• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس ایشو پر میں اپنے پہلے دو کالموں میں اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور مکمل صوبائی خود مختاری کے وعدے نہ فقط 1940ء کی پاکستان کی قرارداد میں کیے گئے تھے بلکہ خود قائداعظم محمد علی جناح نے بھی بار بار اپنی تقاریر میں پاکستان کے ان دو بنیادی مقاصد کا ذکر کیا مگر ان وعدوں کا جو حشر قائداعظم کے بعد کیا گیا ان باتوں کا بھی میں ان کالموں میں مختصر ذکر کرچکا ہوں مگر اب میں فرداً فرداً ان حملوں کا ذکر کروں گا جو
قائداعظم کے انتقال اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان مقاصد کے خلاف کئے گئے۔ میں اس مرحلے پر خاص طور پر ملک کے ایک محقق منور راجپوت کے اس مضمون کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو گزشتہ اتوار کے ’’جنگ‘‘ کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہوا ہے، ہمیں ایسے تحقیقی مضامین زیادہ سے زیادہ لکھنے چاہئیں تاکہ پاکستان کے عوام کے سامنے پاکستان کے ابتدائی سالوں سے تعلق رکھنے والے حقائق پیش کیے جاسکیں۔ یہ مضمون ’’قیام پاکستان سے 2013ء …مختصر احوال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس مضمون میں پاکستان کے ابتدائی دنوں کے کچھ حقائق تفصیل سے شائع کیے گئے ہیں، ان میں سے کچھ اہم نکات اپنے اس کالم میں شامل کررہا ہوں تاکہ اس سلسلے میں، میں نے جو چند مختصر حقائق پیش کیے ہیں ان کی توثیق اوروضاحت ہوسکے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے
کہ 26جولائی 1947 ء کو گزٹ آف انڈیا میں پاکستان کا ’’دستور بنانے‘‘ کیلئے ایک69رکنی دستور ساز اسمبلی کا نوٹیفکیشن شائع ہوا، بعدازاں اس اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھا کر 79کردی گئی۔ دراصل یہ 1946ء کے انتخابات میں منتخب ہوئے تھے جو بعد ازاں پاکستان کا حصہ بنے، اس اسمبلی کا اجلاس 1947ء کو سندھ اسمبلی کی بلڈنگ میں ہوا، اگلے روز بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا، 12اگست کو ان کیلئے سرکاری طور پر ’’قائد اعظم‘‘ کے خطاب کی منظوری دی گئی، بعد میں14اگست کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے ایوان سے خطاب کیا اور یوں اختیارات کی منتقلی کا عمل انجام کو پہنچا۔ اگلے روز قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں حلف اٹھایا۔ میں نے اس مضمون کے یہ اقتباس اس وجہ سے لکھے ہیں تاکہ میرا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہوسکے کہ قائداعظم جس عمل کے نتیجے میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اس میں کوئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی عنصر شامل نہیں تھا جبکہ بعد میں جو ہوتا رہا اس کی میں کئی مثالیں دوں گا کہ کیسے سارے قانونی لوازمات اور اخلاقیات کو پائوں تلے روندا گیا، ان باتوں کا ذکر کرنے سے پہلے میں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ابتدائی دنوں میں جنرل ایوب خان جو اس وقت کے سینئر جنرلوں میں شمار ہوتے تھے اور پاکستان کے مغربی حصے میں متعین تھے مگر جنرل ایوب کو ٹرانسفر کرکے مشرقی پاکستان میں فوج کا جی او سی مقرر کیا گیا، اس عرصے میں جنرل اسکندر مرزا جن کا تعلق بھی فوج سے تھا مگر اس وقت وہ مشرقی پاکستان کے ایک اعلیٰ سول عہدے پر متعین تھے، ان دنوں جنرل ایوب خان اور جنرل اسکندر مرزا کے درمیان بڑے گہرے تعلقات ہوگئے اور وہ دن رات ایک دوسرے کیساتھ ہوتے تھے، اس دوستی نے بعد میں پاکستان کا کیا حشر کیا اس کا ذکر میں اگلے کالموں میں کروں گا۔ فی الحال یہاں یہ بات کرتا چلوں کہ تھوڑے ہی عرصے میں جنرل ایوب خان کے خلاف کافی منفی رپورٹس ملنے کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم نے جنرل ایوب خان کو ناپسندیدہ شخص قرار دیکر مشرقی پاکستان کے جی او سی کے عہدے سے ہٹاکر انہیں مغربی حصے میں ایک غیر اہم پوزیشن پر مقرر کردیا۔ میں نے اپنے پہلے کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ گورنر جنرل ہونے کے دوران چونکہ ان کی طبیعت خاصی ناساز تھی اور وہ ٹی بی جیسی بیماری کی آخری اسٹیج پر تھے لہٰذا آخری دنوں میں اتنے سرگرم نہیں رہے اور کئی اہم ایشوز پر مطلوبہ توجہ نہ دے سکے۔ حالانکہ جو اسمبلی انڈیا ایکٹ کے تحت وجود میں آئی تھی اس کی پہلی ذمہ داری ملک کا آئین بنانا تھا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی موجودگی میں تو ان وجوہات کی بنا پر آئین کا کام مکمل نہ ہوسکا مگر قائداعظم کے بعد تو ایسے لگتا ہے کہ آئین سازی کولڈ اسٹوریج میں پھینک دی گئی۔ قائداعظم کے ہوتے ہوئے ایک اور بھی عجب و غریب حرکت کی گئی، قائداعظم نے ابتدائی دور میں اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو تقاریر کیں ان میں سے ایک میں انہوں نے پاکستان میں قائم ہونیوالے نظام کی خاص خاص باتیں بیان کیں، قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان میں ہندو اپنے دھرم کی ساری دھرمی تقریبات منعقد کرنے کے مجاز ہوں گے اور اسی طرح مسلمان اسلام کی ساری تقریبات منعقد کرنے میں آزاد ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذہب پاکستان کا ریاستی مذہب نہیں ہوگا اخباری رپورٹرز اس تقریر کی کوریج کرکے اپنے دفاتر میں خبر بنانے پہنچے۔ ان رپورٹرز میں ایک سینئر صحافی جو اس وقت معروف انگریزی اخبار کے چیف رپورٹر تھے انہوں نے قائداعظم کی اس تقریر کے بارے میں خبر بناکر اخبار میں شائع کرنے کیلئے نیوز ڈیسک پر بھیج دی، چیف رپورٹر ابھی رپورٹنگ روم میں ہی موجود تھے تو انہیں نیوز ڈیسک کی طرف سے ایمرجنسی میں بلایا گیا، اس سینئر صحافی نے اپنی خبر کا انٹرو ہندو دھرم اور اسلام کے بارے میں قائداعظم کی تقریر کے اس حصے سے بنایا تھا جب وہ نیوز روم میں پہنچے تو نیوز ایڈیٹر نے کہا کہ انٹرو کاٹ کر خبر کو نیا انٹرو دیکر خبر دوبارہ بھیجیں اس پر مذکورہ سینئر صحافی بہت پریشان ہوئے اور کہا کہ بھئی میں نے کوئی بات اپنی طرف سے تھوڑی کہی ہے۔ یہی الفاظ قائداعظم نے کہے ہیں، اس پر نیوز ایڈیٹر نے بتایا کہ ہم نے اپنے طور پر یہ انٹرو نہیں کاٹا مگر حکومت کی طرف سے پریس ایڈوائز آئی ہے کہ قائداعظم کی تقریر کا یہ حصہ رپورٹ نہ کیا
جائے سینئر صحافی یہ سب سنکر نیوز روم سے باہر نکلے اور ایڈیٹر کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے یہ سارا قصہ ایڈیٹر کو بتایا۔ ایڈیٹر، جو قائداعظم کے بہت قریب تھے، نے فوری طور پر یہ ساری بات ٹیلی فون پر قائداعظم کو بتائی یہ سن کر قائداعظم نے غصے میں کہا کس نے یہ جملہ کٹوایا ہے اور کہا کہ یہ جملہ ضرور شائع کیا جائے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ’’پریس ایڈوائز‘‘ جیسے انتہائی اوچھے ہتھکنڈے کا سب سے پہلا ٹارگٹ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو بنایا گیا، بعد میں ’’پریس ایڈوائز‘‘ کا حربہ ہر آنے والے حکمران کا خاص ہتھیار رہا‘ اسطرح پاکستان میں ان حرکتوں کی ابتدا ’’آزادی صحافت‘‘ جیسے مقدس حق کو دفن کرنے سے ہوئی۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین