہے۔ اس حلقے سے دیگر چھ امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں۔ جن میں ریاض محمود، طارق محمود، ظفر محمود، محمد آکاش بھٹی، محمد امین شائق اور مختار علی کے نام شامل ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہےکہ راجہ پرویز اشرف کی برتری کم ہو گئی ہے تینوں امیدواروں میں سخت مقابلہ ہے پی پی 9سے راجہ حمید کو ن لیگ کا ٹکٹ دیئے جانے کی وجہ سے شوکت بھٹی پارٹی سے بغاوت کر گئے ہیں اور ن لیگ کے امیدواروں کو نقصان پہنچانے پر بضد نظر آتے ہیں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شوکت بھٹی کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے اپنی ضد پوری کرنے کے لئے کسی ذاتی نقصان کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ پی پی8سے ن لیگ کے چوہدری ریاض کو برتری حاصل ہے اس کا مقابلہ پی ٹی آئی کے چوہدری جاوید کوثر، پیپلزپارٹی کے خرم پرویز رضا، ایم ایم اے کے راجہ محمد جواد، تحریک لبیک کے اجمل قریشی، متحد علما و مشائخ کونسل کو خرم شہزاد اور تحریک لبیک اسلام کے محمد شکیل کے علاوہ چار آزاد امیدواروں آفتاب احمد، راجہ منظور حسین، ضیافت حسین اور محمد شکیل سے ہے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ9میں ن لیگ کے راجہ محمد حمید پی ٹی آئی کے چوہدری ساجد محمود، پیپلزپارٹی کے چوہدری سرفراز احمد خان، متحدہ مجلس عمل کے چوہدری عابد حسین، تحریک لبیک پاکستان کے سید دیوان علی شاہ بخاری، تحریک لبیک اسلام کے وسیم احمد، متحدہ علما مشائخ کونسل کے اللہ دتہ کے علاوہ آزاد امیدواروں راجہ فیصل عزیز بھٹی، ریاض محمود مغل، ملک عبدالشکیل ملک اور محمد مسعود میں ہے۔ پی پی 7کہوٹہ کوٹلی ستیاں میں راجہ محمد علی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے غلام مرتضی ستی پی پی پی کے محمد ایوب، ایم ایم اے کے راجہ تنویر اور تحریک لبیک کے منصور ظہور سے ہو گا۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے59 راولپنڈی تھری خطہ پوٹھوہار10بڑی اہمیت کا حامل حلقہ بن کر رہ گیا ہے۔ راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ دونوں صوبائی حلقوں سے بھی خود میدان میں اترے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے59سے راجہ قمرالاسلام کو امیدوار نامزد کیا ہے اس کی نامزدگی کے اگلے ہی روز نیب نے انہیں گرفتار کر لیا ان کا دس سالہ بیٹا اور16سالہ بیٹی اپنے گرفتار باپ کی مہم چلا رہی ہیں قوی امکان ہے کہ مریم نواز جیل سے رہائی ملنے کی صورت میں شاید راجہ قمر الاسلام کی انتخابی مہم میں شریک ہوں۔ دیگر امیدواروں میں پی ٹی آئی غلام سرور خان، تحریک انصاف نظریاتی کے اجمل صابر راجہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چوہدری کامران علی خان، تحریک لبیک کے ملک محمد تاج، متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالغفار غفاری کے علاوہ صفدر علی خان، طارق بشیر راجہ اور محمد امین خان ازٓاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ کرنل (ر) اجمل صابر راجہ 2013کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں آئے تھے اور شکست سے دوچار ہوئے تھے 2018میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر نظریاتی گروپ میں چلے گئے چوہدری نثار علی خان2008 میں بھی اس حلقے سے منتخب ہوئے تھے ابھی انہوں نے اس حلقے میں انتخابی مہم میں شدت پیدانہیں کی، کامیابی کےلئے پرامید ہیں این اے63ٹیکسلا کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ این اے 59سے منسلک صوبائی حلقے پی پی 10میں12امیدوار موجود ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے پہلے مرحلے میں اس حلقے میں چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا تھا تاہم دوسرے مرحلے میں این اے 59کی طرح پی پی 10سے بھی انجینئر راجہ قمر الاسلام کو ہی نامزد کیا گیا۔ گلریز ہائوسنگ اسکیم میں رہائش پذیر راجہ قمرالاسلام کا بیٹا اور بیٹی اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس حلقے میں دیگر امیدواروں میں چوہدری نثار علی خان جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں پرویز اختر مرزا پی پی پی کے امیدوار نوید سلطان تحریک انصاف، محمد عبداللطیف طیب تحریک لیبیک، چوہدری محمد امیر افضل پاکستان تحریک انصاف نظریاتی، خالد محمود مرزا متحدہ مجلس عمل راجہ شفاکت اقبال کیانی پاکستان سنی تحریک علی اکبر چغتائی پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ نصیر الحسنین شاہ، چوہدری کامران علی خان، ریاض الدین صدیقی، صفدر علی خان، طارق بشیر راجہ، محمد افضل آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق چوہدری نثار علی خان کو اس حلقے میں اہمیت دی جا رہی ہے۔ این اے 59سے منسلک پنجاب اسمبلی کے دوسرے حلقے پی پی12سے بھی مجموعی طور پر15امیدوار حصہ لے رہے ہیں آزاد امیدواروں میں چوہدری نثار علی خان ، پرویز مسیح، جعفر حسین شاہ، راجہ عابد حسین، سہیل احمد، محمد سلیم ندیم شامل ہیں جبکہ اسفند یار راجہ پی پی پی، فیصل قیوم ملک ن لیگ، واثق قیوم عباسی تحریک انصاف، صوفی ظہور شاہ تحریک لبیک پاکستان، عبدالوحید پی ٹی آئی نظریاتی، فریال مسعود عام لوگ پارٹی، محمد مقصود خان متحدہ مجلس عمل، مدثر حسین تحریک لبیک اسلام، مدثر حسین خان پاکستان قومی یکجہتی پارٹی کے امیدوار ہیں۔2013کے انتخابات میں موجودہ حلقہ این اے52 تھا جہاں چوہدری نثار علی خان پارٹی امیدوار کی حیثیت سے جبکہ صوبائی حلقے پی پی6 سے گائے کے نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے۔ کامیابی کے بعد صوبائی حلقے کو چھوڑ دیا تھا جہاں سے بعد میں سابق چیئرمین ضلع کونسل چوہدری محمد افضل کے صاحبزادے چوہدری سرفراز افضل منتخب ہوئے تھے جو اب پی پی13 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 60 راولپنڈی سٹی ہے جو پہلے حلقہ این اے56کہلاتا تھا۔ 2002اور2008میں اس حلقے سے حنیف عباسی منتخب ہوئے تھے جبکہ 2013میں عمران خان نے حنیف عباسی کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ 2018کے انتخاب میں اس حلقے سے 8امیدوار حصہ لے رہے ہیں ن لیگ کے حنیف عباسی کا مقابلہ 25جولائی کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سے ہو گا۔ دیگر امیدواروں میں پاکستان الفلاح پارٹی کے سید راشد حسین شاہ ، تحریک لبیک پاکستان کے عطا الرحمن، پاکستان پیپلزپارٹی کے مختار عباس اور آزاد امیدوار محمد قیصر میرداد خان، محمد جلیل عباس اور محمد اظہر اسلم الیکشن میں حصہ لیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ابھی تک حنیف عباسی کو برتری حاصل ہے حنیف عباسی کے خلاف ہائی کورٹ کی طرف سے 21جولائی تک منشیات کورٹ کا فیصلہ سنانے کے حکم سے اپ سیٹ خارج از امکان نہیں، اس حلقے سےمنسلک پی پی گیا رہ سے ن لیگ نے سابق رکن پنجاب اسمبلی راجہ ارشد محمود کو ٹکٹ دیا ہےجس کا مقابلہ پی ٹی آئی کے چوہدری محمد عدنان، پاکستان پیپلزپارٹی کے نعیم اسلم کیانی، اللہ اکبر پارٹی کے محمد عدنان یونس، متحدہ مجلس عمل کے مسرت اقبال عباس، تحریک لبیک پاکستان کے ملک اظہر آفتاب کے علاوہ آزاد امیدوار بابر سہیل، حاجی ملک پرویز اعوان، راجہ قیصر مجاہد اور غلام محمد چوہدری کے مابین ہوگا۔ پنجاب اسمبلی کا حلقہ پی پی 13 راولپنڈیVIIIبھی اہمیت کا حلم حلقہ ہے جو این اے60سے ہی منسلک ہے اس حلقے سے پی ٹی آئی نے چوہدری احمد محمود، ن لیگ نے چوہدری سرفراز افضل، پاکستان پیپلزپارٹی نے سید ناصر حسین بخاری، متحدہ مجلس عمل نے محمد تاج عباسی، پاکستان فلاح پارٹی نے زبیر انور بیگ اللہ اکبر پارٹی نے سردار فہیم سلیم، تحریک لبیک نے چوہدری رضوان یونس جبکہ چوہدری آصف علی، داد خان اوردوست محمد خان آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی ن لیگ اور پی پی پی میں سخت مقابلہ بتایا جاتا ہے پنجاب اسمبلی کا حلقہ 17 بھی این اے60سے منسلک حلقہ ہے جہاں سے ن لیگ کے سابق رکن پنجاب اسمبلی عبداللطیف کے مقابلے پر12 امیدوار میدان میں اترے ہیں جن میں پاکستان فریڈم موومنٹ کے راجہ سعد بشیر احمد ستی، متحدہ مجلس عمل کے رضا احمد شاہ، تحریک لبیک پاکستان کے شیخ محمد ندیم، تحریک نوجوانان پاکستان کے عارف محمود، پاکستان تحریک انصاف کے فیاض الحسن چوہان، آل پاکستان مسلم لیگ کے محمد امین، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے نصر اللہ خان اور آزاد امیدوار دانش عطا، راجہ عبدالحبیب اور غلام محمد چوہدری، ضیاالحق شامل ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں این اے56 سے حنیف عباسی کی13ہزار ووٹوں سے شکست کے باوجود راجہ حنیف ایم پی اے کی حیثیت سے کامیاب ہو گئے اور سیاسی حلقے 2018کے انتخابات میں بھی انہیں برتری حاصل ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قو می اسمبلی کا حلقہ این اے 61راولپنڈی کینٹ 2013کے انتخابات میں این اے 54تھا جہاں سے2008اور 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک ابرار احمد نے کامیابی حاصل کی تھی 2018کے انتخابات میں بھی ن لیگ نے ملک ابرار احمد کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ اس حلقے میں ملک ابرار احمد کے مقابلے پر15امیدوار سامنے آئے ہیں۔ جن میں آل پاکستان مسلم لیگ کے اعجاز حسین ،فر نٹ نیشنل پاکستان کی حنا منظور (ر) پاک سر زمین پارٹی کے رازق محمود بھٹی متحدہ مجلس عمل کے میاں ظفر یٰسین ، پاکستان عوام لیگ تاج محمود ، اللہ اکبر پارٹی کے فہیم رضا تحریک لبیک کے سید شاہد پرویز ، پی ٹی آئی کے عامر محمود کیانی اور پیپلز پارٹی کے حاجی گلزار اعوان شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک باغی راجہ جہانداد جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت میں اترے ہیں۔ جو ملک ابرار سے کنٹو نمنٹ بورڈ میں تحریک عدم اعتماد کی سرپرستی کا بدلہ لینے کیلئے ان کے مقابلے پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس حلقے سے گزشتہ انتخاب میں پی ٹی آئی کی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے والی حنا منظور الگ جماعت کے پلیٹ فارم سے مقابلے میں اتری ہیں ۔اس حلقے میں سخت مقابلے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، کیا ملک برادران اپنا ووٹ بنک محفوظ رکھ سکیں گے؟ قو می اسمبلی کے حلقے این اے61سے منسلک پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 14جو پر انی حلقہ بندی میںپی پی 9 تھا، 2013میں پی ٹی آئی کے اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی ۔2018کے انتخابات میں اس حلقے سے16 امیدوار سامنے آئے ہیں ۔جن میں گیارہ آزاد حیثیت میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سیف اللہ ،حاجی ظفر اقبال ، راجہ عرفان حسین ، راشد محمود ، شبیر عباسی عابد ، شو کت رشید بٹ ، ظفر اقبال ،محمد قاسم ، محمد ناصر ، محمد و سیم فرخ ، اور و سیم احمد کے نام شامل ہیں، آغا مجیب الرحمٰن خان ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ، اسامہ چوہدری ن لیگ ، رضوان احمد متحدہ مجلس عمل ، شازیہ سعید عباس اللہ اکبر تحریک ، احمد بشارت راجہ پی ٹی آئی ، محمد و سیم فرخ تحریک لبیک پاکستان شامل ہیں ۔ محمد بشارت راجہ ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی کے امیدوار بنے ہیں ۔2002کے انتخابات سے قبل بشارت راجہ اس حلقے سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو ئے تھے۔ 2002کے انتخابات میں این اے 54سے پاکستان پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے راجہ محمدظفر الحق کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی مگر پنجاب اسمبلی کے دونو ں حلقوں پی پی 9 سے چوہدری ایاز اور پی پی 10سے ملک ابرار منتخب ہو گئے تھے۔2008کے انتخابات میں بھی ملک ابرار نے این اے 54اور پی پی 10سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ پی پی 9سے چوہدری ایاز ہی منتخب ہو ئے تھے ۔ضمنی انتخابات میں ملک ابرار کی جگہ پی پی 10میں ملک افتخار بھی جیت کر آئے ۔ این اے 54میں ملک ابرار ہی رہے مگر پی پی 10میں ان کے بھائی افتخار ملک کی جیت چل پڑی 2018کے انتخابات میں دونو ں بھائیو ں کو ہرانے کیلئے عمران خان نے این اے 53کا الیکشن خود لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے دست راست عامرمحمود کیانی کو این اے54فتح کرنے کیلئے بھیج دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بشارت راجہ اور عامر کیانی کس حد تک کامیاب ہو تے ہیں۔ این اے 61کی دوسری صو بائی نشست پی پی 15ہے جہاں سے مجموعی طور پر 11امیدوار میدان میں اترے ہیں ۔ تین آزاد ہیں جن میں شبیر خسین ، ملک عبد الکریم خان ، اور ناظر علی خان شامل ہیں۔ ملک افتخار احمد ن لیگ ، عمر تنویر پی ٹی آئی ، محمد جاویداقبال ملک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ، خالد محمود علوی متحدہ مجلس عمل ، طاہر اقبال پاکستان سنی تحریک ، ملک شیراز یاسین اللہ اکبر پارٹی اور تاج محمود پاکستان عوامی لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ 25 جو لائی کو پو لنگ ہو گی اور پتہ چل جائے گا کہ عوام اس حلقے میں کس طر ح کی نمائندگی چاہتے ہیں ؟ این اے62بھی خطہ پو ٹھوار کا اہم حلقہ ہے۔ پرانی حلقہ بندیو ں کے مطابق یہ حلقہ پہلے 38اور بعد میں55رہا۔ جہاں شیخ رشید نے 2008کے سو ا ہمیشہ کامیابی حاصل کی ۔2008میں مخدو م جاوید ہاشمی نے شیخ رشید کے مقابلے پر الیکشن لڑا اور 6بار منتخب ہو نے و الے شیخ رشید احمد کی ضمانت ضبط کروا دی۔ ضمنی انتخاب میں بھی شکیل اعوان کے مقابلے میں شیخ رشید کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013کے انتخابات میں این اے 55میں شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ن لیگ کے امیدوار سابق ایم این اے شکیل اعوان کو 13ہزار ووٹوں سے شکست دی جبکہ قومی اسمبلی سے منسلک دونوں صوبائی حلقے بھی پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ راشد حفیظ اور اعجاز خان جازی نے جیت لئے تھے 2018 کے انتخابات میں ن لیگ نے نئے انداز میں ٹکٹ تقسیم کئے ہیں این اے 61 کیلئے الگ اور این اے 62 کیلئے الگ الگ انتخابی دفاتر سکستھ روڈ پر قائم کئے ہیں کنٹونمنٹ کے سابق صدر سینیٹر چوہدری تنویر خان کی قیادت میں انتخابی مہم چلائی جارہی ہے بظاہر مسلم لیگ ن میں گروپ بندی ختم ہوچکی ہے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے موقع پر اس کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا سینکڑوں کارکن جیلوں میں گئے مگر پارٹی قائد نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نواز کے استقبال کا پروگرام متاثر نہیں ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے این اے 62 سے شیخ رشید کا مقابلہ کرنے کیلئے سینیٹر چوہدری تنویر خان کے صاحبزادے بیرسٹر دانیال چوہدری کو ٹکٹ دیا ہے جس نے اپنی پسند سے پی پی 16 کیلئے شیخ ارسلان اور پی پی 18 کیلئے سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان کو امیدوار نامزد کرایا۔ آغاز میں تو مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت نے مزاحمت دکھائی تاہم اعلیٰ قیادت کی مداخلت پر بظاہر سب اکٹھے ہوگئے ہیں اکٹھے ہونے کا عملی مظاہرہ 25 جولائی کو کامیابی کی شکل میں ہی حقیقی ثابت ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے دوران (ن) لیگ کی مقامی قیادت متحد نہ تھی اور ہر بندہ ایک دوسرے کی مخالفت کے باوجود کامیابی کا متمنی تھا کوئی قائد نہ تھا جس کی وجہ سے ن لیگ کو ضلع راولپنڈی میں قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی 5 نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے، چوہدری نثار علی خان ٹیکسلا کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں ہار گئے تھے عمران خان سے حنیف عباسی اور شیخ رشید سے شکیل اعوان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پی پی 13,12,11 اور پی 9 میں بھی ناکامی ملی تھی۔ این اے 62 میں مجموعی طور پر 12 امیدوار موجود ہیں شیخ رشید احمد عوامی مسلم لیگ، دانیال چوہدری مسلم لیگ (ن)، اصغر علی مبارک پاکستان عوامی لیگ، چوہدری قدیر احمد تحریک لبیک پاکستان، سمیرا گل پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین، طارق منیر متحدہ مجلس عمل، غلام مصطفیٰ بابری پارٹی پاکستان، محمد فاروق پاکستان ویلفیئر پارٹی، یاسر محمود، مخدوم محمد نیاز انقلابی، محمد آصف خان اور شہزادہ عمران آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں اصل مقابلہ بیرسٹر دانیال چوہدری اور شیخ رشید کے مابین ہے شیخ رشید دعویٰ کر رہے ہیںکہ وہ ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کریں گے جبکہ سینیٹر چوہدری تنویر کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ شیخ رشید کو 60 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دے گی۔ ووٹ عوام نے ڈالنے ہیں 25 جولائی کو بتا دیں گے کہ کس کے ساتھ ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 62 سے منسلک پی پی 16 جو پہلے پی پی 11 ہوتا تھا 2002 میں راجہ راشد حفیظ ق لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے 2008 کے انتخابات میں ضیاء اللہ شاہ سے شکست کھا گئے مگر 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے ضیاء اللہ شاہ کو شکست دے کر دوبارہ منتخب ہوگئے 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے راجہ راشد حفیظ کو ہی کو امیدوار نامزد کیا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شیخ ارسلان حفیظ، پیپلز پارٹی نے چوہدری افتخار احمد، ایم ایم اے نے محمد حنیف چوہدری، تحریک لبیک نے قاضی عبدالخیر، ملی مسلم لیگ نے افتخار شاہ، پاک سرزمین پارٹی نے سید سعید الحسن رضوی کو نامزد کیا ہے جبکہ دو آزاد امیدوار اعجاز محمود عباسی اور سلطان فیض بھی میدان میں موجود ہیں۔ اس حلقے میں بھی سخت مقابلہ متوقع ہے تمام امیدوار اپنا پورا زور لگا رہے ہیں تاہم اصل مقابلہ راشد حفیظ اور شیخ ارسلان حفیظ میں ہی نکلے گا۔پی پی 18 این اے 62 کا دوسرا حلقہ ہے جس میں صرف پرانا شہر ہی نہیں گنجمنڈی سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ آئی جے پی روڈ تک تمام آبادی شامل ہیں۔ 2002 میں اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے عامر فدا پراچہ منتخب ہوئے تھے۔ 2008 میں یہ نشست پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہریار ریاض نے جیت لی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے ملاقات کیلئے دیا گیا وقت دو بار منسوخ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرنے کی پاداش میں ٹکٹ سے محروم کردیا گیا 2013 میں ٹکٹ سردار نسیم کو دے دیا گیا مگر ناراض لوگوں کو منانے پر توجہ نہ دی گئی شہریار ریاض پورے پانچ سال قیادت کی طرف سے واپسی کی دعوت کا انتظار کرتے رہے اور ٹکٹ ملتی نظر نہ آنے پر پی ٹی آئی میں چلے گئے ن لیگ نے 2013 میں اس حلقے/ پی پی 18 جس کا پہلے نام پی پی 12 تھا سے سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان کو ٹکٹ دیا 2013 میں اس حلقے سے منتخب ہونے والے اعجاز خان جازی کو ٹکٹ سے محروم کرکے پی ٹی آئی نے شہریار ریاض کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر اعجاز خان جازی نے جب پی پی 62 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا تو اسے دوبارہ پی پی 18 میں بحال کرکے شہریار ریاض کو اس حلقے سے آئوٹ کردیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مقابلے پر 6 امیدوار موجود ہیں جن میں تحریک انصاف کے اعجاز خان جازی، پاکستان پیپلز پارٹی کے بابر سلطان جدون، اللہ اکبر پارٹی کے زاہد خان، تحریک لبیک کے محمد شفیق، متحدہ مجلس عمل کے محمد ضیاء الرحمٰن امازئی اور آزاد امیدوار خواجہ محمدشہزاد بیگ شامل ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے امیدوار چونکہ دونوں ہزارہ وال ہیں اس لئے ان کی برادری کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جس کا فائدہ یقیناً شکیل اعوان کو پہنچے گا۔ مقابلہ سخت ہو یا نرم نتیجہ کس کے حق میں ہوگا یہ طے کرنے میں مزید چند روز لگیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر شیخ رشید کو ناکامی ملی تو اس کے دونوں بازو پی پی 16 اور پی پی 17 دونوں ہی ناکامی ساتھ دیں گے اور کامیابی نصیب ہوئی تو وہ دونوں بھی خوشی کےہارپہنیں گے۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 63 ٹیکسلا راولپنڈی VII ماضی میں بھی سیاسی جنگ وجدل میں نمایاں رہا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے 33 برس تعلق رکھنے اور نواز شریف کابینہ کے سینئر منسٹر کی حیثیت سے کارہائے انجام دینے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی رکن چوہدری نثار علی خان نے 1985 میں اس حلقے سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ غلام سرور خان پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ کرتے رہے پھر ق لیگ میں چلے گئے اور وہاں سے پی ٹی آئی میں چلے گئے ایک دوسرے کو شکست دینے کا سلسلہ اس وقت جاری رکھنے کا امکان ہے جب تک دونوں خاندان سیاست میں موجود ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں چوہدری نثار علی خان اس وقت کے این اے 53 اور اس سے ملحقہ پنجاب اسمبلی کے حلقے سے غلام سرور خان اور اس کے بھائی محمد صدیق کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگئے تاہم انہوں نے این اے 52 موجودہ 59 سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ غلام سرور خان کے بھائی محمد صدیق خان کے انتقال کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کے امیدوار نے مرحوم صدیق خان کے بیٹے کو شکست دے دی۔ این اے 63 چوہدری نثار علی خان کیلئے کتنی اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آزاد حیثیت سے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کے باوجود گزشتہ 14 دنوں سے اس حلقے میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر انہوں نے ایک آزاد امیدوار کو ساتھ ملایا ہے جبکہ دوسرے حلقے میں سابق رکن پنجاب اسمبلی عمر فاروق چوہدری نثار علی خان کے ساتھ دے رہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے پہلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ نے اس حلقے سے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا تھا مگر دوسرے مرحلے میں این اے 63 سے ممتاز خان کو امیدوار نامزد کر دیا گیا، دیگر امیدواروں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید عشرت علی زیدی، تحریک انصاف کے غلام سرور خان، متحدہ مجلس عمل کے محمد وقاص خان، تحریک لبیک کے محمد اعجاز احمد کے علاوہ چوہدری نثار علی خان، طلحہ محمود اور محمد سرور آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ جیپ کے نشان پر منتخب ہونے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے اور انہیں اہم عہدوں پر رکھے جانے کا امکان ہے بشرطیکہ وہ انتخابات میں کامیاب ہو گئے سیاسی حلقے اس پر بھی بضد ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کسی نہ کسی حلقے سے ضرور کامیاب ہو جائیں گے اور کسی بڑے ٹارگٹ تک پہنچیں گے۔ این اے 63 سے منسلک پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 19 سے مجموعی طور پر 9 امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں ن لیگ ذیشان صدیق بٹ، پیپلز پارٹی کے راجہ ساجد عمر متحدہ مجلس عمل کے سفیر عالم، پاکستان تحریک انصاف کے عمار صدیق خان، تحریک لبیک فرحان علی کے علاوہ ملک عمر فاروق، محمد سرور، سید حیدر علی شاہ اور راجہ محمد بلال آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلے میں شریک ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بظاہر تو پی ٹی آئی کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے تاہم کسی کی بھی کامیابی خارج ازامکان قرار نہیں دی جاسکتی۔ این اے 63 سے منسلک پنجاب اسمبلی کے دوسرے حلقے پی پی 20 سے 12 امیدوار میدان میں اترے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے راجہ محمد سرفراز اصغر، پیپلز پارٹی کے عمر اقبال، تحریک انصاف ملک تیمور مسعود، امن ترقیاتی پارٹی احسن عبداللہ ملک، پاکستان سنی تحریک طارق محمود، تحریک لبیک محمد اسلم خان، متحدہ مجلس عمل محمد وقاص خان کے علاوہ فیصل اقبال، ندیم غفور، محمد سرور، بشیر محمود اور محمد حسن شاہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ فیصل اقبال نے جیپ کا نشان حاصل کیا ہے الیکشن لڑنے والے تمام امیدوار پُرامید ہیں تاہم سیاسی حلقے پی ٹی آئی کی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے64 چکوال میں پاکستان مسلم لیگ(ن)نے میجر(ر) طاہر اقبال کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے سابق رکن قومی اسمبلی غلام عباس کے پی ٹی آئی میں جانے کے بعد ن لیگ سے منحرف ہونے والے سردار ذوالفقار علی کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے جبار احمد چلہ کو ٹکٹ دیا ہے۔ دیگر امیدواروں میں پاکستان ملی عوامی پارٹی کے آج محمد تحریک لبیک کے سید تصدق منظور، متحدہ مجلس عمل کے سید عمران حسین بخاری، پی ٹی آئی نظریاتی کے محمد ابرارحسین،عباس، اللہ اکبر تحریک کے عبدالنثار، پاکستان تحریک انسانیت کے محمدطفیل کے علاوہ نعیم اصغر ملک، سردار غلام عباس اور سردار آفتاب اکبر خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہےہیں۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ میں کامیابی کے لئے جوڑ توڑ جاری ہے۔ دونوں جماعتیں پر امید ہیں۔ سردار غلام عباس کے عدالتی حکم کے نتیجہ میں انتخابات سے آئوٹ ہونے سے سیاسی جوڑ توڑ رکا ہوا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 21چکوال ون سے 8امیدوار میدان میں اترے ہیں پاکستان مسلم لیگ(ن) نے سلطان حیدر علی خان کو نامزد کیا ہے پی ٹی آئی نے یاسر ہمایوں کو مقابلے میں اتارا ہے۔ مجموعی طور پرآٹھ امیدوار موجود ہیں جن میں راجہ عثمان ہارون اور وقار علی آزاد حیثیت میں میدان میں اترے ہیں تحریک لبیک نے سید تصدق منظور، تحریک لبیک اسلام نے محمد امین، اللہ اکبرتحریک نے محمد ایوب کو نامزد کیا ہے۔ سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ دائیں بازو کے کئی امیدوار کھڑے ہونے سے کسی امیدوار کونقصان اورکسی کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ این اے 64سے منسلک پنجاب اسمبلی کے حلقہ22سے بھی9امیدوار میدان میں اترے ہیں جیپ کے انتخابی نشان سمیت تین آزاد امیدوار مطلوب عالم، چوہدری زین العابدین اور سلطان محمد خالد منیرایوبی کے علاوہ ن لیگ کے تنویر اسلم ملک، پیپلزپارٹی کے راجہ محمد رضوان، پی ٹی آئی کے طارق محمودافضل اللہ اکبر تحریک اسلام کے مشتاق شعیب، تحریک لبیک کے عبدالرحمن اور تحریک لبیک پاکستان کے حسین محمود شاہ میں مقابلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں اور لوڈشیڈنگ میں بڑی حد تک کمی پر ووٹ ملنے کی امید ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی انتخابی مہم کے اثرات بھی موجود ہیں مگر نوازشریف کی گرفتاری کے لئے وطن واپس آنے سے ووٹرمضبوط ہوا ہے۔،این اے65چکوال ٹوسے چوہدری پرویز الٰہی کو مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنےآئے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی نے ق لیگ کے سامنے امیدوار نامزد نہیں کیا مگر ان کا مقابلہ کرنے کے لئےدیگر8امیدوار سامنے آگئے ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے ہاشم خان، ن لیگ کے محمد فیض ملک، تحریک لبیک کے محمد یعقوب، پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کے محمد عامر، متحدہ مجلس عمل کے محمد حمیداللہ کے علاوہ سردار منصور حیات ٹمن، محمد جہانگیر ملک اور ملازم حسین آزاد امیدواروں کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ اس حلقے میں بظاہر چوہدری پرویز الٰہی کی برتری نظر آرہی ہے تاہم ن لیگ کے امیدوار کے ساتھ ساتھ جیپ کے نشان والے آزاد امیدوار سردار منصور حیات ٹمن کو بھی ووٹ ملنے کی امید ہے۔ این اے65سے منسلک صوبائی حلقے پی پی 23سے10امیدوار میدان میں اترے ہیں جن میں سے نوید اختر، نثار قاسم، جہانگیر ملک اور اخترحسین آزاد امیدوار ہیں۔ ن لیگ نے مشتاق احمد، پی پی پی نے عمران عباس، تحریک لبیک نے تنویر حسین، پاکستان تحریک انصاف نے سردار آفتاب اکبر خان، نیشنل پارٹی نے غلام حیدر اور پاکستان سنی تحریک نے وقارالحسن کونامزد کیا ہے۔ اس حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار سردار غلام عباس کا بھتیجا بتایاجاتاہے اس حلقے میں پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی مقابلے پر ہونگےجبکہ دیگر امیدوار ان کی کامیابی اور ناکامی میں معاون بنیں گے۔ این اے 65کے دوسرے صوبائی حلقے پی پی 24میں سات امیدواروں کے مابین مقابلہ ہو گا پی ٹی آئی نے اس حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا پاکستان مسلم لیگ کے عمار یاسر امیدوار ہونگے، ن لیگ نے شہریار ملک، پیپلزپارٹی نے ہاشم خان، متحدہ مجلس عمل نے محمدحمیداللہ، تحریک انسانیت پاکستان نے عبدالغفور کو نامزد کیاہے فیصل شاہ اور ملک آفتاب احمد آزاد امیدواروں کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں۔ اس حلقے میں بھی مقابلہ ق لیگ اور ن لیگ کے درمیان بتایا جاتاہے۔ پیپلزپارٹی والے بھی پرامید ہیں جوڑ توڑ والی جماعتیں الیکشن کو کنٹرول کرنے میں معاونت کررہی ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے66سے مسلم لیگ(ن) کے چوہدری ندیم خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے تسلیم ناصر گجرسابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین مرحوم کے صاحبزادے فرخ الطاف کو پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ دیگر9امیدواروں میں تحریک لبیک کے خالد تنویر بھی شامل ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے66میں سیاسی صف بندی پچھلے الیکشن کی طرح سے ہی ہے تمام ہارےہوئے گروپ جیتنے ہوئے گروپ کے خلاف ہوگئے ہیں پی پی 25سے ن لیگ نے مہرمحمد فیاض، پی ٹی آئی نے راجہ یاور کمال خان، پی پی پی نے مرزاعبدالغفار، ایم ایم اے نے ڈاکٹر قاسم محمد اور تحریک لبیک نے سید عرفان امیر شاہ کو نامزد کیا ہے۔ مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہو گا۔ سیاسی حلقوں کادعویٰ ہے کہ شایدسیاسی تاریخ ایک بار پھر دہرائے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 67سے راجہ مطلوب مہدی کو ن لیگ نے نامزد کیا ہے ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے چوہدری فواد حسین سمیت11امیدوارکھڑے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے کمانڈر(ر) فیاض اشرف، تحریک لبیک کے سید نعمان شاہ اور اللہ اکبر تحریک کے عدیل شامل ہیںجہلم ماضی میں مسلم لیگ(ن) کا گڑھ رہا ہے2013کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت گئی تھی سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ جہلم میں صورتحال یہ بن چکی ہے کہ جوپارٹی بھی جیتے گی کلین سویپ کرے گی۔ پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 26جہلم ٹو سے ن لیگ کے چوہدری لال حسین، پی ٹی آئی نے عنصراقبال، پیپلزپارٹی نے چوہدری کاشف اسلام ، ایم ایم اے نے راجہ ضیاء اشرف، ملی مسلم لیگ نے راجہ سکندر اور تحریک لبیک نے ملک شوکت حیات کو نامزد کیا ہے۔ پی پی 28جہلم تھری سے ن لیگ کے ناصر محمود کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات چوہدری فواد حسین خود امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سید آصف حیدر، ایم ایم کے سید سلیم شاہ اور تحریک لبیک نے محمد فاروق کو نامزد کیا ہے پی ٹی آئی کے حامیوں کاکہنا ہے کہ چوہدری فواد حسین کی کامیابی کی صورت میں وہ بڑے عہدے کی ڈیمانڈ کریں گے پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوئی تو وہ وزیراعلیٰ کا عہدہ ہی مانگ لیں گےسیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چوہدری فواد حسین نے پی ٹی آئی کے ترجمان بننے کا حق ادا کر دیا ہے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت استعمال کرتے ہیں۔

تازہ ترین