• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت سر آنکھوں پر، کثرت رائے کے آگے سر تسلیم خم۔ مگر اس میں بھی بڑے دھوکے ہیں۔ تاریخ میں ایک بار نہیں، بار بار ہوا ہوگا کہ عوام کی رائے غلط نکلی یا کثرت رائے کے مطالبوں کو حاکم وقت نے ٹھوکروں میں اڑا دیا۔اس کی تازہ مثالیں ہماری آپ کی زندگی میں بھی ملتی ہیں۔ جب امریکیوں نے جارج بش کو دوسری بار صدر منتخب کیا تو مجھے یاد ہے، برطانیہ کے ایک اخبار نے امریکی عوام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرخی لگائی: تیس کروڑ احمق۔ جب بش اور ٹونی بلیئر مل کر حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کرنے والے تھے اور عراق پر چڑھائی کرنے کے لئے پر تول رہے تھے تو لندن کی سڑکوں پر آٹھ لاکھ شہریوں نے اس جنگ کے خلاف بہت ہی بڑا تاریخی مظاہرہ کیا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا۔ وزیراعظم ٹونی بلیئر نے شاید کھڑکی سے جھانکنے کی زحمت بھی نہیں کی اور یہ دو جمہوریت کے مارے ہوئے سیاسی رہنما صدام حسین پر چڑھ دوڑے جس کی سزا دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ لندن کی سڑکوں نے ایک اور بڑا احتجاجی مظاہرہ ابھی حال ہی میں دیکھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانوی عوام کی رضا مندی کے بغیر برطانیہ کے دورے پر آگئے۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا نعرہ تھا کہ آپ اپنی یہ صورت کہیں اور لے جائیں اور یہ مظاہرہ بس یوں ہی نہیں تھا۔ عوام نے اپنی اس منافرت کے دس بارہ اسباب بھی بتائے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جو الٹے سیدھے فیصلے کئے تھے، مثال کے طور پر غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچنے والے تارکین وطن سے سزا کے طور پر ان کے بچّے ماں باپ سے لے کر الگ بند کردیئے، اس پر ایک امریکہ ہی کیا، دنیا بھر کے باشعور لوگ برہم تھے۔ اسی طرح تارکین وطن کے خلاف جو پابندیاں لگائی گئیں، عوام نے انہیں یکسر نامنظور کردیا۔ مگر پھر کیا ہوا، ٹرمپ نے عوام کے نعرے ایک کان سے سنے، دوسرے سے اڑا دئیے۔ امریکہ والوں نے اس بار جو صدر چنا ہے، جس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے، اس نے تو صدارت کے نام کو بٹّا لگادیا ہے اور ایسی ایسی حرکتیں کی ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی مگر ٹھہرئیے۔ مثال ملتی ہے۔ امریکہ کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ملک میں پہلے بھی ایک ایسا صدر منتخب ہوا تھا جس کا کہنا تھا کہ یہ پناہ گیر اور بہتر زندگی کے متلاشی غول در غول چلے آرہے ہیں، انہیں روکا جائے۔ وہ بھی بالکل یہی بات کہتا تھا کہ ان غیر ملکیوں کے آنے سے امریکہ میں جرائم بڑھیں گے، لوگوں کی اجرتیں گریں گی اور قوم تباہ ہوجائے گی۔ اسے بھی ہر طرف سازشیں نظر آتی تھیں اور اس نے بھی اپنی بیٹی کو ایوان صدر کا ایک کلیدی عہدہ دے دیا تھا۔ یہ ساری باتیں آج کی نہیں، سنہ اٹھارہ سو پچاس کی ہیں۔ اُس وقت مسئلہ مسلمان اور وسطی امریکہ کے تارکین وطن کا نہیں، جرمنوں اور آئرلینڈ کے کیتھولک مسیحی باشندوں کا تھا۔ اُس امریکی صدر کا نام مِلرڈ فِلمور تھا۔ آج یہ نام کسی کو یاد تک نہیں۔ اس کا نام کبھی کبھی لطیفے کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ یہی حشر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہوا تو کسی کو تعجب نہ ہوگا۔ بلکہ ان کے نام کی یہ درگت ان کے انتخاب ہی کے وقت سے بننے لگی تھی جب امریکہ میں ایک کارٹون چھپا جس میں مشہور کارٹونی بطخ ڈونلڈ ڈک کو دکھایا گیا جو ایک وکیل کے پاس پہنچ کر کہہ رہی ہے کہ میرے نام کا پہلا حصّہ منسوخ کیا جائے۔ ٹرمپ نے تو کمال کیا، صدر بنتے ہی اعلانات شروع کردئیے۔ زمین کو فضا کو بچانے کا پیرس کا عالمی معاہدہ فضول ہے، آدھے درجن ملکوں کے مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند،میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کی جائے اور اس کے اخراجات میکسیکو سے وصول کئے جائیں، ایران کا ایٹم بم نہ بنانے کا معاہدہ بکواس ہے، فلسطینیوںکہ بکنے دو، امریکہ اپنا سفارت خانہ یروشلم ہی میں کھولے گا، صدر اوباما نے جتنے اقدامات کئے تھے ان سب کا بوریا لپیٹا جائے اور تازہ ترین یہ کہ امریکی انٹیلی جنس چاہے جو کہے، روسی صدر پیوٹن کہتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں روسیوں نے کوئی خفیہ ہیرا پھیری نہیں کی تھی۔ اب امریکی انٹیلی جنس ہی نہیں، پوری امریکی قوم اپنے نصیب کو رو رہی ہے۔
کثرت رائے کا تازہ ترین تماشا آج کل برطانیہ اور یورپ میں جاری ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھا تھا کہ یورپ کی مشترکہ منڈی ’ای یو‘ میں شامل رہا جائے یا خود کو نکال لیا جائے۔ معاملہ پیچیدہ تھا تو طے یہ پایا کہ ریفرنڈم کراکے دیکھ لیا جائے کہ عوام کی اکثریت کیا کہتی ہے۔ بڑے مباحثے کے بعد عوام سے پوچھا گیا کہ یورپین یونین میں شامل رہا جائے یا برطانیہ کو نکالنے کا راستہ، جو بعد میں BREXITکہلایا گیا، وہ اختیار کیا جائے۔ سب کو یقین تھا کہ بھڑوں کے چھتّے کو نہ ہی چھیڑا جائے۔ لیکن پھر جو ریفرنڈم ہوا تو ملک کے اوباش جوانوں نے جو اپنے پتلونوں کے گھٹنوں کو بلیڈ سے کاٹ کر اور پورے بدن پر بھانت بھانت کی تصویریں گود کے خوش ہوتے ہیں، اپنی بے فکری اور مستی کے عالم میں پوری بساط ہی الٹ دی۔ پرچیاں گنی گئیں تو پتہ چلا کہ یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں زیادہ ووٹ آئے ہیں۔ حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے، یہی سہی۔ اب حال یہ ہے کہ چھچھوندر گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔ حکومت کے اندر سخت اختلاف ہے۔ تازہ آواز یہ اٹھی ہے کہ دوسرا ریفرنڈم کرایا جائے۔ سبق اس حکایت سے یہی ملتا ہے کہ کثرت رائے کا درست اور صائب ہونا ضروری نہیں۔ اکا دکا لوگوں سے بھول ہوتی ہے، مجمع سے نادانی ہوتی ہے اور قوموں سے حماقت۔ جمہوریت پر کامل یقین ہو تو کبھی کبھی یہ روح کا عذاب بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکہ میں جسے اپنی جمہوریت پر بڑا ناز ہے، جارج بش جونیئر نے اپنا پہلا انتخاب بیلٹ بکس میں نہیں، عدالت میں جیتا تھا، اسی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چناؤ سے پہلے اعلان کردیا تھا کہ اگر میں ہارا تو الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کردوں گا۔ مطلب یہ کہ دیانت داری اور انصاف پسندی اپنی جگہ مگر موقع مل جائے تو بڑے بڑے باکمال لوگ چوکتے نہیں اور ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے۔
ہمارے لئے یہ بڑی ہی عبرت اور بڑے ہی صبر کا مقام ہے، لوگو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین