• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت برسوں کی زبوں حالی کے بعدجس کا گراف سابقہ منتخب حکومت کے دور میں تمام عالمی اداروں کے مطابق ایک ڈیڑھ سال پہلے تک بیشتر حوالوں سے مسلسل اوپر جارہا تھا، ملک میں مسلسل سیاسی خلفشار اوراداروں کے درمیان کشیدگی کے نتیجے میں ایک بار پھر تیزی سے رو بہ زوال ہے ۔ تجارتی خسارہ ایک سال میں 26 ارب ڈالر سے بڑھ کر31 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔پاکستانی کرنسی پورے خطے میں پست ترین سطح پر آگئی ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز گھٹتے چلے جارہے ہیں۔ملک پر بیرونی اور مقامی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہاہے۔ ان حالات میںایک خیال یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نگراں حکومت کے لیے جس کی اصل ذمہ داری شفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کو ضروری معاونت فراہم کرنا ہے، معیشت کو زمیں بوس ہونے سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا لازمی ہوگیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق صورت حال سے نمٹنے کیلئے ایک منی بجٹ لانے پر غور کیا بھی جارہا ہے ۔ دی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ عہدیدار نے توثیق کی ہے کہ7200کی تمام ٹیرف لائنوں کی اضافی کسٹم ڈیوٹی پر 1فیصد اضافے یا 1550 سے زائدلگژری اشیاء پرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کے لیے سوچ بچارجاری ہے۔اگر اضافی کسٹم ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے تواس کے ریونیو پر تو شاید کچھ مثبت اثرات ہوں لیکن صنعتی شعبے پر اس اقدام کے منفی اثرات یقینی نظر آتے ہیں کیوں کہ خام مال کی قیمت بڑھنے سے اشیاء کی تیاری کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس تجویز پر نگراں حکومت 25 جو لا ئی کے انتخابات سے قبل کابینہ کے اجلاس میں نئی حکومت کے قیام سے قبل فیصلہ کرسکتی ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز روبعمل آگئی تو ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کی شکل میں اس کے شدید منفی اثرات کا مرتب ہونا بالکل یقینی ہے جبکہ قومی کرنسی کی بے وقعتی کے سبب مہنگائی کا عفریت پہلے ہی بے قابو ہوچکا ہے۔ لہٰذا بظاہر بہتر یہی نظر آتا ہے کہ نگراں حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام پر مجبور نہ ہونا پڑے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو ۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات کے بعد منتخب حکومت اور پوری سیاسی قیادت ایک مستقل اور پائیدار قومی اقتصادی حکمت عملی وضع کرے۔ اس حکمت عملی کی تشکیل میں نہ صرف پارلیمنٹ کو مکمل طور پر شریک رکھا جائے بلکہ قومی سطح پر وسیع تر مشاورت کا اہتمام بھی کیا جائے ۔ ملک کے اندر اور باہر موجود پاکستان کے زیادہ سے زیادہ ایسے تمام اقتصادی ماہرین کو اس عمل میں شریک کیا جائے جو مختلف ملکوں اور اداروں میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ممتاز مقام کے حامل قرار پائے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجوں اور ان کے ممکنہ حل پر نتیجہ خیز مباحث کا اہتمام کیا جائے اور اس طرح حتی الامکان زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کے ساتھ ایسی معاشی حکمت عملی طے کی جائے جو تسلسل کے ساتھ جاری رہ سکے اور حکومتوں کے آنے جانے سے جس میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ بیرون ملک سینکڑوں ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کی شکل میں راہ ہموار ہوگئی ہے لہٰذا اب اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام ضروری ہے۔اللہ کے فضل سے یہ ملک باصلاحیت افرادی قوت اور بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ پائیدار اور مسلسل معاشی ترقی کے لیے محض وقتی اقدامات کافی نہیں ہوتے، اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام، منتخب حکومتوں کو کسی خلفشار اور افرتفری کے بغیر کام کرنے کے مواقع اور ماحول کی فراہمی، قومی وسائل کو لوٹ کھسوٹ سے بچانے اور ہر شہری کو فوری اور مفت انصاف مہیا کرنے کی خاطر تمام اداروں اور شعبہ ہائے زندگی کے وابستگان کے یکساں ، شفاف، غیر جانبدار اور بے لاگ احتساب کے مستقل اور خودکار نظام کا فعال رہنا اور افرادی قوت کی قومی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت کے لیے پوری قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم کا روبعمل لایا جانا اور ہر شعبے اور پھر سطح پر صرف میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے۔

تازہ ترین