• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور، مستونگ اور بنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ 25جولائی کو عام انتخابات قریب آچکے ہیں مگر اس بار بھی 2013کے الیکشن کی طرح بھرپور انتخابی مہم دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اگرچہ تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ(ن) نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے انتخابی جلسے کئے ہیں لیکن دہشت گردی کی حالیہ لہر نے انتخابی ماحول کو ماند کردیا ہے۔ الیکشن کی روایتی گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد وطن عزیز میں بیرونی دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا ہے۔ حالیہ المناک واقعات کے ڈانڈے بھی افغانستان اور بھارت سے جاملتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کواس حوالے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ اب ان شواہد کی روشنی میں معلوم کیاجارہاہے کہ کون ان واقعات کے پیچھے موجود ہے۔ دہشت گردی کے تازہ ترین واقعات کا مقصد ملک میں انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔ نگران حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید متحرک اور فعال کیا جائے۔ ملک دشمن بیرونی عناصر کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لئے سخت فیصلے کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے آج پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔ ملک میں مکمل امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان نام نہاد امریکی جنگ سے چھٹکارہ حاصل کرے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کھل کر سامنے آچکے ہیں اور ملک کے اندر مسلسل حالات کو خراب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے عملاً رخصت ہوچکا ہے۔ اب اس کی بچی کھچی صرف10ہزارفوج وہاں موجود ہے مگر اس نے ہمیں اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں بری طرح الجھا دیا ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادت قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر امریکی پالیسیوں سے جان چھڑائے اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور بالخصوص پاکستان کے امن کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ جموں وکشمیر میں بھارتی مداخلت کے خاتمے تک خطے میں امن نہیں آسکتا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف او آئی سی کا تحقیقاتی کمیشن مقبوضہ کشمیر میں بھجوانے کا اعلان خوش آئند ہے۔ بھارت نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے پائیدار حل اور جامع مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی ہے اور اس اہم مسئلے کو حل کرنے سے گریز کیا ہے۔ قابض بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں مظالم کی انتہا کرچکی ہے۔ قتل وغارت گری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری خاموش تماشائی بنےہوئے ہے۔ کل بھوشن کیس کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جواب جمع کروا دیا گیا ہے۔400سے زائد صفحات پر مشتمل جواب اٹارنی جنرل کی سربراہی میں قانونی وخارجہ امور کے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی سابقہ حکومت نے اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا جس انداز میں اسے لیا جانا چاہئے تھا۔ ماضی کے حکمرانوں کی بھارت نواز پالیسی نے کل بھوشن کیس کو کمزور کیا ہے۔ کل بھوشن را کا حاضر سروس افسر ہے جس نے بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف کیا تھا۔ را کے جاسوس کے ساتھ نرمی برتنے کا رویہ حیران کن ہے۔ کل بھوشن ایک بھارتی جاسوس ہے اور اس کے ساتھ نرمی نہیں برتنی چاہئے بلکہ پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہئے۔ افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب 12سے زائد بھارتی سفارتخانوں میں دہشتگردوں کو عسکری تربیت اور مالی سپورٹ کرنے کی اطلاعات بھی میڈیا میں آرہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا فوری حل ازحد ضروری ہے بصورت دیگر خطے میں تیسری عالمی جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے نتیجے میں خوف اور بے یقینی کی فضا موجود ہے مگراس کے باوجود خیبرپختونخوا، ملتان، راولپنڈی، کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں متحدہ مجلس عمل شاندار جلسے کرچکی ہے اور اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیاقت باغ راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں متحدہ مجلس عمل نے کامیاب جلسے کر کے اپنی سیاسی قوت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ان جلسوں سے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، انس نورانی اور دیگر قائدین نے خطاب کیا۔ گزشتہ ہفتے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایم ایم اے کے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ان شاء اللہ25 جولائی کو ایم ایم اے پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں نمایاں کامیابی حاصل کرے گی۔ ایم ایم اے میں شامل دینی جماعتیں با صلاحیت اور باکردار افراد کی حامل ہیں جن کے دامن ہر طرح کی کرپشن سے پاک صاف ہیں۔ پشاور، مستونگ اوربنوں میں دہشت گردی کے واقعات انتخابی ماحول خراب کرنے کی گہری سازش ہے جس کے پیچھے ایسی قوتیں کار فرما ہیں جو ملک میں الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتیں۔ متحدہ مجلس عمل ان سازشوں کے باوجود اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے اور عوام میں موجود ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کے حوالے سے اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری ادا کرے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ 25جولائی کے انتخابات سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔ ملتان میں ایم ایم اے کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل ملک میں اسلام کے ضابطہ حیات کو نافذکرنا چاہتی ہے۔ ہم برسراقتدار آکر ملک سے سودی نظام کاخاتمہ کریں گے اور اسلامی طرز معیشت کو اختیار کر کے پاکستان کے عوام کا معیار زندگی بلند کریں گے۔ تجارت کے کلچر کو فروغ دیں گے اور کرپٹ افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل پنجاب کے صدر میاں مقصود احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں نے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ متحدہ مجلس عمل کامیاب ہوکر لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ پاکستان مسائل کے گرداب میں دن بدن دھنستاہی چلا جارہا ہے۔ ملک سے غربت، مہنگائی، کرپشن، دہشتگردی اور دیگر مسائل سے نجات کے لیے ملک وقوم کو پڑھی لکھی، محب وطن اور جراتمند قیادت کی ضرورت ہے۔ ایم ایم اے ملک وقوم کو بحرانوں سے نجات دلاسکتی ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں پُرعزم ہیں کہ 25جولائی کو عام انتخابات میں حصہ لے کر وہ بیرونی دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے۔ 2013کے الیکشن میں بھی انہی بیرونی عناصر نے حالات کوخراب کیا تھا۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ فعال اور متحرک ہونا ہوگا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پہلے ہی یہ آگاہ کردیا تھا کہ پاکستان کے الیکشن کوخونی بنانے کے لئے بعض بیرونی طاقتیں منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پیشگی اطلاعات کے باوجود بلوچستان، خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں سیکورٹی کے مناسب انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟ ماضی میں بھی آرمی پبلک اسکول، گلشن اقبال لاہور دھماکہ اور ان گنت دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں۔ اب ہمیں ان افسوس ناک واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین