• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار کی لکیر اور لکیر کے فقیر
بلاول بھٹو زرداری:عمران کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر نہیں۔ لکیر اس لئے نہیں کہ نہ ان کے والد اقتدار میں رہے نہ والدہ، نانا، بلاول لکیر کے امیر اور عمران لکیر کے ’’فقیر‘‘ ہیں، قسمت، اقبال کے مطابق مرد مومن خود بناتا ہے یا دانشوران دولت کے مطابق یہ مرد ڈالر بناتا ہے، اگر عمران کے اردگرد دو چار ایسے ہی قسمت والے نہ ہوتے تو وہ کیسے سیاست کر سکتے تھے، اگر اس ملک کے غریب سیاست کر سکتے تو یہاں اسلامی نظام لائے بغیر آ جاتا، مساوات ہوتی ہر روز، روز عید اور شب، شب برأت ہوتی
جو پیسہ لوٹنے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں
لکیر کی بات زرداری کرتے تو کوئی حیرت نہ ہوتی مگر باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے جواں سال بلاول بھی لکیر کے فقیر نکلے اس پر افسوس بھی ہوا حیرانی بھی، یہاں ضمیر کے علاوہ کچھ بھی موروثی نہیں اور ضمیر کو فوت ہوئے ایک زمانہ بیت گیا، اقتدار کی لکیر صرف ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں، اسی ‘‘گولڈن سپون‘‘ کو اقتدار کی لکیر کہتے ہیں، اقتدار ان کا حق ہے جن کے پاس دولت ہے، جن کے پاس علم، دانش اور احساس ہے وہ رعیت تو ہو سکتے ہیں راعی نہیں، مساوات، روشن خیالی اور تعلیم کا درس دینے والے دین کے ماننے والے آج دو طبقات یعنی امیر اور غریب میں بٹے ہوئے ہیں، یہاں نظام میں بہتری لانے کے بجائے دولت کے دیوتائوں اور دیویوں کی پرستش کرتے ہیں، ورنہ یہ کیوں کہتے کہ فلاں فلاں جس نے ہماری حالت قبر کے اگلے ہوئے مردے جیسی بنا دی ہے ہم پھر بھی ووٹ انہی کو دیں گے، یہی وہ لوگ ہیں، چند خاندانوں کے ہاتھوں پر اقتدار کی لکیر ڈالتے ہیں اور خود کو قعر مذلت میں ڈالتے ہیں۔
٭٭٭٭
بجلی کا بل لے گیا دل
فی یونٹ بجلی کی اونچی قیمت اپنی جگہ مگر یہ جو اس کے ساتھ الیکٹریکسٹی ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جی ایس ٹی، نیلم جہلم سرچارج، ایف سی سرچارج، ٹی آر سرچارج کا جگا بھی صارف کو ادا کرنا پڑتا ہے آخر یہ کس جرم کی پاداش میں؟ جب ایک صارف انکم ٹیکس ادا کر دیتا ہے پھر بجلی بل میں یہ ٹیکسوں کی بھرمار کیوں؟ قانون انصاف تو یہ ہے کہ صارفین جتنی بجلی خرچ کرتے ہیں صرف اس کی قیمت وصول کی جائے، کیا حکومت بجلی کے بل کے ذریعے چلانا ہے؟ ہم چیف جسٹس پاکستان سے کروڑوں مفلس صارفین کی جانب سے یہ فریاد کرتے ہیں کہ وہ اس زائد از قیمت جبری وصولی کا از خود نوٹس لیں اور صارفین کو صرف خرچ کی جانے والی بجلی کے یونٹوں کی قیمت کا بل بھیجا جائے، پاکستان کے کروڑوں متوسط اور خط غربت سے نیچے کے شہری یہ ستم بالائے ستم آج نہیں ایک طویل عرصے سے برداشت کر رہے ہیں، جبکہ اس ملک میں وہ گنتی کے افراد بھی رہتے ہیں جن کی ریڈنگ لینے کی کوئی جرأت نہیں کرتا، بجلی چوری ہوتی نہیں کرائی جاتی ہے، اور جن کی روزانہ کی آمدن کروڑوں میں ہے ان کے لئے بجلی کا بل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو انہیں کیا فرق پڑتا ہے، ہمیں اور صوبوں کا تو علم نہیں مگر پنجاب میں بجلی سونے کے بھائو بکتی ہے، بجلی چوری بجلی کمپنیاں کراتی اور آدھا تیرا آدھا میرا کے حساب سے جیب گرم کرتی ہیں، ایک غریب صارف جس کی کل آمدنی 15ہزار ہے اسے 10ہزار کا بل آ جائے تو وہ گزر بسر کیسے کرے گا، خود کشی کرے گا یا چوری چکاری کرے گا، ایک ریڑھی لگانے والا بھی اپنا مال مہنگا کر کے خرچہ پورا کر لیتا ہے مگر ملازمت پیشہ طبقہ جو اپنی تنخواہ نہیں بڑھا سکتا اسے بجلی کا بل نہیں ٹیکسوں کا بل بھی ادا کرنا پڑتا ہے، انصاف کی درخواست ہے، ہمیں پوری امید ہے کہ چیف جسٹس بجلی کی قیمت کے علاوہ ٹیکسوں کی مد میں ناجائز وصولی کو روک کر کروڑوں غریب عوام کی دعا ضرورلیں گے۔
٭٭٭٭
ریپڈ کرپشن سے کروڑوں کی چائے تک
پشاور ریپڈ بس منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات کی جائے، ہائیکورٹ کا نیب کو حکم، ساتھ ہی کے پی وزیر اعلیٰ ہائوس میں 20کروڑ کی چائے پینے کا بھی حساب ہو گا، اگر یہی تبدیلی لانا تھی تو کم از کم پرویز خٹک کو تو وزیر اعلیٰ نہ لاتے۔ غضب خدا کا کہ کے پی وزیر اعلیٰ ہائوس میں 20کروڑ کی چائے نوش فرمائی گئی تو تناول کتنا کیا ہو گا، ابوالکلام آزاد چائے پینے کے حوالے سے بلانوش تھے مگر اتنی چائے تو انہوں نے بھی اپنے عہد وزارت ہند میں نہیں پی ہو گی یا پلائی ہو گی، ریپڈ بس منصوبے میں کرپشن ہوئی، کیا عمران خان کے بھائیوال مسٹر خٹک کی اس ’’دیانتداری‘‘ کا ان کو علم نہ تھا؟ اگر خان کی پرانی ٹیم کا یہ حال تو نئی کا کیا ہو گا اگر انہیں مرکز میں اقتدار مل گیا تو چراغ کو اپنے نیچے اندھیرے کا پتہ ہونا چاہئے، اگر چراغ کے نیچے بھی چراغ ہوں تو چراغ تلے اندھیرے کا محاورہ غلط ثابت کیا جا سکتا ہے، ریپڈ بس منصوبے میں لگتا ہے ریپڈ کرپشن ہوئی ہے ورنہ ہائیکورٹ یوں نیب کو فی الفور تحقیقات کا حکم نہ دیتی، اس ملک میں کرپشن پر نکالنے کے لئے ایک جم غفیر موجود ہے، عدالتیں عدل کی لے تیز کریں تاکہ ساری غلاظت یکبارگی صاف ہو ورنہ یہاں چائے پی پی کر بڑے اطمینان سے کرپشن ہوتی رہے گی، ہم نجومی تو نہیں مگر اتنا جانتے ہیں کہ کے پی میں جو ٹریلر خان صاحب کے ایک مقرب ترین نے چلایا وہ پوری فلم کے فلاپ ہونے کی خبر ہے، کرپشن اگر ایک چھوٹے سے صوبے سے ختم نہیں کی جا سکی تو بفرض محال وزارت عظمیٰ ملنے کی صورت میں کیا عالم ہو گا، ہم خوش فہم، خوش عقیدہ لوگ ہیں اسٹیٹ ایکٹرز کی ایکٹنگ کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں، خٹک صاحب جسمانی لحاظ سے اسمارٹ تو ہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کسی اور حوالے سے بھی کافی ’’سمارٹ‘‘ ہیں، اب یہ تحقیقات ریپڈ سے چائے تک ہونی چاہئے تاکہ کچھ تو تبدیلی آئے۔
٭٭٭٭
چھپ گئے تارے نظارے ہائے کیا بات ہو گئی!
....Oایاز صادق کی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو دھمکیاں۔
لگتا ہے ایاز صادق کے اسپیکر اسمبلی ہونے کا خواب کچھ طویل ہو گیا ہے۔
....Oپرویز الٰہی:الیکشن کمیشن ٹھیک جا رہا ہے، ن لیگ کی حالت خراب ہے۔
بیان کا پہلا حصہ ٹھیک جا رہا ہے دوسرا خراب ہے۔
....O وفاقی وزیر قانون علی ظفر:سہالہ ریسٹ ہائوس کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ نہیں ہوا۔
ظاہر ہے ریسٹ ہائوس، اریسٹ ہائوس تو نہیں ہو سکتا۔
....Oغیر اخلاقی زبان پر نوٹس۔
غیر اخلاقی کاموں کو بھی شامل کر لیں۔
عبرت بڑھتی ہے سزائیں جو سزائوں میں ملیں
....O برطانیہ:لندن کو غریب ممالک کے کرپٹ سیاستدانوں کے لئے جنت نہیں بننے دیں گے۔ اچھا ہے کہ شداد کو اپنی جنت بند کرنے کا خیال آیا۔
....Oتمام مسلم لیگوں کے ساتھ سابقے لگانے پر پابندی لگائی جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین