• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیل ٹرائل کے واقعے سے نگراں حکومت کے کردار پر شکوک و شبہات

جیل ٹرائل کے واقعے سے نگراں حکومت کے کردار پر شکوک و شبہات

اسلام آباد (احمد نورانی) اگرچہ نگراں حکمرانوں کا اصرار ہے کہ یہ معمول کا کام تھا اور اس پر ’’قانوناً عمل کیا‘‘ گیا، لیکن گزشتہ جمعہ 13؍ جولائی کو سابق وزیراعظم کے جیل ٹرائل کے حوالے سے خط کی بظاہر انتہائی برق رفتاری سے نقل و حرکت کے بعد نگراں وزیراعظم ناصر الملک کی جانب سے پانچ منٹ کے اندر ہی منظوری دیے جانے کے واقعہ سے کئی لوگ ورطہ حیرت میں ہیں۔ نقادوں نے دلیل دی ہے کہ معاملے سے اشارہ ملتا ہے کہ نگراں حکومت دبائو کا شکار ہے تاہم وزیر قانون علی ظفر اس بات کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ وفاقی حکومت پر ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کیلئے کوئی دبائو ہے۔ دی نیوز کی جانب سے فون اور فیکس پر سوالات بھیجے گئے لیکن چار روز کے دوران زبردست کوششوں کے باوجود وزیراعظم آفس اور ان کے اسٹاف نے جیل ٹرائل کے حوالے سے جسٹس ناصر الملک، جو خود ایک ماہر قانون دان ہیں، کا موقف نہیں دیا۔ دستیاب حقائق کے مطابق، قومی احتساب بیورو نے 13؍ جولائی کو وزارت قانون کو خط لکھا، یہ دن ہفتے کا آخری یومِ کار تھا، خط میں احتساب عدالت کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ نواز شریف اور دیگر کے خلاف کیس کی سماعت کی جا سکے۔ وزارت نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ یہ خط کابینہ ڈویژن کو بھجوا دیا، تمام وزراء اور سب سے اہم بات یہ کہ وزیراعظم سے بھی چند ہی منٹوں میں دستخط لیے گئے، اور اس کے بعد یہ خط کابینہ کی منظوری کے ساتھ واپس وزارت قانون بھیج دیا گیا، اور اس کے بعد وزارت کی جانب سے غیر معمولی نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ ماضی میں صرف خطرناک دہشت گردوں کا ہی جیل ٹرائل ہوتا تھا۔ نیب حکام نے جیل ٹرائل کے خط کی ایک جگہ سے دوسری جگہ حیران کن منتقلی سے انکار کرتے ہیں، یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر یہ سب کون کروا رہا تھا۔ بعد میں وفاقی کابینہ نے بدھ کو نوٹیفکیشن منسوخ کر دیا اور وہ بھی اس لئے کہ پہلے احتساب عدالت میں جو سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی تھی اسے جولائی کے آخر تک ملتوی کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما الزام عائد کرتے ہیں کہ ٹرائل جولائی کے آخر تک اسلئے ملتوی کیا گیا ہے تاکہ سابق وزیراعظم 25؍ جولائی کے انتخابات سے قبل ایک مرتبہ بھی عوامی اجتماع میں نہ جا سکیں۔ نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد دیے گئے انٹرویو میں وزیر قانون نے دی نیوز پر واضح کیا کہ اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کی سماعت مختلف انداز میں کس طرح ہوگی اور کس طرح صحافیوں حتیٰ کہ عام لوگوں کو ٹرائل اور ہر سماعت کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس بات پر کوئی بھی ادارہ، ڈویژن یا وزارت کوئی موقف دینے کو تیار نہیں تھی حالانکہ انہیں کئی مرتبہ سوالات بھیجے گئے۔ حتیٰ کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن ابو احمد عاکف، وزیراعظم کے سیکر یٹر ی سہیل عامر نے اپنی زبان پر تالے لگا دیے تھے حالانکہ دی نیوز کی جانب سے متعدد مرتبہ انہیں ان کے فون اور فیکس نمبر پر سوالات بھیجے گئے۔ سہیل عامر کو متعدد فون کالز کے بعد دی نیوز نے انہیں مندرجہ ذیل سوالات بھیجے جو انہیں موصول ہوئے، ۱) جمعہ 13؍ جولائی کو وزارت قانون نے احتساب عدالت کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تاکہ نیب کے کچھ ریفرنسز کی سماعت کی جا سکے۔ وزیر قانون کے مطابق، یہ نوٹیفکیشن وفاقی کابینہ کی منظوری سے جاری کیا گی اتھا اور اس کی سمری وزیراعظم نے منظور کی تھی۔ نیب کے کسی کیس کی جیل ٹرائل کی مثال نہیں ملتی اور سیکورٹی کا بھی کوئی ایشو نہیں تھا کیونکہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم 104؍ مرتبہ عدالت میں بغیر کسی سیکورٹی ایشو کے پیش ہو چکے ہیں، تو نگراں وزیراعظم، جو خود ایک ماہر قانون، جج اور چیف جسٹس رہ چکے ہیں، نے کیوں جیل ٹرائل کی منظوری دی؟ ۲) نیب کی جانب سے ٹرائل جیل میں کرانے کی درخواست پر ایک ہی دن تمام وزرا اور وزیراعظم نے دستخط کرکے اس منظوری دی اور پھر یہی خط اسی دن واپس وزارت قانون بھجوایا گیا۔ وزیراعظم کی رائے میں اس معاملے میں اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی؟ کیا وفاقی حکومت پر نوٹیفکیشن کے اجراء کیلئے کوئی دبائو تھا؟ اگر ہاں تو کون دبائو ڈال رہا تھا؟ یہ خبر فائل کیے جانے تک ان کی جانب سے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ وزیر قانون نے اس بات کا بدھ کو اعتراف کیا کہ نیب نے 13؍ جولائی کو درخواست دی تھی کہ احتساب عدالت کو نواز شریف کے باقی ریفرنسز میں ٹرائل کیلئے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ دی نیوز سے 14؍ جولائی کو بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ رات دیر سے نوٹیفکیشن جاری کرنا غلط تھا ا ور اسے پہلے جاری کیا جانا چاہئے تھا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں جیل میں ہونے والا ٹرائل اصل میں اوپن ٹرائل ہوگا اور اسے خفیہ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ قانون میں خفیہ ٹرائل کی اجازت نہیں۔ وزارت قانون کا نوٹیفکیشن ڈپٹی سیکریٹری حکومت پاکستان محمد عمر عزیز نے جاری کیا تھا۔ جسٹس ناصر الملک قابل احترام اور اچھی ساکھ کے حامل ماہر قانون ہیں، لیکن انہوں نے مستقل بنیادوں پر احتساب عدالت کو مزید دو ریفرنسز کی سماعت کیلئے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی منظوری دی۔ یہ واضح ہوگیا کہ ٹرائل کا اگلا حصہ الیکشن کے بعد آگے بڑھے گا، اور نوٹیفکیشن منسوخ کر دیا گیا۔ صرف یہی نہیں، وفاقی حکومت سندھ اور پنجاب میں سیاسی کارکنوں کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں اور نیب اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کے غیر معمولی اقدامات پر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سینئر سیاسی رہنمائوں، الیکشن امیدواروں اور سیاسی جماعت کے دیگر کارکنوں کو نیب کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی مہم کے الزامات پر ملک بھر میں تنقید کے بعد نیب نے اعلان کیا کہ وہ 25؍ جولائی کے دن الیکشن تک کسی امیدوار کو گرفتار نہیں کرے گا۔ لیکن مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ قمر الاسلام کو اس اعلان سے قبل گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اب بھی جیل میں ہیں اور انہیں اپنی الیکشن مہم چلانے نہیں دی جا رہی۔ ان کے چھوٹے بچے ان کی مہم چلا رہے ہیں۔ قمر کو چوہدری نثار کے خلاف الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ دیے جانے سے ایک دن بعد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ناصر الملک کی قیادت میں وفاقی حکومت شفاف اور منصفانہ الیکشن کے انعقاد کی ذمہ دار ہے اور اس کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ صدر کو ایڈوائس دے کہ وہ ایسا آرڈیننس جاری کریں جس سے انتخابات کے انعقاد اور نئے وزیراعظم کے انتخاب تک گرفتاریوں اور نیب کے سمن کی صورت میں ہونے والی انتخابی انجینئرنگ کو روکا جا سکے۔ ایک اور معاملہ یہ بھی ہے کہ ن لیگی امیدوار حنیف عباسی کا کیس برسوں سے چل رہا تھا لیکن اس کا فیصلہ بھی 21؍ جولائی کو سنایا جا رہا ہے۔ حنیف عباسی کیخلاف فیصلہ آنے کی صورت میں وہ الیکشن نہیں لڑ پائیں گے کیونکہ یہ فیصلہ الیکشن سے صرف چار دن پہلے سنایا جا رہا ہے۔ نیب مستقل اور روزانہ کی بنیاد پر مختلف امیدواروں کو طلب کر رہا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ دیر تک انتظار کرایا جائے تاکہ ان امیدواروں کا انتخابی مہم کا قیمتی وقت زیادہ سے زیادہ ضایع ہو۔

تازہ ترین