• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں 35، 40سال پہلے والے پاکستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تومجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس وقت زندگی کتنی آسان تھی۔ مہنگائی نہیںتھی، بیروزگاری کا یہ عالم نہیں تھا، سرکاری تعلیمی اداروں میں بہترین تعلیم دی جارہی تھی، حکومتی سرپرستی میں سرکاری اسپتال لوگوںکو صحت کی سہولتیںدے رہے تھے، ڈاک کا محکمہ بھی کامیابی سے چل رہا تھا، جی ٹی ایس کی بسیں سڑکوں پر دوڑ رہی تھیں، موسم سرما میں بھی پانی راوی میںبہتا تھا بلکہ چھوٹے ندی نالے ایک، ڈیک، پلکو، بئیں اور بسنتر سب بھرے رہتے تھے۔ میرے دیس کا کسان خوش تھا، اس وقت فیصل آباد میں ملیں بند نہیں ہوئی تھیں۔ امن و امان کا یہ عالم تھا کہ لوگ گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے تھے، گلیوں میں سو جاتے تھے مگر اب بدامنی ہے، بے سکونی ہے، بیروزگاری ہے، مہنگائی ہے، دریائوں میں پانی نہیں، چھوٹے ندی نالے پیاسے ہیں، تعلیمی ادارےبربادیوں کا رونا رو رہے ہیں، سرکاری اسپتالوں کا حال مچھلی منڈی جیساہے۔پتا نہیں جی ٹی ایس کی بسیں اڈوں سمیت کون پی گیا؟ محکمہ ڈاک اب خسارے میں ہے، مقروض ہے۔ میرے پیارے دیس کا کسان بدحال ہوچکا ہے، فیصل آباد میں ملیں بند پڑی ہیں، لوگ ملوں کی جگہ پلازے بنارہے ہیں جیسے لوگوں نے سینمائوں کی جگہوں پر پلازے بنائے تھے، 35، 40برس پہلے ایک شخص کماتا تھا اور دس کھاتے تھے مگر اب دس کماتے ہیں اور ایک کو کھلانا مشکل ہوچکا ہے۔ اس وقت ڈالر 8، 10روپے کا تھا مگر آج ترقی کرتے کرتے 130کا ہو گیا ہے۔ تب ملک مقروض نہیں تھا اور اب قرضوں کےبوجھ نے چلنا مشکل کردیا ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو تاریخ کا آئینہ دکھا رہا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں مگر ہمارے جھوٹ بولنے والے رہنما گلے پھاڑ پھاڑکر اپنے کارنامے گنواتے ہیں۔ جھوٹ بولتے وقت انہیں کوئی شرم نہیںآتی۔ ماضی میں حکومتوں میں شامل رہنے والی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اگر آپ نے اتنے ہی کارنامے انجام دیئے ہیں تو پھر ملک پیچھے کیسے چلا گیا؟مہنگائی کیسے ہوگئی؟ ادارے کیسے برباد ہوگئے؟ ڈالر کیسے مہنگا ہو گیا؟ کسان اور مزدور کیسے بدحال ہوگئے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کسی بھی جھوٹ بولنے والے کے پاس نہیں ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ آپ لوگ میرے پیارے ملک پر برس ہا برس حکومت کرتے رہے، آپ نے کیا کیا؟ کیوں لوگ بدحال ہوگئے اور آپ کیسے خوشحال ہوگئے؟ حالات کا ثمر تو برابری کی بنیاد پر ملنا چاہئے تھا۔ یہ کیسے حالات تھے کہ ملک کے 98فیصد لوگوں کو بدحالی دے گئے اور صرف 2فیصد کو خوشحالی عطا کرگئے۔ اس کا مطلب ہے کہیں نہ کہیں ظلم ہو رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے مساوات نہیں تھی۔ اس کا مطلب ہے حکمران جھوٹ بولتے رہے، ظلم کرتے رہے، لوگوں کو فریب دیتے رہے، ووٹ سے مذا ق کرتے رہے۔ لوگوں کی اپنے ملک میں جائیدادیں کم ہوگئیں جبکہ حکمران طبقے کی جائیدادیں اپنے ملک میں بھی بڑھ گئیں اور بیرون ملک بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ یہی وہ ظالمانہ سوچ ہے جس نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا۔
میرے ان سوالوںکا جواب نہ ملے تو اپنے بڑے شہروں کے حالات دیکھ لیجئے۔ دیہات تو حکمرانوں کی نظر میں اہم نہیں تھے۔ آج بھی کراچی کوڑے کا ڈھیر بناہوا ہے۔ آج بھی گوجرانوالہ، ملتان اور سرگودھا کے کئی محلوں کی عام گلیوںمیں سے گزرنا محال ہے۔ لاہور کے حالات آپ نے دو ہفتے پہلے دیکھ لئے تھے، کس طرح کشتیاں چل رہی تھیں، کس طرح مال روڈ پر گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ آج بھی لاہور کےکئی محلوں میں اُبلتے ہوئے گٹر نظر آئیں گے۔ تین رو ز پہلے عمران خان نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے سوہان میں گندے پانی کے مناظر کا نظارہ کیا تھا۔ یہ سب کچھ برسوں کی حکمرانی کا ثمر ہے۔
چار دہائیاں پہلے بربادیوں کا جو سفر شروع ہوا تھا، اس کے ہر سال میں کئی داستانیں ہیں۔ ہر داستان کا اپنا رنگ ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 1988-89 میں وزیراعلیٰ پنجاب پر 35ارب روپے کی خوردبرد کے الزامات ہیں۔ کوآپریٹو سوسائٹیز اسکینڈل میں 17ارب کے الزامات ہیں۔ بینکوں سے 675 ارب کے غیرقانونی قرضے جاری کئےگئے۔ سستی روٹی اسکیم میں بھی 40ارب کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ لاہور تا کراچی موٹروے میں 14ارب کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ آشیانہ اسکیم میں اربوں کی خوردبرد کے الزامات ہیں۔ میٹرو بس اسکیم میں 30ارب کی ہیراپھیری بیان کی جاتی ہے۔ 1998میں جاپان کی طرف سے تعلیم اور صحت کے لئے دیئے گئے 250ملین ڈالرز پراسرارطور پر غائب ہوگئے تھے جس کا انکشاف جاپان کی طرف سے رپورٹ مانگنے پر ہوا۔ ملتان میٹرو کا قصہ چینی کمپنی بیان کرچکی ہے۔ یہاں تو جب حکمرانوں نے گاڑیاں منگوانا ہوتی تھیں، ڈیوٹیاں کم کردی جاتی تھیں۔
آپ کا ملک کیسے لٹا؟ یہ سمجھنے کے لئے صرف دو چار بندوںکا حساب دیکھ لیجئے۔ مشتاق رئیسانی 84ارب، شرجیل انعام میمن 426ارب، ڈاکٹر عاصم 480ارب اور اپنے پیارے احد چیمہ 1850ارب۔ یہ صرف چار آدمیوں کی بات ہے کرپشن 2840ارب روپے ہے اگر ان سے حساب مانگو تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
قرضوںکی بات بھی ہو جائے۔ پاکستان نے پہلے باون سال یعنی 1947سے 1999تک 34ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ مشرف کے 9سالہ دور میں 4ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ زرداری کے پانچ سالہ عہد میں 18ارب ڈالر لیا گیا جبکہ اپنے پیارے میاں صاحب کے دور اقتدارمیں 38ارب ڈالر قرضہ لیا گیا۔ ابھی یہ سفر جاری تھاکہ بیچ میں نااہلی آگئی۔
یہ ہے وہ کارکردگی، جو برس ہا برس حکمرانی کرنے والوں کی ہے۔ آج کل یہ لوگ آپ کے سامنے پھر تقریریں کررہے ہیں اور مجھے طاہرہ سراء کا پنجابی شعر یاد آ رہا ہے کہ؎
او کہندا اے پیار تے جنگ وِچ جیز اے سب
میں کہنی آں، ہیرا پھیری نئیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین