• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجلس عمل کے پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائیگی،فضل الرحمٰن

مجلس عمل کے پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائیگی،فضل الرحمٰن

کراچی(جنگ نیوز)جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی، ایم ایم اے کے حق میں بہت اچھی فضا ہے اس کا احترام ہر ادارے کو کرنا چاہئے، 2018ء کے الیکشن پی ٹی آئی کے لیے آخری الیکشن ہوں گے اس کے بعد بکھر جائے گی،پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی نے کہا کہ ہزارہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بننے جارہا ہے، کوہستان کے علاوہ باقی چھ سیٹیں تحریک انصاف بڑی سبقت سے جیتے گی۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق ،قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ ،اے این پی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی ، پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی، ڈی آئی خان سے آزاد امیدوار وقار احمد خان، پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور اور ن لیگ کے رہنما امیر مقام سے بھی گفتگو کی گئی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں ہمارا مقابلہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، ایم ایم اے ایک بار پھر بڑی طاقت کے طور پرابھرے گی۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ الیکشن میں بہت محنت کررہے ہیں، ہمارے امیدوار دولتمند نہیں مگر ان کی عوام میں جڑیں ہیں۔اے این پی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ اے این پی 2013ء کے مقابلہ میں اس الیکشن میں بہتر نتائج دے گی، خیبرپختونخوا میں کسی ایک جماعت سے نہیں تمام جماعتوں سے مقابلہ ہے، کچھ اضلاع میں جمعیت علمائے اسلام، کچھ میں جماعت اسلامی ، کچھ میں پی ٹی آئی اور کچھ علاقوں میں مسلم لیگ سے مقابلہ ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل انتخابات کے بعد صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی، عوامی لہرا یک بار پھر ایم ایم اے کو چاہتی ہے، 2002ء میں ایم ایم اے کی حکومت کامیاب تجربہ رہا، اس وقت ایم ایم اے کے حق میں بہت اچھی فضا ہے اس کا احترام ہر ادارے کو کرنا چاہئے، ماضی میں جو ہمارے ساتھ ہوا اس لئے میں یہ لفظ استعمال کررہا ہوں، اس وقت جو تاثر قائم کیا گیا ہے نتائج اس کے الٹ ہوں گے، نتائج سے بہت سے لوگوں کو حیرانی اور پریشانی ہوگی۔مولانا فضل الرحمن کا کہناتھا کہ ایم ایم اے نے فیصلہ کیا ہے کہ پالیسیاں برابری کی بنیاد پر طے کریں گے اور نمائندگی اکثریت اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہوگی، 2002ء میں ہر پارٹی کو کوٹہ کے اندر رہتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اجازت تھی آج بھی اسی اصول پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جارہی ہے، اگر کوئی پارٹی سمجھتی ہے کہ اسے جہاں کوٹہ دیا گیا وہاں وہ انتخابی ضرورت کے تحت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے، خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، کچھ حلقوں میں اے این پی سے بھی مقابلہ ہوسکتا ہے، 2018ء کے الیکشن پی ٹی آئی کے آخری الیکشن ہوں گے اس کے بعد بکھر جائے گی۔ ن لیگ کے رہنما امیر مقام نے کہا کہ ہزارہ خاص طور پر ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ ہمیشہ مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، پشتون بیلٹ میں ن لیگ انتہائی کمزور رہی ہے، پچھلے انتخابات میں ہم نے خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی صرف چار نشستیں جیتی تھیں، اس میں تین نشستیں ہزارہ جبکہ صرف ایک سیٹ پشتون بیلٹ سے شانگلہ سے جیتی تھی، 2013ء کے مقابلہ میں یہاں ن لیگ کی مقبولیت بڑھی ہے، 2018ء کے انتخابات میں ن لیگ خیبرپختونخوا سے گیارہ بارہ نشستیں جیت سکتی ہے، خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں مولانا فضل الرحمن کی حیثیت ہے، پشاور ویلی میں اے این پی کی اچھی پوزیشن رہی ہے۔این اے 38سے تحریک انصاف کے امیدوار علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پی ٹی آئی اس حلقہ سے جیتے گی، خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے عوام کافی خوش ہیں، میری خواہش ہے کہ اس حلقہ میں تمام یوسیز سے مولانا فضل الرحمن کو ہراؤں، ہماری حکومت سے پہلے ڈی آئی خان کو پسماندہ رکھا گیا۔پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی نے کہا کہ ہزارہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بننے جارہا ہے، کوہستان کے علاوہ باقی چھ سیٹیں تحریک انصاف بڑی سبقت سے جیتے گی، کوہستان میں تمام آزاد امیدوار کھڑے ہیں اور انہی میں سے لوگ جیتیں گے، تحریک انصاف کو کچھ صوبائی سیٹوں پر مقابلہ کرنا پڑسکتا ہے۔ این اے 38 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ یہاں پیپلز پارٹی کا مقابلہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، جے یو آئی کا امیدوار یہاں سے مضبوط مخالف ہے، اس حلقہ میں ہمیشہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے درمیان مقابلہ رہا ہے، پچھلی دفعہ پی ٹی آئی کا امیدوار بہت کم مارجن سے یہاں سے جیتا تھا، 2013ء میں خراب صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی نے ڈی آئی خان کے دو حلقوں سے سوا لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، سینیٹر وقار ہر پانچ سال بعد لاہور سے یہاں آتے ہیں، وہ جس نام سے مشہور ہیں سب کو پتا ہے۔ این اے 38 اور این اے 39 ڈیرہ اسماعیل خان سے آزاد امیدوار سابق سینیٹر وقار احمد خان نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں، کسی پارٹی سے منسلک ہو کر ان کے ایجنڈے پر کام کرنا نہیں چاہتا اسی لئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہا ہوں،میں نے انتخابی نشان تالا اس لئے منتخب کیا کہ عوام کی تقدیر پر انہوں نے تالا لگایا ہوا ہے، یہ تالا عوام کے ووٹ کی کنجی سے کھلے گا اور موروثی سیاست پر لگ جائے گا۔

تازہ ترین