• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن وہی قابل قبول ہوتا ہے جس میں ساری سیاسی جماعتیں حصہ لیں، چاہے بائیس برس بعد عدالت اس پر مداخلت یا دھاندلی کا الزام ثابت کر دے۔ کسی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کو سیاسی میدان سے نکالنے کا صرف وہی فیصلہ تاریخ تسلیم کرتی ہے جو عوام کریں۔ سیاستدانوں اور سیاسی قوتوں پر جتنے فیصلے اور پابندیاں حکمرانوں یا عدالتوں نے لاگو کیں ہیں اور عوام کے علاوہ جب بھی کسی حکومتی مشینری یا قانونی ضابطے نے کسی سیاستدان کو ڈس کوالیفائی کیا، وہ فیصلہ محض وقتی ثابت ہوا اورحرف غلط کی مانند مٹ گیا۔ ایوب خان نے ایبڈو لگایا، اس سے قبل پروڈا تھا، کچھ سیاستدانوں پر مالی کرپشن کے الزام لگے اور کچھ پر بغاوت کے لیکن نتیجہ ہمیشہ سیاستدانوں کے حق میں نکلتا رہا۔ اسی عمل کے نتیجے کے طور پر شیخ مجیب الرحمن ہیرو بن گیا۔ ایوب خان نے جتنے سیاستدانوں پر الزامات لگا کر پابندی لگائی، وہ چند ہی برسوںمیںایوب خان کے خلاف متحد ہوگئے حتیٰ کہ اسے نکلوا کر دم لیا۔ چنانچہ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ عوام اور صرف عوام ہی جس سیاستدان یا سیاسی جماعت کو پذیرائی سے محروم رکھ کر نااہل قرار دیں صرف وہی جماعت سیاسی موت مرتی ہے ورنہ حکومتی پابندیاں تو سیاسی قوتوں کو اونچا اڑانے کا باعث بنتی ہیں۔ تحریک استقلال ایک سیاسی قوت بن کر ابھری تھی۔ امریکی اور یورپی میڈیا نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایئر مارشل اصغر خان کو مستقبل کا حکمران قرار دے دیا تھا آج کہاں ہے تحریک استقلال اور کہاں ہیں ہمارے دیانتدار اور اہل سیاستدان جناب اصغر خان؟ ۔ اس حوالے سے ہمارے عوام بھی خوب ہیں۔ پہلے لٹیروں، جھوٹوں اور نااہلوں کو ووٹ دیتے ہیں پھر روتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود ہماری رائے عامہ نہ بالغ ہوئی نہ باشعور۔ ابھی انہیں اچھے برے کی تمیز سیکھنے میں کتنا وقت لگے گا خدا ہی بہتر جانتا ہے فی الحال توہماری رائے عامہ جذبات کا شکار ہو کر جذبات کے تحت ووٹ دیتی ہے نہ کہ بالغ شعور کے تحت....!! یہ جذباتی مزاج، برادری ازم، علاقائی وفاداریاں، مقامی تعصبات اور روپے پیسے کا کھیل کب ختم ہوگا، صرف میرا رب جانتا ہے، ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ رائے عامہ کو باشعور اور بالغ بنانے کے لئے تین چار الیکشن کافی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ کلیہ بھی تقریباً ناکام ہو چکا ہے۔ آخری امید میڈیا کی آزادی سے وابستہ ہے جس کا امتحان 2013ءکے انتخابات ہوں گے۔ میرے نزدیک اگلے سال کے انتخابات ہماری تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہوں گے اور ان میں بھی اگر رائے دہندگان نے اپنی پرانی روش نہ بدلی اور کارکردگی سے قطع نظر جذباتی لگن، برادری، صوبائی عصبیت، مقامی وفاداری اور دولت کی چمک کے تحت ووٹ دیئے تو سمجھ لیجئے کہ جمہوریت کے سورج کو سورج گہن لگ جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رائے دہندگان کی روائتی روش کو بدلا جائے اور ان میں ایماندار، صاحب کردار اور اہل امیدواروں کو ووٹ دینے کا جذبہ ابھارا جائے اور اس حوالے سے ان کی ذہنی تربیت کی جائے۔
