• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا راجہ اکبر داد خان
فیصلے عدالتوں کے ہوں یا عوام کے، معاشرے کے ہر فرد کیلئے ضروری ہے کہ انہیں تسلیم کیا جائے چاہے ایسا کرنے کیلئے دل پر پتھر ہی کیوں نہ رکھنا پڑے کیونکہ کسی مختلف صورت میں معاشرہ منظم انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لاقانونیت اور ابہام کی صورتوں میں مل جل کر رہنے کی ضروریات حالات کی مرہون منت ہوجاتی ہیں اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنتے ہوئے ریاستی بقا قائم رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ معاشرت نام ہی مل جل کر ایک مخصوص ماحول میں زندہ رہنے کا ہے اور ہر معاشرت کو قائم رکھنے کیلئے انسانوں اور دیگر کو اصول طے کرنے پڑتے ہیں کہ اس نظام کو کس طرح چلایا جائے گا۔ غیر انسانی معاشرت میں بھی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے کیونکہ نظام کو محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک آئینی دستاویز میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست پاکستان کا نظام کن اصولوں کے تحت چلے گا، بحث کیلئے اگر یہ مان لیا جائے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کی روایت حالیہ عمران خان رویہ سے پیدا ہوئی ہے تو یہ صریحاً غلط ہے کیونکہ ناانصافیوں کے خلاف ریاست سے پی پی کی شکایتوں کی تفصیل زیادہ پرانی اور گہری ہے۔ ان کے احتجاج اپنی جگہ مگر جماعت ہر موقع پر عدالتوں سے عدل کی توقعات لئے آگے بڑھتی رہی، لوگوں نے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے ثبوت دیئے کہ جس طرح کا بھی نظام عدل ہے جہاں اس کی بہتری کیلئے کوشاں رہیں گے وہاں فیصلوں کو قبول کرتے ہیں۔ اس طرح ایک سیاسی طبقہ میں موجود نظام عدل کو تسلیم کرنے کی ایک صحت مند روایت پیدا ہوئی۔ قوم کے ایک بڑے حصہ کی موجودہ یہ روش کہ جو فیصلے ان کے خلاف آئیں گے وہ انہیں تسلیم نہیں کریں گے، ایک تشویش ناک رویہ ہے جس سے نظام معاشرت کو شدید نقصان پہنچ رہے ہیں جو طبقات اپنی دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر اپنے ہی ترتیب دیئے گئے معاشرتی ڈھانچہ (آئین) کو روندتے ہوئے آج الیکشن کمیشن، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر قانون اور عدل نافذ کرنے والوں پر الزامات لگا رہے ہیں اور ایسے رویوں سے جس طرح ریاست کے بعض حصے مجروح ہو رہے ہیں اس ماحول نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ مانا کہ ملک میں عبوری نظام حکومت ہے، مگر انتظامی معاملات میں اس نظام کو بھی وہی اختیارات حاصل ہیں جو کسی نمائندہ حکومت کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ انتخابات کے اردگرد لوگوں کو دہشت گردوں اور جماعتی مخالفین سے محفوظ کرنا یقیناً حکومت اور سیکورٹی اداروں کی اولین ترجیح ہے مگر حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے ہماری کمزوریوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رہتے دنوں میں ملک کو زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف سیاسی طور پر بہت کچھ کھو چکے ہیں، ان کا اپنی بیٹی کے ہمراہ واپس جانا یقیناً سوچ و بچار کے بعد فیصلہ ہے، ان کی لاہور آمد پر جماعتی قیادت نے مثالی بزدلی کا مظاہرہ کیا، نہ لاہور جام ہوسکا اور نہ ہی ان کی جماعت ان کیلئے دوسرے شہروں میں احتجاج کیلئے لوگ اکٹھا کرسکی، ن لیگ احتجاجی جماعت نہیں ہے اور اگر کچھ شک ہے تو وہ 14جولائی کو دور ہوگئے۔ اس احتجاج کے پیچھے نہ تو واضح مقاصد تھے اور نہ ہی جماعتی اتحاد اور انہی وجوہات کی بنا پر یہ ناکام ہوا۔ یہاں برطانیہ اور یورپ میں بیٹھ کر یہ خاندان اپنے لئے زیادہ موثر قانونی اور سیاسی مہم چلا سکتا تھا اور دنیا کے طاقتور لوگوں کے ساتھ اپنے مراسم کو ریلیف حاصل کرنے میں زیادہ موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ دونوں باپ بیٹی کا اس الیکشن میں کردار محدود ہو گیا ہے۔ جماعت کے اندر پھیلی ہر طرف مایوسی ان کی جماعت کی جیت کیلئے اچھا شگون نہیں۔ ایک باپ کی بیٹی کیلئے اس سے بڑی قربانی کی مثالیں بہت کم ہیں۔ میاں نواز شریف کی میدان سے عدم موجودگی جماعت کیلئے بڑا نقصان ہے کیا یہ نقصان کم کیا جا سکتا تھا؟ بہتوں کا خیال ہے کہ ایسا ممکن تھا، انتخابی نتائج قبول کرتے ہوئے میاں نواز شریف پاکستان کے اندر استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ان کا سیاسی قد و کاٹھ تقاضا بھی کرتا ہے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات کہ انہیں انتخابات کے نتائج پر تحفظات ہیں اور وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے نہ تو منطقی ہیں اور نہ ہی اس رویہ سے ریاستی نظام پر ان کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے، جو افسوسناک ہے۔ پچھلی ن لیگی حکومت اور پی پی آپوزیشن دونوں نے مل کر آزادانہ انتخابات کے انتظامات ترتیب دیئے۔ تحریک انصاف تو کسی حساب میں نہ تھی۔ اگر کوئی جماعت اپنے احتجاج کو عمران خان کے 2014 کے احتجاج کو جواز بناتی ہے تو یہ رائے ان چند وجوہات کی بنا پر اس دلیل کو رد کردے گی کہ بیشتر عوام اور ذرائع ابلاغ اس بات کے گواہ ہیں کہ مئی 2013کے انتخابات سے قبل انہوں نے کبھی یہ نہ کہا کہ وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی انہوں نے الیکشن پراسس سے جڑے اداروں پر قبل از وقت الزامات لگائے۔ سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے بھی انتخابات میں کسی حد تک دھاندلی کو تسلیم کیا، اس کے بعد جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں یقیناً تینوں بڑی پارٹیاں معقول سیٹیں لے جائیں گی۔ علاقائی جماعتیں بھی اس وقت تک انتخابی ماحول کا حصہ ہیں، ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ انتخابات مزید جانی اور مالی نقصانات کے بغیر ہوجائیں۔ ن لیگی قیادت ان سلامتی اور معاشی چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہے جو پاکستان کو درپیش ہیں کیونکہ انہیں حکومت چھوڑے دو ماہ ہی ہوئے ہیں۔۔ قائدانہ رول تقاضا کرتے ہیں کہ اہم مواقع پر تمام فیصلے ملکی اور عوامی مفاد اصولوں کے تابع ہونے چاہئیں جو جماعتیں حکومت نہ بنا سکیں انہیں اس Chargedانتخابی راؤنڈ کے نتائج تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے فیصلے جمہوری بھی ہوں گے اور ملکی مفاد میں بھی اور ہم سب کو عزیز بھی ہوں گے۔ انتخابی نتائج پر اپنے اختلافات لیگل فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے حل کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بالآخر تحریک انصاف کو بھی یہی کچھ کرنا پڑا۔ ن والوں کیلئے انتخابی نتائج تسلیم کرلینے ہی میں بہتری ہے، ان کے پاس کنفرنٹیشن کا آپشن نہیں ہے۔ جماعتی قیادتیں اپنے سے جڑے لوگوں کے رویئے خود اپنے رویوں سے ترتیب دیتی ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ دس سال سے جمہوری راہ پر چلتا ہمارا ملک انتخابی مراحل سے پرامن انداز میں گزرتے ہوئے ایک مضبوط حکومت ڈلیور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا اور تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں نتائج تسلیم کرتے ہوئے جمہوری کردار ادا کرتی رہیں گی۔ پاکستان میں انتخابات ذریعہ معاش بھی ہیں اس لئے عملاً مکمل طور پر قانون ساز ادارہ اعلیٰ کردار لوگوں سے نہیں بھرا جا سکتا۔ البتہ انتخابی نتائج تسلیم کرلینے اور جمہوریت کامیاب کرنے کے رویوں سے قوم ایک ذمہ دار مائنڈ کی عکاس بن جائے گی جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین