• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
اب تک کے موصول ہونے والے معتبر انتخابی جائزوں کے مطابق مسلم لیگ ن کو تاحال تمام جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ اب بھی ملکی سطح پر تحریک انصاف مسلم لیگ سے 3فیصد پیچھے ہے جبکہ پنجاب کی حد تک مسلم لیگ ن کو 50فیصد اور تحریک انصاف کو 29فیصد حمایت حاصل ہے۔ میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالنے سے مسلم لیگ ن کو بے پناہ سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ ’’قیدی نواز شریف‘‘ تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں پر بھاری ثابت ہو گا انہوں نے برملا یہ بات کہی ’’میں پاکستان واپس جا رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ جیل کی سلاخیں میری منتظر ہیں‘‘۔ نواز شریف کے مخالفین نے انہیں ’’انڈر ایسٹیمیٹ‘‘ کیا ہے ان کا خیال تھا نواز شریف لندن سے واپس نہیں آئیں گے اور اس طرح وہ یہ کہہ سکیں گے نواز شریف نے جلا وطنی اختیار کر لی، مجھے یاد ہے جس طرح انہوں نے 12اکتوبر 1999 کی رات سنگینوں کی نوک پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا اسی طرح اب بھی وہ اس تاریخ کو دہرانے پاکستان واپس آ گئے۔ انہوں نے ایک جرأت مند ’’قائد‘‘ کی حیثیت کو منوا لیا ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اب یہ بات برملا کہی جا رہی ہے۔ اگر جلسے جلوسوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے تو انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہو گا مسلم لیگ ن کی مقبولیت بھی انتخابات کے التوا کا باعث بن سکتی ہے سینیٹ کا 279واں اجلاس جاری ہے جسے تحریک انصاف نے ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا لیکن مسلم لیگ ن او رپیپلز پارٹی نے اسے جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم چیئرمین سینیٹ نے انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے کے لئے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ عام انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، سیاسی گہما گہمی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، میاں نواز شریف اور مریم نواز کی جیل یاترا کے عام انتخابات پر اثرات مرتب ہوں گے مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے وکلاء نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر ہو چکی ہے بہرحال نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر ایک تاریخ رقم کر رہے ہیں مریم نواز کو پاکستان کی دوسری بے نظیر بھٹو بنانے کی آرزو ہے۔ عام انتخابات میں اب محض 4دن کا فاصلہ رہ گیا ہے لیکن سیاسی سرگرمیاں ہنوز گومگو اور ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہیں اور بالعموم تمام سیاسی جماعتوں کو اس تلخ حقیقت کا بالآخر سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو پچھلے پانچ سالوں میں پارٹی تنظیم سازی کو نظر انداز کرنے کی صورت میں پیدا ہوئی، ایک طرف جہاں ٹکٹوں کی تقسیم میں آمرانہ فیصلوں اور کسی بھی جمہوری مشاورت کے بغیر جماعتیں اندرونی انتشار کا شکار ہوئی ہیں، وہیں کسی باقاعدہ درجہ دوم کی مسلمہ قیادت کی عدم موجودگی میں جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو اس قاعدے سے انحراف کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
انتخابی جمہوریت میں دوسرا اہم ترین نقطہ کسی بھی جماعت کا وہ سیاسی فلسفہ اور ملکی تعمیر و ترقی سے متعلق اس کا وہ نظریاتی خاکہ ہوتا ہے جسے وہ ایک باقاعدہ دستاویز میں مجسم کر کے اسے اپنے انتخابی منشور کا نام دیتی ہے اگرچہ بارہا یہ تنقید تو ہوئی ہے، گزشتہ انتخابات میں جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور کے حوالے سے جو وعدے کئے وہ وفا نہیں ہوئے لیکن یہ بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ جماعتوں کی کارکردگی جانچنے کا مسلمہ پیمانہ ان کا انتخابی منشور ہی ہوتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ جہاں روٹی،کپڑا اور مکان ، نظام مصطفیٰ، ظالمو! قاضی آ رہا ہے، موٹر وے کا جال، تھری ڈی پالیسی اور احتساب کے نعروں سے گونجتی رہی ہے، وہ اب ایک بھیانک سیاسی سناٹے کا شکار ہو گئی ہے جہاں ملک کی ایک اہم ترین جماعت تحریک انصاف کسی منشور کے بغیر ہی متعدد انتخابی جلسے بھی کر چکی ہے یہ بالکل درست ہے اپریل 2018میں لاہور کے جلسے میں عمران خان نے گیارہ نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا جس پر ان کے انتخابی منشور کو استوار ہونا تھا بعد ازاں مئی کے مہینے میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان ہی گیارہ نکات کے حوالے سے پریس کانفرنس میں مشہور زمانہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا، جب اس پر تنقید ہوئی تو بتایا گیا اس کا سیر حاصل جواب پارٹی کا منشور دے گا۔ وہ دیومالائی منشور تاحال قلم اور قرطاس کے مابین معلق ہے۔ اس حوالے سے فقط تین جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے مسلمہ جمہوری روایات کو مشعل راہ رکھا اور انتخابی رابطے سے پہلے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھے۔ ایم ایم اے نے اگرچہ اپنے منشور کو محض چند پوائنٹس تک محدود رکھا لیکن اس کی مشترکہ قیادت نے سب سے پہلے اسلامی نظام کے نفاذ، سود کے خاتمے، ایک کڑے نظام احتساب اور عدالتی اصلاحات سے متعلق ترجیحات عوامی رائے کے لئے پیش کر دی تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے منشور کی خاص بات اسی دیرینہ مطالبے کا تسلسل دکھائی دیتی ہے۔ منشور پر خاص علاقائی عصبیت کا رنگ واضح ہے اور بالعموم کیفیت ابہامی ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کا منشور ہر ایک سطح پر مسائل پر بحث بھی کرتا ہے اور ان کے حل بھی تجویز کرتا ہے۔ پاکستان کو دوچار بھوک، تعلیم اور صحت کے مسائل پر یہ جہاں اپنی واضح ترجیحات سامنے رکھتا ہے وہاں ریاست اور وفاق کو درپیش خطرات کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ خوشنما وعدے، دل لبھانے والے منصوبے اور سحر انگیز نعرے اپنی جگہ، اس پارٹی کی سابقہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام بلاول بھٹو کی نوجوان قیادت پر اعتماد کر سکیں گے۔
باقی ایک تاریخ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی قید و بند کے لئے بھی کھڑی ہے۔ وہ ہے بھٹو، بے نظیر، شاہنواز، مرتضیٰ، بیگم نصرت بھٹو، آصف زرداری یاد کرو وہ کیا تاریخ ہے؟ وہ آپ کو آئندہ ہفتے ان شاء اللہ یاد کرائی جائے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین