• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پانی کے ذخائر کی تعمیر حسبِ موقع اور عملی ضرورت کے مطابق ہے۔ انسانی بقا اور پاکستانی معیشت کے لئے اِن تعمیرات کا کوئی نعم البدل نہیں۔… زندگی کا حق، بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کے ذخائر صرف معیار بلند کرنے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کا تانا بانا اِنہی کے دم سے قائم ہے۔ اِسی بناء پر آئین کے آرٹیکل 184(3)کو آرٹیکل 9کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ حکومت کو بنیادی حقوق کی پاس داری کے لئے ضروری ہدایات جاری کر سکے۔‘‘
یہ الفاظ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کا جواز ہیں جو جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے 4 جولائی 2018ء کو صادر فرمایا۔ یوں کالا باغ ڈیم منصوبے پر قومی ریفرنڈم کروانے کی استدعا سے شروع ہونے والا سماعتوں کا سلسلہ، چند ہفتوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ مجھے اِس بات پر خوشی ہے کہ کراچی رجسٹری میں پہلی سماعت کی ابتدا میری معروضات سے ہوئی۔ پاکستان کو درپیش آبی مسائل کے حوالے سے میرے مؤقف کو سُنا گیا اور حتمی فیصلے کے دن بھی اظہارِ خیال کی دعوت ملی۔ فیصلے کے مطابق عدالت نے دو ڈیم ’’دیامیر بھاشا‘‘ اور ’’مہمند‘‘ کی فوری تعمیر کا حکم دیا۔ اِن دونوں منصوبوں کے بارے میں کوئی اختلافِ رائے نہیں۔ ’’دیامیر بھاشا ڈیم‘‘ گلگت بلتستان میں تعمیر ہو گا اور دریائے سندھ کا 6.3ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکے گا۔ اِس کے علاوہ چار ہزار پانچ سو میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہو سکے گی۔ ’’مہمند ڈیم‘‘ دریائے سوات کا چھ لاکھ اسی ہزار ایکڑ فٹ پانی اپنے اندر سمو سکے گا اور آٹھ سو میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہو سکے گی۔
سپریم کورٹ نے اِن دونوں منصوبوں کی تعمیر کے لئے نہ صرف حکومت کو ہدایات جاری کیں بلکہ آبی مسائل کے حل کے لئے عوام سے عملی تعاون کی درخواست بھی کی۔ اِس مقصد کے لئے فنڈ قائم ہوا اور ایک مخصوص اکائونٹ کھولا گیا۔ فیصلے پر عمل درآمد، چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل کی سربراہی میں ایک کمیٹی کرے گی۔ مالی تعاون کی ابتدا چیف جسٹس نے ذاتی حیثیت میں کی۔ ایوانِ انصاف کی طرف سے بھرپور مالی امداد کا مظاہرہ ہوا۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو افواجِ پاکستان کے سربراہان کی فوری حمایت اور تائید نصیب ہوئی۔ بری، بحری اور فضائی افواج کے افسران نے دو دن اور جوانوں نے ایک دن کی تنخواہ کا عطیہ دیا۔ واپڈا کے افسران اور اہلکاروں نے بھی اسی شرح سے حصہ ڈالا۔ ابھی یہ شروعات ہیں۔ وقت کے ساتھ دوسرے ادارے بھی مالی معاونت کے لئے کمربستہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے آبی مسائل کو حل کرنے میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قومی جذبات کا ترجمان بنا۔ یہ اِس بات کا عملی مظاہرہ ہے کہ فوج اور عدلیہ جیسے مقتدر ادارے، باہمی تعاون سے عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کا فرض ادا کر رہے ہیں۔
فیصلے کی اثر انگیزی دیکھئے کہ ابھی دو ہفتے نہیں گزرے کہ ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات، اِس فیصلے کی تعریف و توصیف کے علاوہ عوام سے دل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔ اِس کارِخیر میں حصہ لینے کے لئے پاکستان کے مالیاتی ادارے اور بینک، اپنے اکائونٹ ہولڈرز کو موبائل فون پر مالی تعاون کا برقی پیغام بھجواتے ہیں۔ بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانی بھی پُرجوش ہیں۔ اُن کی طرف سے دلچسپ پیغامات موصول ہوئے۔ ایک تخمینے میں ’’دیامیر بھاشا ڈیم‘‘ کی لاگت کو، مدت تکمیل کے دس سال پر تقسیم کرتے ہوئے اندازہ لگایا گیا کہ پاکستان کو نوے ارب روپے سالانہ کی ضرورت ہو گی۔ اگر پاکستان میں بسنے والے پچاس فیصد لوگ صرف پانچ سو روپے سالانہ اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہر سال صرف ایک سو ڈالر عطیہ کریں توڈیم کی تعمیر انہی وسائل سے ممکن ہو جائے گی۔ تارکین وطن کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اِس تحریک میں متحرک ہونے پر پاکستانی قوم اُن کے جذبے کی قدر کرتی ہے۔
لوگوں کو 1965ء کی جنگ اور اُس سے وابستہ، عوامی جذبے کی یاد دہانی بھی ہوئی۔ ایوب خان حکومت نے دفاعی فنڈ میں عوامی عطیات کی اپیل کرتے ہوئے نعرہ دیا تھا، ’’دو ٹیڈی پیسوں کے عوض دو نئے ٹینک‘‘۔ مجھ جیسے عمر رسیدہ لوگوں کو یاد ہے کہ بچے، جوان، عورت، مرد، سب نے دل کھول کر دفاعی فنڈ میں حصہ ڈالا تھا۔ آبی مسائل کے حل کے لئے آج اُسی جذبے کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستانی قوم عوامی فلاحی منصوبوں میں حصہ لینے اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اُنہیں صرف ایک بات کی فکر ہوتی ہے کہ اُن کی دی ہوئی امداد اُسی مقصد کے لئے استعمال ہو جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عبدالستار ایدھی جیسے درویش صفت شخص نے عوام کا اعتماد حاصل کر لیا تو رقم کی کمی نہ رہی۔ اِسی خیال کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان، جناب ثاقب نثار نے بار بار اِس امر کا اعادہ کیا کہ عطیات سے اکٹھی ہونے والی رقم اُن کی زیرِ نگرانی رہے گی اور وہ خود اِس کی پہرے داری کریں گے۔ اُن کا یہی عزم، عوام کو اعتماد دے رہا ہے۔
فیصلے کے مطابق، دونوں ڈیموں کی تعمیر کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے واپڈا کے چیئرمین، جنرل (ر) مزمل کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم ہوئی۔ گزشتہ جمعرات مورخہ 12 جولائی کو اِس کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا اور دُوسرا اجلاس جمعہ 20 جولائی کو ہو گا۔ انتظامی معاملات طے کرنے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان میں ’’دیامیر بھاشا ڈیم‘‘ کے لئے حصول اراضی اور لوگوں کو دوسری جگہ بسانے کا عمل گزشتہ آٹھ نو سال سے جاری ہے۔ اِسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جنرل(ر) مزمل سے بہتر شخص نہیں مل سکتا۔ وہ اِس علاقے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈر رہے اور مقامی زبان بھی جانتے ہیں۔ علاقے کی عوامی نفسیات اور قبائل کے باہمی تحفظات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اِسی طرح ’’مہمند ڈیم‘‘ قبائلی علاقے میں واقع ہے۔ یہاں بھی حصول اراضی کا مشکل مرحلہ، جنرل(ر) مزمل اِس علاقے میں تعینات متعلقہ اداروں کے تعاون سے طے کر سکیں گے۔
’’دیامیر بھاشا‘‘ اور ’’مہمند‘‘ ڈیم، دونوں منصوبے طویل مدت میں مکمل ہوں گے۔ کالا باغ ڈیم پر اختلاف رائے نے اِن منصوبوں کو ایک مدت تک روکے رکھا۔ پانی کے ذخائر پاکستان کی اشد ضرورت ہیں۔ دُنیا کے دوسرے ممالک اوسطاً، اپنے دریائی پانی کا چالیس فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کی استعداد صرف دس فیصد ہے۔ طویل مدتی منصوبوں کی تکمیل میں بہت سی انتظامی اور تکنیکی دُشواریاں حائل ہوتی ہیں۔ اُنہیں دُور کرنا ہو گا اور پھر اِن منصوبوں کی لاگت بھی اِس قدر زیادہ ہے کہ عوامی عطیات کے علاوہ، حکومت ِ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ضرورت پڑے گی۔ پانی و بجلی کی وزارت اور واپڈا میں تعیناتی کے دوران عملی دُشواریوں سے نپٹنا پڑا۔ جو تجربات حاصل ہوئے، اُن کی بنا پر مجھے یہ شعر یاد آ رہا ہے۔
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجئے
اِک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین