• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت بہت تیزی سے گزررہا ہے پچھلے ایک ہفتہ میں بہت کچھ بدل گیا ہے نواز شریف کے جیل جانے سے الیکشن کی سیاست کا رُخ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ۔میں جب بھی لکھتا یا بولتا ہوں تو یہ ہی کہتا ہوں کہ نواز شریف کو جیل ہوگئی کبھی بھی مریم نواز کا نام نہیں لیتا کیونکہ میرے اندر ہمت نہیں ہے کہ میں اُس عورت کا اس طرح سے نام لوں جو کسی کی ماں ہے کسی کی بہن ہے اور کسی کی بیٹی ہے مجھے میری تربیت نے ماں بہنوں کی عزت کرنا سکھائی ہے آج اگر مریم جیل میں ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ قصور وار ہے یہ میں بغیر کسی ہمدردی یا سیاسی حمایت کے بات کررہا ہوں وہ صرف اس لیے جیل میں ہے کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ کھڑی ہے باپ صحیح ہے یا غلط یہ تو وقت بتاہی دے گا مگر مردوں سے زیادہ باہمت بن کر مریم نواز باپ کی آواز دنیا کی ہر آسائش سے بے نیاز ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی گئی جو سچ جانتے ہیں وہ اس بیٹی کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں جو نہیں جانتے وہ جاننا ہی نہیں چاہتے مگر جب جانیں گے تو اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہونگے کہ ہم نے دیر کیوں کردی۔ مریم نواز جیل میں سات دن رہیں سات ماہ رہیں یا سات سال میں ان کے حق میں اس لیے لکھتا رہوں گا کہ میرے دل میں اُن کی بہت عزت ہے اور عزت اس لیے کہ ایک عورت ہوتے ہوئے جس طرح انھوں نے اس مشکل وقت کو قبول کیا اس سے میرے دل میں عورت کی عزت اور بڑھ گئی۔ میرے ہی نہیں ہزاروں لاکھوں دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب نے جس دن سے نواز شریف گرفتار ہوئے ہیں عمران خان کے جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ جس بُری طرح سے جہلم کو اپنا گھر کہنے والی پی ٹی آئی جہلم میں ذلیل و رسوا ہوئی ہے یہ پورے پاکستان نے دیکھا ۔فواد چوہدری کے جہلم کے جلسے میں صرف ایک دو ہزار لوگ ہی شریک ہوئے جو کہ پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جہلم کے جلسے کی بدترین ناکامی کے بعد اُسی شام لاہور شاہدراں کے جلسے میں بھی الو بولتے رہے۔ یہ پیغام ہے عمران خان کے لیے کہ جس انداز سے نواز شریف کو سزا دی جارہی ہے اُسے پنجاب کے عوام نے ماننے سے انکار کردیا ہے کیونکہ پنجاب کی روایت سڑکوں پر نکلنے کی نہیں ہے وہ اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں پیغام تو یہ کراچی کے عوام کے لیے بھی ہے جو اس وقت کشمکش میں ہیں کہ ووٹ دیں یا نہ دیں اور اگر دیں تو کس کو دیں۔ آج کل جو میڈیا کا حال ہے اُس میں وہ ہی کامیاب ہے جو خوب کھل کر بول رہا ہے یا لکھ رہا ہے اور عمران خان نے سیاست میں اس انداز کو متعارف کرایا جہاں اپنی عزت کے علاوہ کسی کی عزت نہیں اپنے علاوہ ہر شخص چور اور جھوٹا اور عمران کی دیکھا دیکھی نوجوانوں نے بھی اسی راہ پر چلنا شروع کردیا اور ایک عظیم طوفان بدتمیزی نے جنم لیا جہاں ہمیں سیاستدانوں کے منہ سے ایسی ایسی گفتگو سننے کو ملی جو شاید آج سے پانچ سال پہلے کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی اور پھر اسی انداز کو متعدد صحافیوں نے بھی فالو کیا اور جو پڑھے لکھے صحافی اس انداز کوفالو نہیں کرتے بدقسمتی سے اُن کی اب کہیں جگہ ہی نہیں رہی کیونکہ ریٹنگ کے اس دور میں ہر چینل وہ دکھانا چاہتا ہے جو بِک رہا ہے ۔ سیاست و صحافت کی موجودہ صورتحال کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ کراچی کے عوام سمجھ سکیں کہ انہیں کرنا کیا ہے وقت آگیا ہے کہ کراچی کے عوام کو بھی پنجاب کے عوام کی طرح یکطرفہ فیصلہ دینا ہوگا بلکہ اندرون سندھ کے عوام کی طرح بھی کہ جہاں برسوں سے پی پی پی کی حکومت ہے مگر آج تک کوئی ترقی نہیں مگر ووٹ ہمیشہ پی ہی کو پڑتا ہے اُس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ سندھی ایک ہیں چاہے کتنے ہی سیاسی گروپ اُن پر لاد دیے جائیں ووٹ بھٹو ہی کا ہے اور بھٹو کا ہی رہے گا جس دن اندرون سندھ کا ووٹ تقسیم ہوگیا سندھ بھی تقسیم ہوجائے گا اور ایک سندھی یہ کبھی ہونے نہیں دے گا ۔اب یہ کراچی کے عوام کو سوچنا ہے کہ ووٹ اس بحث میں پڑ کر دیا جائے کہ ایم کیو ایم نے دیا کیا ہے یا پھر ووٹ یہ سوچ کر دیا جائے کہ کچھ بھی ہوجائے اپنوں کا ووٹ اپنوں کے لیے ۔رہ گئی بات ترقی کی تو وہ ہم خالد مقبول صدیقی یا فاروق ستار کا گریبان پکڑ کر پوچھ لیں گے کہ کیا کیا ہے براہ مہربانی کوئی باہر کا آدمی ہمیں نہ اُنھیں اُن کے خلاف اُکسائے نہ اُن سے لڑانے کی کوشش کرے نہ فاروق ستار کہیں جارہے ہیں نہ خالد مقبول ہم اپنا حساب اُن سے وقت آنے پر کرلیں گے ابھی تو وقت ہے اتحاد دکھانے کا پنجاب اور سندھ کے انداز میں بات کرنے اپنا ووٹ اپنوں ہی کو دینے کا ورنہ جب یہ وقت گزرجائے گا مہاجر بہت پچھتائے گا اور اگر کوئی اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ ہمارا اپنا ہے تو پھر ہمارے ساتھ کھڑا ہوکر دکھائے اُن کے ساتھ نہیں جو ہمیشہ سے ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں اور ابھی ہی تو وقت ہے ساتھ کھڑے ہونے کا کیونکہ جس سے آپ کا جھگڑا تھا وہ تو پہلے ہی چلا گیا اب آپ کا کیا فاروق ستار یا خالد مقبول سے جھگڑا ہے اگر ہے تو کیسے ؟ کیا یہ وہ لوگ نہیں جنہوں نے آپ ہی کیساتھ جدوجہد کا آغاز کیا تھا ہمارےلیےتو آپ ہی کی طرح کے ہیں ہاں ہوسکتا ہے کسی کے ساتھ آپ کے ذاتی جھگڑے میں آپ کے ساتھ نہیں کھڑے ہورہے مگر نظریہ تو وہ ہی ابھی بھی جس کی آپ خود برسوں ترویج کرتے رہے اور ہمارے لیے تو آج بھی وہ ہی نظریہ مقدم ہے کیونکہ اس نظریے کی ترویج اور تبلیغ کے لیے ہم نے سینکڑوں جانیں قربان کی ہیں ہزاروں اسیر ہوئے ہیں اور اگر اب ہم اُس نظریے سے ہٹ گئے تو اُن شہیدوں کا کیا ہوگا اُن کے وارثین کو کیا منہ دکھائیں گے اُن اسیروں کا کیا ہوگا ہاں جو دشمنی کا سبب تھا وہ تو اب ہے ہی نہیں تو پھر اس سے زیادہ بہترین وقت کیا ہوسکتا ہے ایک ہونے اور اپنے نظریے کو کامیابی کی طرف لے جانے کا۔ جب اندرون سندھ رہنے والا غیر پڑھا لکھا ہاری آج تک اپنے نظریے بھٹو کے ساتھ کھڑا ہے تو کراچی حیدرآباد کے پڑھے لکھے لوگوں تم اپنے نظریے کو کیوں نہیں سمجھ پارہے یا پھر تم نے سازشوں کے درمیان ہی زندگی گزار دینی ہے اور سسک سسک کر آگے بڑھنا ہے ۔ سوچو تم کو جس طرح سے تبدیلی کے نام پر ایک دفعہ پھر بیوقوف بنایا جارہا ہے کیا تم ایسا ہونے دوگے یا پھر اندرون سندھ کے اُس ہاری کی طرح ہر حال میں اپنے انداز اپنے احساس اپنے لباس اور اپنوں کی آواز پر ڈٹے رہو گے اور ہر اُس شخص یا پارٹی کو بتادو گے اگر ہمارے لیے جدوجہد کرنی ہے تو ہمارے نعرے کے ساتھ کرو اپنے نہیں اور ہمارا صرف ایک ہی نعرہ ہے ہم پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہیں اور ہمیں بھی ہمارا حق ملنا چاہیے۔ اپنوں سے ووٹ مانگنے والوں کو اس دفعہ واقعی اپنا بن کر بھی دکھانا ہوگا ماضی کی روایتوں کو چھوڑ کر ایک تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا اور زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنا ہوگا اور ورنہ پھر یہ اپنے اپنوں سے ہر چیز کا حساب ایک ساتھ ہی لے لیں گے چاہے ماضی کا ہو یا حال کا۔ لہذا اپنوں سے ووٹ مانگنے والے بھائیو اب پرانا نہ انداز چلے گا نہ لباس چلے گا نہ ساز چلے گا اب سب کچھ عملی طور پر کرکے دکھانا ہوگا ورنہ ان اپنوں کو اپنا بنانے والے دوسرے بہت سارے لائن میں کھڑے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین