• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز آرمی الیکشن اسپورٹ سینٹر راولپنڈی کے دورے کے موقع پر کہا کہ عوام کو جمہوری حق کے آزادانہ استعمال کے لئے محفوظ ماحول یقینی بنانے کی تمام تر کوششیں بروئے کار لائی جائیں، پاک فوج 25جولائی کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے معاونت کرے گی۔ ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے خصوصی اجلاس میں جی ایچ کیو کے نمائندے نے کہا کہ ہمارا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں، الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان بہتر رکھنے پر کام کررہے ہیں۔ نیکٹا کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان نے انکشاف کیا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خطرہ ہے۔ وطن عزیز میں نہ تو الیکشن پہلی مرتبہ ہورہے ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے تحفظات و خدشات اورالزامات نئے ہیں۔ 1970ء کے پہلے عام انتخابات سے لے کر 2013ء تک کے انتخابات کی یہی کہانی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل خدشات و تحفظات کا اظہار جبکہ بعد ازاں انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کرتی رہیں۔ جہاں تک 25جولائی 2018ء کے انتخابات کا تعلق ہے ان کے بارے میں قبل ازیں بھی اعادہ کیا جا چکا ہے کہ یہ قدرے مختلف ماحول میں ہورہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے جتنی اتھل پتھل ان انتخابات سے قبل دکھائی دی ملکی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چنانچہ وفاداریوں کی تبدیلیوں کے باعث کوئی بھی جماعت اس اطمینان سے عاری دکھائی دے رہی ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامران ٹھہرے گی۔ اداروںپر الزامات کی روش بھی اپنے عروج پر ہے اور ملک کے معتبر ترین اداروں کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے کسی زبان پر بل نہیں پڑ رہا۔ بیرونی سازشیں جن کا کچھ عرصہ قبل ذکر کر کے انتخابات ملتوی کئے جانے کی باتیں کی جارہی تھیں، دہشت گردی کے روپ میں ظاہر ہوئی اور پشاور میں یکہ قوت کے مقام پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 22افراد کو نگل گئیں۔ اس کے بعد بنوں اور مستونگ کے سانحات نے پوری قوم کو مغموم کردیا جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت کم و بیش 200افراد جاںبحق ہوگئے۔ پاکستان کے محافظ اداروں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں کراچی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے 13دہشت گردوں کی ٹھوس شواہد کے ساتھ گرفتاری نے ثابت کردیا کہ ملک دشمن قوتیں کسی بھی قیمت پر پاکستان کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے میں کوشاں ہیں، مستونگ کے سانحے پر نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علائو الدین مری نےبیان دیا تھا کہ اس طرز کے دیگر واقعات کے ڈانڈے پاکستان سے باہر کی سرزمین سے ملتے ہیں۔ مذکورہ حقائق کے تناظر میں نیکٹا کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان کا بیان بھی حقیقت بن کر سامنے آتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کو طالبان سے خطرہ ہے۔ پاکستان ہی نہیں ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے تخریب کاروں کی پشت پناہی کہاں سے ہورہی ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ایک طرف دشمن ہمیں غیر مستحکم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزارشت نہیں کررہا اور دوسری جانب ہمارے بعض عاقبت نااندیش عناصر اپنے اداروں کیخلاف دریدہ دہنی میں مصروف ہیں۔ کیا کسی کو شک ہے کہ دہشت گردی کا ناطقہ بند کرنے میں ہماری فوج نے بے شمار قربانیاں دیں، آج اگر ملک میں جمہوری عمل جاری ہے تو وہ بھی بلاشبہ فوج کا مرہون منت ہی ہے ورنہ سیاستدانوں نے کیا کسر چھوڑ تھی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی؟ بہرکیف انتخابات کا فوج کی نگرانی میں کروانا الیکشن کمیشن کی دانشمندی ہے کہ اس کے بغیر آزادانہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگا۔افواج پاکستان کا کردار محض انتخابی عمل کو سیکورٹی فراہم کرنا ہے اور وہ اپنا فریضہ نبھانا خوب جانتی ہیں۔ آرمی چیف کا الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پیروی کا بیان، اداروں کی ہم آہنگی اور جمہوریت پر یقین کا بین ثبوت اور خوش کن امر ہے۔ یہ عمل لائق ستائش ہے۔

تازہ ترین