ہاں تو وہ مہربان جو مائینس ون (Minus One)کی بات کرتے ہیں میں انہیں اپنے تجربے کی بنا پر سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کا فارمولا کبھی کامیاب نہیں ہوا۔کسے سیاست میں رہنا ہے اور کسے بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلے جانا ہے اس کا وہی فیصلہ قبول ہوگا جو عوام کریں گے۔ 1945-46کے انتخابات سے لے کر2008ءکے انتخابات تک کا یہی سبق اور یہی تاریخی نچوڑ ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے نے نئے مواقع اور نئی جہتوں کو جنم دیا ہے لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ پی پی پی اور اس کے حکمران اس فیصلے کو صرف سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے استعمال کریں گے، مسلم لگ ن کی قیادت پر کوڑے برسانے اور انہیں سیاسی طور پر ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے مہم چلائیں گے نہ کہ میاں برادران کو ڈس کوالیفائی یا نااہل کرکے میدان سیاست سے نکلوانے کے لئے۔ اول تو پیسے لینے کا الزام ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ بھی عجب الف لیلوی داستان ہے۔ کون مانے گا کہ میاں نواز شریف نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں یونس حبیب سے رقم پکڑ لی اور بیٹے کے حوالے کردی۔ یونس حبیب کا کہنا ہے کہ وہ جب رقم دینے گئے تو میاں صاحب لوگوں میں گھرے ہوئے تھے۔ بھلا اس طرح کی رقم تنہائی میں لی جاتی ہے یا لوگوں کے سامنے؟ یونس حبیب کا کہنا ہے کہ اس نے میاں شہباز شریف کو رقم ٹی ٹی کے ذریعے بھجوائی۔ میاں شہباز کچی گولیاں نہیں کھیلتا، بھلا وہ رقم ٹی ٹی کے ذریعے یعنی ثبوت کے ساتھ کیونکر وصول کرے گا۔ دوم ابھی تو ایف آئی اے متحرک نہیں ہوئی جب ہوگی تو کیا انکوائری کرسکے گی اور اگر کرے گی تو انتخابات تک مکمل کرسکے گی یا نہیں؟ سوم خود پی پی پی پر بھی 1993ءکے انتخابات میں اور کچھ اور اہم سیاسی مواقع پر یونس حبیب سے رقمیں لینے کا الزام ہے۔ کیا اس پنڈورا باکس کو کھول کر خود پی پی پی اپنے پاﺅں پر کلہاڑا مارے گی۔ ویسے پی پی پی کی ”ہارڈ کور“ یہ سمجھتی ہے کہ اگر اس کی قیادت پر اربوں کے ان گنت سیکنڈل اثر انداز نہیں ہوئے تو بھلا یونس حبیب کا کروڑوں کا الزام اس کا کیا بگاڑ لے گا۔ یہ ان کا تجاہل عارفانہ ہے کیونکہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد صورت بدل چکی ہے۔ جو کلہاڑا میاں برادران پر چلے گا، وہی پی پی پی کی قیادت پر چلے گا۔
اس ساری صورتحال، سیاسی پیش رفت اور مفروضوں کو دریا کے کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکمرانوں نے اصغر خان مقدے کے فیصلے کا سہارا لےکر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سیاسی عمل سے نکالنے کا سامان کیا تو یہ انتخابات مشکوک ہو جائیں گے اور قوم کو ناقابل قبول ہوں گے۔تاریخ کے تجربات کا نچوڑ یہی ہے کہ اگر قومی سطح کی پارٹی کا راستہ روک دیا جائے تو انتخابی نتائج راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور آندھی کے دوش پر اڑ جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں 1971ءمیں آرمی ایکشن کے کئی ماہ بعد یحییٰ حکومت نے عوامی لیگ کے بغیر انتخابات کروائے، ان کا کیا حشر ہوا؟ 1977ءمیں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد پی این اے نے دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ بھٹو نے اپنی مقبولیت کے زور پر پی این اے کے بغیر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروادیئے۔ ان انتخابات کا انجام کیا ہوا؟ اب پھر ملک دوراہے پر کھڑا ہے۔ کوئی بڑا اقدام کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر دیکھ لیجئے اور اپنی تاریخ پر نظر دوڑا لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ معصومیت اور بھولپن میں مارے جائیں۔ جو لوگ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے، میں انہیں ان پڑھ نہیں کہتا بلکہ معصوم اور بھولے کہتا ہوں۔
نوٹ: گزشتہ کالم میں مرحوم جسٹس کیانی کی تقریروں کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ پابندیوں کا مارا پریس انہیں خوب اچھا لگا تھا۔ کمپوزر نے اسے خوب اچھا لگتا تھا بنا دیا۔ قارئین نوٹ فرما لیں۔
تازہ ترین