• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے انتخابات . . . نئی اُمیدیں

میزبان: خلیل الرحمٰن

ریذیڈنٹ ایڈیٹر، روزنامہ جنگ، کوئٹہ

رپورٹ: حماد اللہ سیا پاد

باقی دنیامیں بھی فرقے ،زبانیں اور قومیں موجود ہیں مگر وہاں ملکی نسبت اورقومی وحدت سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے ہمارے ہاں قومی وحدت نام کی کوئی شے نہیں اس کا حل یہ ہے کہ اسمبلیوں میں باکردار ، امین، دیانتدار اور اسلامی نظریہ سے عملاً وفادار لوگوں کو جانا چاہئے

قاری انوار الحق حقانی

نئے انتخابات . . . نئی اُمیدیں

پولنگ کے بعد نتائج کو تبدیل کیا جاتا ہے اس چیز کا مشاہدہ گذشتہ انتخابات میں ہوتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کی نظر میں الیکشن کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے ،کوئی بھی حکومت مضبوط حکومت نہیں کہلائی جاسکتی

مولانا عبدالحق ہاشمی

ملک میں ایک متفقہ نظام تعلیم نہیں بن سکا حالانکہ تعلیم سے ذہنیت اور فکر بنتی ہے جب تعلیم متضاد ہو تو فکری ہم آہنگی ممکن نہیں ہوتی جب تک فکری تضاد رہے گا مسائل کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے آتے رہیں گے آئندہ حکومت جب تک نصاب تعلیم کی اصلاح نہیں کرے گی تبدیلی ممکن نہیں ایک تعلیم دینی ہوگی تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں

نئے انتخابات . . . نئی اُمیدیں

آغا اکبر حسین

جب تک ایک مضبوط حکومت قائم نہیں ہوتی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے ،ان مسائل پر قابو پانا بھی ممکن نہیں ہوگا یہ تب ممکن ہے جب ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے، ہمارے حکمران ہیں تو مسلمان مگر ہمارے ملک میں جو نظام ہے اس کی بنیادی انتہائی کمزور ہیں کیونکہ یہاں نظام اسلامی نہیں ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعلی اچکزئی

عوام کو سوچنا چاہئے کہ جو لوگ منتخب ہو کر لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترتے ہوں انہیں اگلے الیکشن میں موقع نہیں ملنا چاہئے ہمارے ملک میں عدل کا نظام آج تک نہیں لایا جا سکا اسی لئے مسائل حل نہ ہو سکے

نئے انتخابات . . . نئی اُمیدیں

مولانا ذکریا ذاکر

2013میں قومی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کر ہی لی اور آئین کے مطابق اگلے پانچ سال کیلئے حکومت کی تشکیل کیلئے انتخابات کا نہ صرف اعلان کر دیا گیا ہے بلکہ انتخابی عمل تقریباً آخری مراحل میں ہے 25جولائی 2018کو ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے پولنگ ہوگی اور قوم اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے نئی قیادت کا چنائو عمل میں لائےگی گزشتہ حکومت کے دور میں قوم نے کیا کھویا کیا پایا گزشتہ حکومت نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرنے میں کتنی کامیابیاں حاصل کیں اپنے اہداف میں کونسا ہدف حاصل کیا وہ کونسے بڑے مسائل تھے جنہیں حکومت نے حل کیا اور وہ کون سے معاملات ہیں جو گزشتہ دور حکومت میں بھی نہیں نمٹائے جا سکے اگلی حکومت کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہئے اور اہداف کے حصول کیلئے حکمت عملی کے خد و خال کیسے ہونے چاہئیں اس حوالے سے انتخابات اور سیاسی استحکام کے موضوع پر روزنامہ جنگ کوئٹہ نے جنگ فورم منعقد کیا جس میں ممتاز علما اور دینی اسکالرز سے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی گئی اس اعتبار سے جنگ فورم کے مہمانوں نے جو اظہار خیال کیا وہ نذر قارئین ہیں ۔

قاری انوار الحق حقانی

صوبائی خطیب و ممبر مرکزی رویت ہلال کمیٹی

دنیا میں حکومت کے تین مروجہ نظام ہیں شہنشاہیت( آمریت) بادشاہ وقت یا فوجی ڈکٹیٹر کے پاس اختیار ہوتا ہے ان کے منہ سے نکلنے والی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی ہے تاہم اسلام میں اس ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں دوسرا طریقہ خلافت کا ہے یہ مسلمانوں کا نظام حکومت ہے حضور اقدس ﷺ کے بعد امت میں خلافت کا نظام رائج ہوا جس کا بہترین دور خلفا راشدین کا دور تھا تیسرا نظام موجودہ جمہوریت کا ہے دنیا میں جمہوریت کی مختلف صورتیں ہیں جس میں ایک یورپی جمہوریت ہے جس سے یورپی معاشرے اور ممالک کو بڑا فائدہ ہوا ہے انہوں نے ترقی بھی کی ہے جہاں کرپشن کی شرح بہت کم ہے اور عموماً حکومتیں اپنا وقت بھی پورا کرتی ہیں پاکستان چونکہ ایک جمہوری ملک ہے مگر بد قسمتی سے یہاں 71سال میں نصف عرصہ فوجی آمریت رہی آدھے دور میں جو جمہوریت کے نام پر حکومتیں بنیں انہوں نے بھی خدمت کا حق ادا نہیں کیا دونوں ادوار کے حکمرانوں نے بینک بیلنس بنایا اقتدار کو طول دیا اپنی جماعتوں کو نوازا قوم کے بنیادی مسائل سے روح گردانی کی تقسیم دولت ، عدل و انصاف اور امن وامان کے حوالے سے کوئی قابل رشک صورت نہیں دی حالانکہ یہ ملک قدرتی وسائل اور اسباب سے مالا مال ہے ہر طبقے میں قابل ترین لوگ موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہم71سال میں بھی ملک کو خوشحال نہ بنا سکے آج بھی لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت کے مسائل موجود ہیں ہم ایک قوم نہ بن سکے حالانکہ باقی دنیامیں بھی فرقے ،زبانیں اور قومیں موجود ہیں مگر وہاں ملکی نسبت اورقومی وحدت سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے ہمارے ہاں قومی وحدت نام کی کوئی شے نہیں اس کا حل یہ ہے کہ اسمبلیوں میں باکردار ، امین، دیانتدار اور اسلامی نظریہ سے عملاً وفادار لوگوں کو جانا چاہئے اور سیاسی جماعتیں جو منشور پیش کریں اس پرعمل بھی کریں ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ 75 کے الیکشن کے بعد سیاست نے تجارت کی شکل اختیار کر لی انتخابات کے دوران کروڑوں خرچ کرو اور منتخب ہونے کے بعد اربوں کمائو کی پالیسیاں اپنائی گئیں جو لوگ اسمبلیوںمیں پہنچنے سے پہلے معاشی طور پر تباہ حال ہوا کرتے ہیں اسمبلیوں میں جانے کے بعد وہ ارب پتی بن جاتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے ہر شعبے میں بد عنوانی سرائیت کر گئی ہے ملازمتیں اسی بنیاد پر ملتی ہیں اس رجحان کو عملاً ختم کرنا ہوگا ملک میں جو سیاستدان ، جرنیل، جج اور بیوروکریٹس ہیں ان پر پابندی لگائی جائے کہ وہ اثاثہ جات نہ بنائیں بینک بیلنس نہ بڑھائیں ملکی دولت دیار غیر میں منتقل نہ کریں اپنے لوگوں کو معاشی مشکلات سے بچائیں 2013سے 2018تک کچھ اچھے کام بھی ہوئے بنیادی مسئلہ امن وامان کا ہے یہاں مذہبی نفریں لسانیت کی بنیاد پر قتل و غارتگری اور بم دھماکے ہوا کرتے تھے ان واقعات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور ایک حد تک بہتری آئی ہے ظاہر بات ہے یہ کریڈٹ گذشتہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کو جاتا ہے علاوہ ازیں سی پیک کے عظیم منصوبے پر عملاً کام شروع ہوا آج اس کے تحت پورے ملک میں سڑکیں بن رہی ہیںکیونکہ مرکزی کردار گوادراور بلوچستان کا ہے یہاں پر بھی کام ہو رہا ہے البتہ بلوچستان کو اس کی اہمیت اور رقبے کے اعتبار سے حصہ نہیں ملا گوادر میں پینے کاپانی تک نہیں یہاں کے مقامی لوگوں کے جو جائز تحفظات ہیں ان پر توجہ نہیں دی گئی اور دوسری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں حکومتوں کو کام کرنے بھی نہیں دیا گیا اب اس کا فائدہ انہیں مظلوم ہونے کی شکل میں مل رہا ہے 2018کے بعد میں کوئی بری تبدیلی محسوس نہیں کر رہا ہوں جس قسم کے حالات ہیں ان سے لگتا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں کمزور ترین حکومتیں قائم ہوں گی خلائی مخلوق کا زیادہ کردار ہوگا حکومتیں ان کے رحم و کرم پر چلیں گی میں سمجھتا ہوں عسکری ، سیاسی قیادت اورعدلیہ کواپنے دائرہ کار میں رہنا چاہئے سب قابل احترام ہیں یہ سب ملکی ادارے اور ملکی ضرورت ہیں ہر ایک اپنا کام کرے دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کریں سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں عزت نفس کا لحاذ رکھیں ہم سب اسی ملک کے فرزند ہیں اورسب اس ملک کے نفع نقصان کے ذمہ دار ہیں ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ بیرونی قرضوں کا ہے کوئی بھی ملک ضرورت کے تحت قرضے لیتا ہے مگر قرض لیکر پھر انہیں کام میں لگایا جانا چاہئے تاکہ قرضہ بھی ادا ہو منافع بھی ملے مگر ہمارے حکمرانوں نے جو قرضے لئے اور اس پر خوشی منائی حالانکہ یہ پسماندگی کی دلیل ہے خوشی کی بات نہیں مقروض قوم کہلوانا کونسی خوشی کی بات ہے پھر غضب یہ کہ جو قرضے لئے گئے وہ ملکی ترقی پر خرچ بھی نہیں ہوئے یوں قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہا اور ہم ادائیگی سے قاصر ہوئے آج ملک میں غربت بیروزگاری اور معاشی دلالی کا سبب یہی ہے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا ملک معدنی وسائل سے مالا مال ہے وسیع ساحل ،بڑے پیمانے پر جنگلات ، سیاحتی مقامات ، دریا، زرخیز زمینیں، کارخنے اور صنعتیں ہیں حیوانات کی شکل میں سازگار ماحول ہے اگر ہم ان وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال کریں اور ہر شعبے سے متعلق لوگوں مراعات دیں کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کریں بجلی بنانے کیلئے ڈیم بنائیں کوئلہ کے ذخائر سے توانائی حاصل کریں تو ہم بیرونی قرضوں کے محتاج نہیں ہونگے در آمدات سے زیادہ بر آمدات پر توجہ دی جائے تاکہ زر مبادلہ کے ذخائر ملیں بیرون ملک پاکستانی کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں محنت مزدور ی کرتے ہیں ان کی قدر کی جائے ان کیلئے ملک میں سرمایہ کاری کے باعزت اور محفوظ مواقع فراہم کئے جائیں کرپشن کی روک تھام کی جائے تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے منصوبوں کی تعمیر میں معیار کا لحاظ رکھاجائے ہمارے ہاں کرپشن اور کمیشن کا نتیجہ ہے کہ پختہ تعمیر کی جانے والی سڑکیں چند ماہ بھی نہیں چلتیں پوری دنیا میں سڑکیں تیس سے چالیس سال تک خراب نہیں ہوتیں ہمارے ہاں ایک ہی بارش سے سڑکیں صاف ہو جاتی ہیں سرکاری تعمیرات مثلاً سکول ، ہسپتال اور دیگر ادارون کی عمارتیں ناقص میٹریل سے تعمیر کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ بارش کے چند قطرے گرتے ہی ان عمارتوں کی چھتیں ٹپکتی رہتی ہیں یا پھر ان میں دھاڑیںپڑ جاتی ہیں ان پر جو اربوں روپیے خرچ ہوتے ہیں یو وہ پیسہ ضائع ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا لہذا کرپشن اور بد عنوانی کی روک تھام کیلئے احتساب کا مربوط و مضبوط نظام ہونا چاہئے جو ماہانہ بنیادوں پر یا کم از کم سالانہ بنیادوں پر کڑا احتساب کیا جائے ارباب اختیار پر ایک خوف مسلط ہو کہ اگر ہم نے حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا تو قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے ہمارے ہاں احتساب کا نظام انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ ریل خسارے میں جا رہی ہے جہاز خسارے میں جا رہا ہے گیس اور بجلی کے ادارے فائدہ نہیں دے رہے اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے منتخب نمائندوں کو چاہئے کہ وہ انتخابات کے بعد بھی اپنی عوام سے قریبی تعلق قائم رکھیں ووٹ لیکر غائب نہ ہوں کہ لوگوں کو اشتہار دینا پڑے کہ ہمارا نمائندہ لا پتہ ہے ہر نمائندے کو زیادہ تر وقت اپنے حلقے میں ہونا چاہئے اور عوامی فنڈز انہیں عوام تک پہنچانے چاہئیں ۔

نئے انتخابات . . . نئی اُمیدیں

مولانا عبدالحق ہاشمی

امیر جماعت اسلامی بلوچستان

ہمارے ملک میں انتخابات کا جو مروجہ نظام ہے ہمارے پاس اس کا متبادل چونکہ موجود نہیں لہذا اس ا عتبار سے کسی بحث کی ضرورت بھی نہیں الیکشن کے نتیجے میں ہم شہریوں کی رائے معلوم کر سکیں گے تاہم ہمارے ہاں الیکشن کے نظام میں بہت سے نقائص اور کمزوریاں موجود ہیں الیکشن کبھی ایسے نہیں ہوئے کہ عوام ان پر اعتماد کر سکیں ان کی صحیح نمائندگی ہوئی بلکہ ان کی حقیقی رائے سامنے نہیں آتی لوگوں کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ پولنگ اسٹیشن ووٹ ڈالنے کیلئے جاتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کا ووٹ کاسٹ ہو چکا ہے دوسری جانب طاقت ور لوگ چونکہ انتخابات میں موجود ہوتے ہیں اس لئے وہ غریب لوگوں کو دھکے دیکر پولنگ اسٹیشنوںسے باہر نکالتے ہیں انتخابی نظام کی کمزوری کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پولنگ کے بعد جو نتائج ہوتے ہیں انہیں بعد میں تبدیل کیا جاتا ہے اس چیز کا مشاہدہ گذشتہ انتخابات میں ہوتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کی نظر میں الیکشن کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے اگر عوام الیکشن میں شریک نہ ہوں تو کوئی بھی حکومت مضبوط حکومت نہیں کہلائی جا سکتی انتخابات کے حوالے سے ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت آتی ہے وہ اکثریت کی نہیں بلکہ اقلیت کی نمائندہ ہوتی ہے مثلاً کسی حلقے میں اگر پچاس ہزار ووٹ ہیں اور وہاں سے اگر پانچ امیدوار الیکشن میں حصہ لیتے ہیںایک امیدوار بارہ ہزار ووٹ لے اور باقی امیدوار مجموعی طور پر 38ہزار ووٹ لیں مگر بارہ ہزار والا کامیاب کہلاتا ہے اور 38ہزارشہریوں کا اس کو اعتماد حاصل نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود وہ اپنے حلقے کا نمائندہ کہلاتا ہے حالانکہ وہ اپنے حلقے کا نہیں بلکہ صرف بارہ ہزار لوگوں کا نمائندہ ہے جو اقلیت ہے اکثریت نے اسے نمائندگی کا حق نہیں دیا الیکشن کے نظام میں اصلاحات کے نام پر حال ہی میں جو کام ہوا اس میں اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی حالانکہ یہ قابل توجہ امر ہے ہمارے ہاں حکومتیں بنتی ہیں مگر انتہائی کمزور ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر جو طرز عمل اختیار کیا گیا اس کے نتیجے میں بڑے بڑے جاگیردار مسلم لیگ کی تحریک میں شامل ہو گئے انہیں معلوم تھا کہ پاکستان بن جائے گا اور جاگیر میں اضافے کی کوئی حد نہیںیہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جی ڈی پی محدود لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ماضی میں بائیس خاندان مشہور تھے مگر اب دو سو خاندان ہیں مجموعی ملکی دولت اور سرمایہ انہی کے ہاتھوں میں ہے عام لوگوں کو پانی، غذا اور دیگر سہولیات میسر نہیں یہ لوگ آزادانہ رائے بھی نہیں دے سکتے الیکشنوںمیں ووٹ جاگیردار حاصل کرتے ہیں غریب عوام کی حالت غلاموں سے بھی بد تر ہوتی ہے اس پر غور کیا جانا چاہئے تاکہ کروڑوںشہریوں کی رائے چند جاگیرداروں کی قید سے آزاد ہو سکے ہمارے ہاں ایک خرابی یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے قومی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا حالانکہ قوموں کی تربیت میں بنیادی کردار تعلیم کا ہوتا ہے کیونکہ جو بچہ بیس سال کی عمر تک پہنچتا ہے اسے اپنی قومی اور دینی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے مگر افسوس کے ہمارے نظام تعلیم میں اختلاف ہے ایک طبقہ دوسرے طبقے کو قبول نہیںکرتا معاشرے میں شعور کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں مسائل ہی مسائل ہیں ترکی میںکرپشن کی شرح ایک وقت60فیصد تھی مگر انہوں نے شعور اجاگر کیا سزائیں نافذ کیں یہ شرح 13فیصد تک آئی جس میں مزید کمی ہو رہی ہے اس کافائدہ یہ ہوا کہ آج ان کے پاس فنڈز سرپلس ہیں تاہم ہمارے ہاں 2013سے 2018تک تھوڑا بہت شعور ضرور آیا ہے سیاسی جماعتوں نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے پہلے تو لوگ کرپشن کو روایت سمجھتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے یہ بات بھی ضروری ہے کہ حکمران اگر اچھا نمونہ پیش کریں گے تو اس کا اثر بہت تیزی سے عوام پر پڑتا ہے اور اتنا زیادہ اثر پڑتا ہے کہ اتنی جلدی اور اتنا زیادہ اثر تعلیم کے ذریعے بھی نہیں پڑتا ایک اہم مسئلہ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا بھی ہے حالانکہ سیاسی استحکام کسی بھی ریاست کی ترقی و خوشحالی اور سالمیت کا ضامن ہوتا ہے جس ریاست کے نظام کو چلانے کیلئے جتنا وقت ہوتا ہے اسے وہ وقت ملے تو پھر جاکر اس کا احتساب کیا جا سکتا ہے مگر یہاں حکومتوں کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی 58-2Bکے ذریعے حکومتوں کو برطرف کیا گیا اس آئینی نقطہ کا جس طرح غلط استعمال کیا گیا یہ داغ ہماری قومی سیاست کی تاریخ میں موجود ہے اس سے زیادہ بد نما داغ چھڑی کے ذریعے حکومتوں کو برخاست کئے جانے کا ہے حالانکہ ہمارے ملک کے آئین کاآرٹیکل 6کہتا ہے کہ جو شخص چاہے جس بھی ادارے سے تعلق رکھتا ہو وہ آئین کو توڑے تو اسے سزا ملنی چاہئے مگر یہاں جنرل ایوب خان سے پرویز مشرف تک سب نے آئین کو توڑا مگر سزا کسی کو نہیں ہوئی بلکہ ہیلے بہانوں کے ذریعے ایسے لوگوںکو بچایا گیا اور باہر بھیجا گیا یہاں نواز شریف کا احتساب کیا گیا اور کہا گیا کہ ان کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لایاجائیگا مگر ایک فوجی آمر جو آئین توڑ کر باہر چلا گیا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا رہا ہے جزا و سزا کا جو نظام ہے اس کا یکساں نفاذ ضروری ہے ورنہ گناہ کی جرات پیدا ہوتی ہے یہاںکرپشن کے حوالے سے بھی امتیازی روئیہ روا رکھا گیا بہت سارے لوگ ہیں جو کرپشن میں ملوث ہیں مگر ان کے کیسز کو نہیں کھولا جا رہا اور سارا زور پاناما پر صرف کیا گیا اوراس میں بھی ایک ہی بندے کو ہدف بنایا گیا ۔

آغا اکبر حسین زاہدی

دینی اسکالر

ایک مضبوط ریاست کے دو اہم راض ہوتے ہیں ایک اس کی حدود اربعہ کی حفاظت اور سرزمین کے باشندوںکے مفادات کا تحفظ اسی مقصد کیلئے ادارے بنائے جاتے ہیں فوج اور پولیس کے ادارے سرزمین کا دفاع کرتے ہیں اور پارلیمنٹ اور عدلیہ عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں ہم نے یہ سر زمین ایک خاص نظریہ کے تحت حاصل کی اس کا ایک خاص پس منظر ہے اگر ہم اس مقصد کو لیکر آگے چلتے تو مشکلات کو کافی حد تک کم کر سکتے تھے آج مشکلات کا پہاڑ کھڑا ہے بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک طبقہ نے کہا لا الہ الا اللہ دوسرے نے یہ مقصد نہیں سمجھا جس کی وجہ سے ایک تضاد پیدا ہوا وہ تضاد گہرا ہوتا چلا گیا نتیجے میں سماج میں مشکلات پیش آئیں اس تضاد نے ہمارے نظام تعلیم کو بھی متاثر کیا یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک متفقہ نظام تعلیم نہیں بن سکا حالانکہ تعلیم سے ذہنیت اور فکر بنتی ہے جب تعلیم متضاد ہو تو فکری ہم آہنگی ممکن نہیں ہوتی جب تک فکری تضاد رہے گا مسائل کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے آتے رہیں گے آئندہ حکومت جب تک نصاب تعلیم کی اصلاح نہیں کریگی تبدیلی ممکن نہیں ایک تعلیم دینی ہوگی تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں ورنہ مشکلات کا سامنا نہیںکر سکیں گے پاکستان کے اطراف میں مختلف نظام ہائے حکومت ہیں ہمارے پڑوس میں بھارت، چین ، افغانستان اور ایران ہیں ہر ملک کا اپنا ایک نظام ہے اس حوالے سے ہمارا بھی ایک نظام ہے مگر ہمارے نظام میں کمزوریاں ہیں ایران ، چین اور بھارت ایک خاص نہج پر اپنی قوم کی تربیت کر رہے ہیں مگر ہمارے ہاں کوئی معیار نہیں ہے اس لئے ہم مشکلات کی جڑیں کاٹنے کے قابل نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ایک متحد قوم نہیں بن سکے گو کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں مذہب کو نظام حکومت بنانے کی کوشش کی گئی مگر آگے جا کر اس سے مسائل پیدا ہوئے فائدہ کے بجائے نقصان ہوا اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک خاص فکر کیلئے حاصل کیا گیا مگر عالمی طاقتوں نے مداخلت کی ایسے لوگوںکو حکومت دلوائی جو قیام پاکستان کے مقاصد میں رکاوٹ بنے دیندار لوگوں اور علما کو اقتدار سے دور رکھا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری قومی تربیت ممکن نہ ہو سکی اب ہم پریشان ہیں کہ ہم بیس کروڑ کے ہجوم کو ایک باوقار قوم کیسے بنائیں 2002کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ہوئی اور ان انتخابات میں ایم ایم اے نے ایک صوبے میں حکومت بھی بنائی اس کے نمائندے کرپشن کے داغ سے پاک تھے اور انہوں نے ایک قابل تقلید اور بہترین نظام حکومت دیا قوم کی خدمت کی اس کامطلب یہ ہے کہ علما اور دیندارطبقہ ہی اس ملک کیلئے فائدہ مند ہے جنہوں نے اپنے کردار اور عمل کے ذریعے اس کا ثبوت دیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے 2002کی خیبر پختونخوا کی حکومت ایک آئیڈیل حکومت تھی ہمارے ہاں سیاستدانوں کیخلاف منی لانڈرنگ کے جو کیس سامنے آئے اس میں بھی ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے علما اور عوامی نمائندوں کا نام نہیں ان کے دامن صاف ہیں میں سمجھتا ہوں 2018کے الیکشن اگر صاف شفاف ہوں اور ان میں گڑ بڑ نہ ہو تو اچھی حکومت بن سکتی ہے مقتدر اداروں کو چاہئے کہ وہ اختیارات کے غلط استعمال سے گریز کریں 70سال میں ہم نے جس طرح کے الیکشن کے ذریعے لوگوں کو اقتدار میں لایا 19کروڑ عوام خود کو نفع و نقصان میں شریک نہیں سمجھتے بلکہ ایک کروڑ جو جاگیردار ہیں وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں حالانکہ اس ملک کے مالک وہ نہیں بلکہ انیس کروڑ عوام بھی ہیں میں سمجھتا ہوں جو شخص اپنے بچوں کو باہر پڑھاتا ہو یا عوام سے ووٹ لیکر منتخب ہو جانے کے بعد کام نہ کرے یا ملک سے پیسہ کما کر باہر لے جائے اسے کوئی حق نہیں کہ وہ انتخابات میںحصہ لے ان پر پابندی لگائی جانی چاہئے اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ایک بات ضروری سمجھتا ہوں کہ گذشتہ حکومت نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا اس منصوبے کا تعلق ملکی مفادات سے ہے ایک اہم پروگرام ہے اس سے ملکی معیشت کی بہتری ضروری ہے یہ ملک چونکہ چار صوبوں پر مشتمل ہے مگر یہاں کے سیاسی رہنما بالغ النظر نہیں ورنہ سی پیک کے حوالے سے یہاں جو تحفظات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں شاید یہ سامنے نہ آتے ماضی میں ہمارے صوبے سے تعلق رکھنے والے جو سیاستدان تھے وہ قومی سطح کی سیاست کرتے تھے مگر ان کے بعد آنے والے سیاستدان اپنی اہمیت کھو رہے ہیں کیونکہ ان کی سیاست محدود ہو کر رہ گئ ہے سی پیک ملک مفاد کیلئے ناگزیر ہے اس کے بغیر ہمیں مشکلات پیش آئیں گی مگر افسوس کے ہم اسے متنازعہ بنا رہے ہیںیہاںچاروں صوبے اپنا اپنا رونا روتے ہیں ہر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرا اس کیلئے قربانی دے ہم اگر دوسرے صوبے کیلئے قربانی دیں تو کیا ہمیں کوئی متبادل مل سکتا ہے یہ سیاسی قیادت کیلئے ایک امتحان ہے لہذا سی پیک کے فوائد کو مساویانہ طور پر تقسیم کیا جانا چاہئے جو منصوبہ جس علاقے کا ہے سب سے پہلے فائدہ بھی اسی علاقے کو ملنا چاہئے بلوچستان پہلے ہی پیچیدگی کا شکار ہے لہذا دشمن کو مزید موقع نہ دیاجائے یہاں رقبے کے لحاظ سے بلوچستان بڑا اور آبادی کم ہے اگر دوسرے صوبے ہمارے تحفظات کودور کریں تو دشمن کو بلوچستان میں حالات خراب کرنے کا موقع نہیں ملے گا اگر وفاق بخل سے کام لیگا اور دوسرے صوبے ہمیں محروم رکھیں گے تو یہ دشمن کے ساتھ تعاون والی بات ہوگی ۔

پروفیسرڈاکٹر عبدالعلی اچکزئی

ڈین اسلامک اسٹڈیز ‘جامعہ بلوچستان

ہمارے ملک میں اس وقت الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں 2013میں جو الیکشن ہوئے اس کے نتیجے میں جو حکومت تشکیل پائی اس نے جیسے تیسے اپنے پانچ سال پورے کئے اس دوران ملک کو جہاں بیشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہاں بعض مسائل کو حل بھی کر لیا گیا بنیادی بات یہ ہے کہ 2013کے الیکشن ہوں یا اس سے پہلے کے ظاہر بات ہے جب تک ایک مضبوط حکومت قائم نہیں ہوتی مسائل تو پیدا ہوتے رہیں گے اور پھر ان مسائل پر قابو پانا بھی ممکن نہیں ہوگا یہ تب ممکن ہے کہ جب ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے ہماری ریاست چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے لہذا میں سمجھتا ہوں یہاں نظام کو اسلامی ہونا چاہئے گو کہ ہمارے حکمران ہیں تو مسلمان مگر ہمارے ملک میں جو نظام ہے اس کی بنیادی انتہائی کمزور ہیں کیونکہ یہاں نظام اسلامی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں مسائل پیدا ہوتے رہے اور پھر بڑھتے رہے ہر ریاست کا نظام چلانے کیلئے بنیادی طور پر تین ادارےاہم ہوتے ہیں جن میں مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہوتے ہیں یہاں ہم مقننہ یعنی پارلیمنٹ کو فوکس کرتے ہیں جس میں عوام کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے قانون سازی کریں اور وقتاً فوقتاً پہلے سے موجود قوانین کو دور جدید کے تقاضوں سےہم آہنگ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں مگر ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی اور ایسے معاملات میں الجھی رہتی ہے جو اس کے بنیادی مقاصد میں شامل نہیں ہوتے ہمارے ہاں ووٹ کی پرچی کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔یہاں جو مقتدر قوتیں ہیں اختیارات سب انہی کے پاس ہیں حالانکہ یہ مسائل کا حل نہیں لہذا میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ کو اپنی زمہ داریاں نبھانی چاہئیں اور انتخابات کو شفاف ہونا چاہئے تاکہ صالح اور نیک لوگ اقتدار میں آکر لوگوں کے مسائل حل کر سکیں حکمران ذمہ دار ہیں کہ قوانین بنائیں جن میں عوام کا مفاد ہو صالح معاشرہ قائم ہو سکے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اہل افراد کا انتخاب کریں ان کی دیانت کو دیکھنا چاہئے یہ تو ہمارے ہاتھ میں ہے باقی وہ لوگ پارلیمنٹ میں جا کر کام کرتے ہیں یا نہیں کرتے وہ بعد کی بات ہے ۔

مولانا ذکریا ذاکر

ترجمان مرکزی جمعیت اہلحدیث بلوچستان

ہمارے ملک میں الیکشن ، سیاست اورحکمرانوں کا کردار ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے اس ملک میں مختلف ادوار میں مختلف طرز کی حکومتیں رہیں مختلف جماعتیں برسراقتدار مختلف پالیسیاں بنیں مگر یہ قوم اس وقت جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہے اور پھر 2018کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ سابقہ حکومت کی کیا کار کر دگی رہی اور آنے والی حکومت سے کیا توقعات ہیں میں سمجھتا ہوں ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا ملک اسلام کی بنیاد پر بنا قیام پاکستان کے وقت سب کا ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ بڑی مشکلات کے بعد ہم نے یہ ملک حاصل کیا اسلا م ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق محفوظ ہیں اور چونکہ ووٹ ایک قومی ضرورت ہے اور ایک اسلامی معاشرے کا بنیادی مقصد عدل کا نظام قائم کرنا ہے اس میں کوئی جانبداری نہ ہو عدل عام ہو آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اس حوالے سے ایک مکمل نمونہ ہے لہذا ہمارے ملک کے اہل اقتدار کو چاہئے کہ بحیثیت مسلمان ملک میں عدل کا نظام لائیں عوام کو سوچنا چاہئے کہ جو لوگ منتخب ہو کر لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترتے ہوں انہیں اگلے الیکشن میں موقع نہیں ملنا چاہئے ہمارے ملک میں عدل کا نظام آج تک نہیں لایا جا سکا اسی لئے مسائل حل نہ ہو سکے حالانکہ عوامی مسائل کا حل اور لوگوں کی توقعات کے مطابق نظام حکومت چلانا منتخب لوگوں کی ذمہ داری ہے انہیں ملک کے مسائل کو حل کرنا چاہئے میں سمجھتا ہوں کہ 2018کے الیکشن کے موقع پر اسلامی اقدار کی حامل جماعتوں کا اتحاد خوش آئند ہے ایم ایم اے کی تشکیل ایک اہم پیشرفت ہے توقع ہے کہ یہ جماعتیں اقتدار میں آکر مسائل کے حل کے حوالے سے کردار ادا کریں گی ماضی میں بھی انہوں نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا اور اس کے نمائندے بدنامی میں ملوث نہیں ہیں ہم ان سے فلاحی ریاست کے قیام کی توقع کر سکتے ہیں 2013کے الیکشن کے بعد تشکیل پائی جانے والی حکومت کے دور میں امن کے حوالے سے کام ضرور ہوا اور کافی بہتری آئی اس کا اعتراف کرتے ہیں تاہم غربت میں کمی اور دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی کام ہونا چاہئے جو لوگ عوام کی توقعات پر پورے نہ اتر سکیں ان کا حال ہمارے سامنے ہے لہذا منتخب نمائندوںکو وعدے پورے کرنے چاہئیں۔

تازہ ترین