• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی بجٹ لانے پر غور،تجارتی خسارہ ایک سال میں 26ارب سے بڑھ کر31ارب ڈالر ہوگیا،تمام درآمدات پر ایک فیصد کسٹم یا 1550اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی

اسلام آباد(مہتاب حیدر)اعلیٰ سطح پر منی بجٹ لانے پر غورکیا جارہا ہے، تجارتی خسارہ ایک سال میں 26ارب سے بڑھ کر 31ارب ڈالرز ہوگیا ہے،بڑھتے ہوئے درآمدی بل میں کمی لانے کے لیے تمام درآمدات پر ایک فیصد کسٹم یا 1550اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جاسکتی ہے۔کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے باوجود کچھ اشیاء بشمول دوائیوں اور خام مال پر استثناء برقرار رہے گا۔تاہم ریونیو پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیوں کہ خام مال کی قیمت بڑھنے سے ان پٹ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔وزارت کامرس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ مختلف تجاویز زیر غور ہیں ، تاہم یہ ان کا منصوبہ نہیں ہے، ادھر ایف بی آر عہدیدار کا کہنا ہے کہ تجویز پر نگراں حکومت کے دور میں عمل درآمد ہونا‘ ممکن نظر نہیں آرہا۔تفصیلات کے مطابق ، اعلیٰ سطح پر ایک منی بجٹ زیر غور ہے اور اقتصادی وزارتیں مختلف طریقہ کار پر سوچ بچار کررہی ہیں ان میں تمام درآمدی اشیاءپر اضافی کسٹم ڈیوٹی میں 1فیصد تک اضافہ کیا جائے یا پھر 1550اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جائے تاکہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل میں کمی لائی جاسکے۔ایک اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو اس بات کی توثیق کی ہے کہ7200کی تمام ٹیرف لائنوں کی اضافی کسٹم ڈیوٹی پر 1فیصد اضافے کے لیےیا 1550سے زائدلگژری اشیاء پرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کے لیے مختلف حوالوں سے سوچ بچار کیا جارہا ہے۔اس حوالے سے وزارت کامرس اور ایف بی آر نے مختلف اجلاس کیے ہیں ، تاہم بحث اس بات پر ہوئی کہ یہ منصوبہ رواں مالی سال میں بڑھتی ہوئی درآ مد ا ت کے تدارک کے لیے وزارت خزانہ کا تھا۔اگر اضافی کسٹم ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے تو کچھ اشیاءجیسا کہ دوائیاں اور دیگر خام مال پر استثناءبرقرار رہے گا۔اس کے ریونیو پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوں گے اگر حکومت اضافی کسٹم ڈیوٹی میںایک ساتھ ہی ایک فیصد سے تین سے چار فیصد تک اضافے کا فیصلہ کرلےکیوں کہ اس سے صنعتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیوں کہ خام مال کی قیمت بڑھنے سے ان پٹ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔اس حوالے سے جب وزارت کامرس کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مختلف تجاویز زیر غور ہیں ، تاہم یہ ان کا منصوبہ نہیں ہے۔ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم نے وزارت خزانہ کی خواہش پر اشیاء کی فہرست پیش کی تھی۔اس حوالے سے جب ایف بی آر کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس تجویز پر نگراں حکومت کے دور میں عمل درآمد ہونا ممکن نظر نہیں آرہاکیوں کہیہ مسئلہ آخری کابینہ اجلاس میں زیر بحث نہیں آیا۔ 25 جو لا ئی ، 2018کو ہونے والے انتخابات سے قبل کابینہ کا اجلاس ہونا ممکن ہے،تاہم نگراں حکومت اس معاملے پر نئی حکومت کے قیام سے قبل فیصلہ کرسکتی ہے۔ فنانس ڈویژن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا خیال تھا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران اقتصادی حوالے سے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، جس کا مقصد درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور برآمدات کو سہارا دینا ہے، جیسا کہ مرکزی بینک کی جانب سے گزشتہ تین مانیٹری پا لیسیو ں میں رعایتی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے، شرح تبادلہ میں ترقیاتی توازن کی اجازت سے امریکیڈالرکی قیمت 130 روپے تک جاپہنچی ہے، جب کہ درآمدات میں کیش مارجن کی ضروریات اور اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کمرشل درآمدکنندگان اور صنعتی درآمدکنندگان میں فرق کرنے کی کوشش کررہا ہے، جس کا مقصد کمرشل درآمدکنندگان کے لیے کیش مارجن میں اضافہ تھا، جب کہ صنعتی درآمدکنندگان کو استثنا دینا تھا۔مانیٹری سختی ، شرح تبادلہ اور انتظامی اقدامات کے نتیجے میں اسے فنانس ڈویژن کا اقدام سمجھا جارہا تھاکہ مالی اقدامات کو درآمدات کی مزید حوصلہ شکنی کے اقدام کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ملک کے موجودہ اکائونٹ خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہےجو کہ گزشتہ مالی سال، جس کا اختتام 30جون ،2018میں ہوا تھا 18ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح کو چھوچکا تھا، جس میں درآمدی بل 60ارب ڈالرز تھا۔وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسران کا کہنا تھا کہ مانیٹری ، مالیاتی اور انتظامی انتظامات کے مشترکہ اقدام کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ اکائونٹ خسارے کو کم کیا جاسکے جو کہ درآ مد ا ت میں کمی لاکر اور برآمدات میں اضافہ کرکے کیا جاسکتا ہے، جب کہ باقی ماندہ 12ارب ڈالرزکے خسار ے کا انتظام جو کہ بیرونی اکائونٹس پر ہے، اسے آئی ایم ایف کے نئے بیل آئوٹ پیکج حاصل کرنے کے بعد کیا جاسکتا ہے۔اس نمائندے نے وزیر اعظم ہائوس کے ترجمان سے جمعے کے روز رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہاں ایک مسئلہ تھا جو کہ فاٹا کو استثنا دینے سے متعلق تھا ، جو کہ گزشتہ کابینہ اجلاس کے دوران زیر بحث آیا تھااور اس کی منظوری دے دی گئی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ کابینہ اجلاس میں دوسرا کوئی مسئلہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔

تازہ ترین