• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں اور آئین پاکستان کی روح سے قریب تر محسوس ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز کے زیر التوا ریفرنسوں کی سماعت اب جیل کی چاردیواری کے بجائے کھلی عدالت میں ہوگی۔ اڈیالہ جیل میں سماعت کا فیصلہ جمعہ 13جولائی کو کیا گیا جس پر شریف فیملی اور بعض قانونی حلقوں کی جانب سے تحفظات سامنے آئے تھے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں18 جولائی کو سابقہ نوٹیفکیشن واپس لینے اور وزارت قانون کی تیار کردہ نئی سمری منظور کرنے کا جو فیصلہ سامنے آیا، اس سے اعتراضات و تحفظات دور کرنے کا تاثر نمایاں ہوا ہے۔ بدھ کے روز نگراں وزیر اعظم جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پچھلے ہفتے حکومت نے اڈیالہ جیل میں زیر التوا ریفرنس کی سماعت کے بارے میں جو فیصلہ کیا وہ صرف ایک دن کے لئے تھا اور قومی احتساب بیورو کی درخواست پر کیا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہناتھا کہ قومی احتساب بیورو نیب ایکٹ کی دفعہ 16کے تحت حکومت سے سماعت کا مقام تبدیل کرنے کی درخواست کرنے کا مجاز ہے اور سماعت شروع ہونے کے بعد بھی اگر سکیوریٹی خدشات ہوئے تو ٹرائل کورٹ کی طرف سے صورتحال کے مطابق جگہ کی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کے مذکورہ فیصلے کے بعد وہ قضیہ ایک حل کی طرف جاتا محسوس ہو رہا ہےجس کی سماعت احتساب عدالت کی طرف سے 30جولائی تک ملتوی کی گئی ہے۔ بدھ کے روز شریف فیملی کے وکیل نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو استدعا کی کہ چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹلز اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت میں منتقل کرنے کے بارے میں ان کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے اس لئے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ جس جج نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا اعلان کیا وہی جج زیر التوا دیگرریفرنسز کی سماعت کرے۔ اس ضمن میں فاضل جج کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کو لکھے گئے خط میں مذکورہ ریفرنسز دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب تک ہائیکورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا، وہ کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اب جبکہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات (جن کے پاس قانون کا قلمدان بھی ہے) کے مطابق سابق وزیر اعظم کے مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے تو نہ صرف سکیورٹی سمیت تمام متعلقہ امور پر خدشات دور کرنے کی زیادہ موثر تدابیر برئوے کار لائی جانی چاہئیں جبکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ میاں نواز شریف، ان کی صاحب زادی اور داماد کو وہ تمام بنیادی سہولتیں مہیا کی جائیں جن کی ضرورت کی نشاندہی ان افراد کی گرفتاری کے بعد سے کی جا رہی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سہالہ ریسٹ ہائوس میں، جسے پہلے سے سب جیل قرار دیا جا چکا ہے، مذکورہ شخصیات کی منتقلی کی تیاریاں کی جا چکی ہیں۔ اس انتظام کو سکیورٹی کے حوالے سے عمومی طور پر بہتر سمجھا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کا آئینی اور قانونی حق ہے کہ انہیں اپنے وکلا سے ملاقات اور مشاورت کی سہولت دی جائے۔حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے اس باب میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا یہ حق ہےاور ذمہ داری بھی ،کہ وہ اپنے دفاع کے معاملات پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے عدالت کے سامنے ٹھوس شہادتیں ، دلائل اور دستاویزات لائیں۔ ملکی تاریخ کے اس اہم مقدمہ کے دوررس اثرات قومی سیاست ہی نہیں، تمام امور پر مرتب ہو رہے ہیں اور بہت سے معاملات تعطل کا شکار ہیں۔ طویل عرصے سے تذبذب میں مبتلا قوم کو اس سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق سب کے لئے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے۔

تازہ ترین