• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک رپورٹ میںاغوا اور اسمگل کئے گئے افراد سے بلااجرت جبری مشقت لینے کے عالمی رجحان کا جو انکشاف ہوا ہے بلاشبہ آج کی مہذب دنیا میں یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ جدید غلامی کے تیزی سے فروغ پاتے رجحان کے عالمی انڈیکس 2018کے مطابق شمالی کوریا، اریٹریا اور برونڈی میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے جہاں ہر10میں سے ایک شخص جدید غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے یہاں قومی یا اجتماعی پیداوار میں فی کس آمدنی کا کوئی تصور نہیں۔ اس سے بڑھ کر من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان اس عالمی انڈیکس کے پہلے 10ملکوں میں شامل ہے۔ دیگر میں بھارت، چین، افغانستان، بنگلہ دیش، جنوبی سوڈان، وسطی افریقہ اور ازبکستان شامل ہیں گویا ان میں سے بیشتر ممالک وسطی افریقہ یا جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ جبری مشقت لئے جانے کا رحجان عام ہے تاہم سرکار کی سرپرستی میں اس کام کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ قانوناً جرم ہے۔ رپورٹ کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سرفہرست تین ملکوں میں جبری مزدوری ریاست کی سرپرستی میں کروائی جاتی ہے ایسے افراد سے بغیراجرت زیادہ تر زراعت اور تعمیرات کے شعبوں میں مشقت لی جاتی ہے اورا س میں بچے، بالغ سبھی شامل ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دہائی میں سختی سے حوصلہ شکنی کے باوجود اس وقت جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد80لاکھ ہے۔ رپورٹ کی روشنی میں ملک کے طول و عرض میں اس بات کا پتہ لگایا جانا چاہیئے کہ قانون کی خلاف ورزی کہاں کہاں ہو رہی ہے اور پھر اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے موثر انتظامات کئے جائیں۔ مزید برآں اینٹوں کے بھٹوں، چوڑیاں بنانے کے کارخانوں، قالین بافی کے مراکز، ورکشاپوں، ہوٹلوں اور گھریلو صنعتوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ روزگار کے لئے بیرون ملک بھیجنے کے نام پر انسانی اسمگلنگ کے ریکروٹنگ سنٹرز کا قلع قمع بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین