• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی مراسلہ…محمد سلمان
الیکشن 2018 میں حصہ لینے والے امیدواروں نے اپنے اپنے اثاثے، جائیداد اور اپنی بیویوں کے سونے کے زیورات کی جو تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ہیں، ان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ سب ارب پتی اور کروڑ پتی افراد ہیں، بہ الفاظ دیگر ان کو صاحب ثروت افرادمیں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو غریب لوگوں کے مسائل حل کرنے سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جن لوگوں کو زندگی میں کبھی کوئی مشکل ہی پیش نہ آئی ہو۔ یہ لوگ صرف ووٹ حاصل کرنے اور غریب لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ان کے مسائل حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد تو کبھی ان کی شکل بھی نظر نہیں آتی۔ اگر کبھی ان کی شکل نظر آبھی جائے تو ان کے ارد گرد سیکورٹی کے نام پر اتنا زبردست حصار قائم ہوتا ہے کہ عام آدمی تو ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا، ان کے سامنے صرف اور صرف اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اس معاملے میں تمام پارٹیوں اور تمام لیڈروں کا طرز عمل ایک ہی جیسا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں الیکشن کی حیثیت ایک کاروبار کی ہے اس پر وہ رقم اسی امید پر لگاتے ہیں کہ یہ ساری رقم منافع کے ساتھ وصول ہوجائے گی۔ خدمت خلق کا جذبہ ان کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ اگر واقعی ان کےدل میں خدمت خلق کا کوئی جذبہ ہوتا تو وہ الیکشن میں حصہ لئے بغیر بھی عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں دلچسپی لیتے۔ بہرحال ان سب لوگوں نے اپنے اثاثے صحیح طور پر ظاہرنہیں کئے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے ان تمام افراد کی زرعی اور غیر زرعی زمین ’’جائیداد‘‘ مکانات اور محلات ان کی بیویوں کے سونے کے زیورات، ہیرے اور جواہرات، گاڑیاں اور نقد رقوم اور فیکٹریوںسے ملکی اور غیر ملکی قرضے ادا کئے جائیں۔ ان لوگوں کے پاس صرف ایک گاڑی اور رہائش کے لئے درمیانہ درجے کا ایک مکان رہنے دیا جائے۔ اس معاملے میں کسی سےکوئی رعایت نہ کی جائے، اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ وطن عزیز ’’پاکستان‘‘ میں بسنے والے لوگو ں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اوریہ ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہلاتا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اللہ کے محبوب نبی کریمﷺ کے ہر ہر حکم پر عمل کرے۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ صاحب ثروت افرادرضا کارانہ طور پر بلامعاوضہ خدمات انجام دیں ، جولوگ مالی طور پرکمزور ہیں ہوں، وہ ایک اوسط درجےکے سرکاری ملازم یعنی پندرہ سولہ گریڈ کے ملازم کے مساوی سرکاری خزانے سے ماہانہ تنخواہ لے سکتے ہیں اس سے زیادہ معاوضہ لینے کا ان کو کوئی حق نہیں،الیکشن میں کامیابی حاصل کرنےکے لئے جو لوگ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوں انہیں کون غریب کہہ سکتا ہے، ان اراکین سینیٹ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو رضا کارانہ طور پر بلا معاوضہ خدمات انجام دینی چاہئے ان میں سے کسی کو ایک پیسہ بھی سرکاری خزانے سے نہیں دینا چاہئے، البتہ سرکاری طور پر مختلف کاموں کے لئے آنے جانے کے لئے ان کو اخراجات ادا کئےجاسکتے ہیں۔درخواست ہے کہ اراکین سینیٹ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے حلقو ں میں کرائے جانے والے تمام کام سرکاری نگرانی میں کرائے جائیں اس کے لئے براہ راست کسی کو کوئی بھی فنڈ اور رقم نہ دی جائے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار بطور ضمانت جورقم جمع کراتےہیں، وہ ساری رقوم بھی سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائیں اور اس میں سے کوئی رقم بھی امیدواروں کو کسی بھی صورت میں واپس نہ کی جائے اس کے علاوہ جو لوگ کئی کئی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ان سے ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کے تمام اخراجات وصول کئے جائیں ۔ کسی بھی حلقے سے کامیاب اس امیدوار کو قرار دیا جائے جو اسی علاقے کے مجموعی ووٹوں کا 51% حاصل کرے اس سے کم ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں اس حلقے سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ الیکشن کرایا جائے اس سلسلے میں ہونے والے تمام اخراجات ان دونوں انتخابی امیدواروں سے وصول کئے جائیں۔ ملک کو مالی مشکلات سے نجات دلانے کےلئے ضروری ہےکہ ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔
تازہ ترین