• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو اڈیالہ جیل میں بند کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپیل قابلِ سماعت قرار پانے کے باوجود 30جولائی تک موخر کر دی گئی ہے، ہم اس تاخیر کو مقامِ حیرت ہی قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی بڑے قومی سیاستدان کی نظروں میں اپنی پارٹی کو جتوانے کے لیے انتخابی مہم کی کیا اہمیت ہوتی ہے، سب پر واضح ہے اس پسِ منظر میں اگر کوئی درویش یہ کہے کہ یہ تمامتر حربے اس لیے استعمال کیے جارہے ہیں کہ پاپولر قومی رہنما کو اپنے عوام سے دور رکھا جا سکے تو اس کا کیا جواب ہے؟
دوسری طرف نیویارک ٹائمز یہ لکھ رہا ہے کہ دہشت گردی کی گھناؤنی وارداتوں میں ملوث کالعدم تنظیموں سے منسلک لوگ بڑی تعداد میں نہ صرف پاکستان کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ آزادانہ انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی فہرست، جو فورتھ شیڈول کے نام سے جانی جاتی ہے، کے متعلق قانون یہ کہتا ہے کہ وہ عوامی اجتماعات منعقد کرنے، سفر کرنے یا بینک اکاؤنٹس کھولنے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ پاکستان کو پہلے ہی دہشت گردوں کے باعث فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے فہرست میں رکھا گیا ہے اور پاکستان عالمی سطح پر یہ یقین دہانی کروا چکا ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث پائے گئے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ ان جماعتوں کا انتخابات تک میں حصہ لینا دنیا کو مطمئن کر سکتا ہے کہ پاکستان اپنا کام کر رہا ہے؟
نیویارک ٹائمز نے جو سوال اٹھایا ہے ہمارے قومی میڈیا کو بھی اسے ناقابلِ اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے، اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی یہ آواز اٹھی ہے کہ ہمارے ذمہ داران کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے یہ اپیل کی ہے کہ عدلیہ میں ججز کو اپروچ کیا جارہا ہے، ججز کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے ہیں، ان کی زندگیاں محفوظ نہیں۔
عین انتخابی مہم کے موقع پر ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی قیادت کو جس شتابی سے اڈیالہ جیل بھیجا گیا ہے باریک بینی اور حقیقت شناسی سے ملاحظہ کیا جائے تو ہماری قومی سیاست کے لیے یہ رویہ آگے چل کر کئی منافرتوں کا باعث بنے گا۔ ہمارے محترم سہیل وڑائچ صاحب انتخابی حلقوں کی سیاست کے حوالے سے خصوصی دلچسپی اور جانکاری رکھتے ہیں۔ کراچی میں اُن سے ہماری یہ دوستانہ بحث ہوئی کہ آپ کس حوالے سے مخصوص پارٹی کی جیت دیکھتے ہیں اُن کے استدلال اور تمامتر احترام کے باوجود ہمارا نقطہ نظر ہے کہ پنجاب میں ن لیگ آج بھی حاوی ہے ان کی کارکردگی بھی دیگر صوبوں کی نسبت کہیں بہتر رہی ہے۔ KP ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ جو پشاور ریپڈ بس کے حوالے سے آیا ہے اُس نے اس پروپیگنڈے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے دیانتداری کی رہی سہی کسر 20کروڑ کی چائے نے نکال دی ہے۔
عرض یہ ہے کہ قومی قیادت بننے میں وقت لگتا ہے یہ گملوں میں اگائے گئے موسمی پودوں جیسی نہیں ہوتی ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ جب کوئی قیادت سیاسی بلوغت کے بلند مقام پر پہنچتی ہے تو کچھ عناصر اس کا تیاپانچا کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ اس بدقسمت ملک کی 70سالہ تاریخ اسی ظلم و ستم سے بھری پڑی ہے، طوالت سے بچنے کے لیے ہم محض بھٹو محترمہ اور میاں نواز شریف کی مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ جب تلخ تجربات کی بھٹی سے گزر کر انہیں ملک و قوم کے حقیقی ایشوز اور عالمی ترجیحات کے ساتھ مستقل قومی مفادات کی مطابقت میں شعوری آگہی ہوئی تو بعض کی نظروں میں ناکارہ ہو کر رہ گئے۔
محترمہ جیسی قومی سیاستدان کے قدر دان کی حیثیت سے درویش ہمیشہ اُن کے بیٹے کو یاد دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ اے ہونہار بلاول تمہاری ماں نے قومی و جمہوری جدوجہد کا سفر جہاں تک پہنچایا تھا اُسے عین وہیں سے شروع کرو۔ آپ کی والدہ نے تمام تر تلخیوں سے گزر کر، حقائق کو سمجھ کر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے ساتھ ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ سائن کیا تھا ۔
بی بی کے حقیقی جانشین کی حیثیت سے آپ نے یہ درست تشخیص کی ہے کہ اس صورتحال کے بالمقابل آئین ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والی تمام چھوٹی بڑی جمہوری قوتوں کو نئے میثاقِ جمہوریت میں یکجا ہو جانا چاہیے۔ درویش کو’’نئے‘‘ پر اعتراض ہے آپ اپنی والدہ مرحومہ والے ’’چارٹر آف ڈیمو کریسی‘‘ کو ایکسٹینشن دیتے ہوئے تمام جمہوری قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کاوش کریں۔ اس سوچ سے ہٹ کر پی پی اب تک جتنا نظریاتی و سیاسی نقصان اٹھا چکی ہے وہ بہت زیادہ ہے اب آئندہ کے لیے تلافی کی ایک ہی صورت ہے کہ بی بی کی نظری و فکری اساس ہر گز نہ چھوڑیں۔
مسلم لیگ ن کے لیے بھی اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کسی سے الجھے بغیر اپنی عوامی رابطہ مہم کو جاری و ساری رکھتے ہوئے نہ صرف اپنی کارکردگی پیش کرے بلکہ اپنی قیادت پر دھرے جانے والے شدید ترین الزامات کو میاں صاحب کے بیانیے اور سیاسی آگہی کا ردِعمل ثابت کرے۔
عوام سے اپنے تعلق پر اعتماد رکھتے ہوئے پوری یکسوئی کے ساتھ 25جولائی کے روز اپنے متحرک کارکنان کی محنت سے اپنے ووٹرز کو نکالیں۔ وزارتِ عظمیٰ پر آپ لوگ خود براجمان نہ بھی ہوئے تو اپنے ہم خیال لا سکیں گے بصورتِ دیگر بھی کوئی مسئلہ نہیں، اگر کوئی کٹھ پتلی حکومت بن بھی گئی تو وہ اپاہج ہی رہے گی زیادہ دیر چل نہ پائے گی۔ میدان بالآخر جمہوری قوتوں کے ہی پاس آئے گا۔ آج نہیں تو کل نواز شریف کا بیانیہ اس قوم کی تقدیر بن کر رہے گا اس لیے کہ بڑھتے ہوئے قومی شعور کو ناتجربہ کار سیاسی بیساکھیوں سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکے گا۔ نواز شریف کی آئین، پارلیمنٹ، عوامی حقوق اور جمہوریت کے لیے دی گئی اس قربانی کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین