• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں بہت کچھ بدل گیا ‘ 3قومی سیاسی جماعتیں کھل کر انتخابی مہم چلا رہی ہیں

کراچی (رائٹرز) پاکستان کے اقتصادی حب کراچی میں جہاں ایم کیو ایم طویل عرصہ تک راج کرتی رہی، وہ آپریشن کے نتیجے میں شکست و ریخت اور تقسیم کا شکار ہوگئی۔ جرائم اور تشدد میں کمی نے قومی سیاسی جماعتوں کے لئے راستہ کھول دیا۔ جہاں قومی اسمبلی کی 21؍ نشستوں کے لئے ان کے درمیان شدید مقابلہ ہے۔ 25؍ سال تک کراچی پر ایم کیوایم کے بانی اور قائد کی آہنی گرفت رہی، وہ اپنے ایک اشارے پر پورا شہر بند کردیتے تھے لیکن گزشتہ 5؍ برسوں میں دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں بہت کچھ بدل گیا۔ اسی کانتیجہ ہے پاکستان کی تین قومی سیاسی جماعتیں کراچی میں کھل کر اپنی انتخابی مہم چلارہی ہیں جہاں کبھی کھل کر بات کرنا جان گنوانے کے برابر تھا۔ بانی متحدہ 1992ء سے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں ۔ کراچی سے پیپلزپارٹی کی انتخابی امیدوار شہلا رضا کا کہنا ہے کہ وہ بازاروں اور فلیٹوں میں جاتی ہیں تو زبردست جواب مل رہا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں ایم کیوایم نے کراچی کی 20؍ میں سے 16؍ نشستیں دھونس، دھمکیوں اور دھاندلی سے جیت لی تھیں۔ ان انتخابات کے چند ماہ بعد ہی رینجرز کے کریک ڈائون سے قتل و غارت گری، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی وارداتوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوگئی۔ 2016ء میں ایم کیوایم تقسیم ہوگئی اور لندن میں بانی متحدہ کے نمائندوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بانی متحدہ اپنے کارکنوں کو تشدد پر اکسانے کی تردید کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے سیکڑوں کارکن گرفتار یا ماوراء عدالت قتل کردیئے گئے۔ حکام کا موقف ہے کہ انہوں نے جرائم پیشہ عناصر اور سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر عسکریت پسندوں کو پکڑا۔ جس سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق جنوری 2013ء سے اسی سال مئی تک کراچی میں تشدد سے 57؍ افراد ہلاک اور تقریباً 300؍ زخمی ہوئے تھے جبکہ 2018ء میں پولیس کے مطابق اب تک صرف دو قتل رپورٹ ہوئے ہیں۔ شہر میں رات گئے تک رونق رہتی ہے۔ انتخابی ماحول کے ساتھ کراچی مختلف جماعتوں کے پرچموں، جھنڈیوں اور بینرز سے سج گیا ہے، امیدواروں کے جگمگاتے ٹرک اور فلوٹ پورے شہر میں گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ایم کیوایم کے سابق ہیڈکوارٹرپر بلاول اور زرداری کے بل بورڈز نصب کردیئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 272؍ رکنی قومی اسمبلی کے ایوان میں کراچی کی 21؍ نشستیں حکومت سازی کے توازن میں بڑے انعام کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ چھوٹی جماعتوں کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہیں جو بادشاہ گر بننے کی خواہاں ہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں کہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ مقابلہ عمران خان کی تحریک انصاف اور اسیر سابق وزیراعظم نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے جس کی قیادت اب ان کے بھائی شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک جائزے کے مطابق انتخابی دوڑ میں پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر ہے جس کا دیہی سندھ میں اثر و رسوخ ہے۔ 

تازہ ترین