• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس نے ملک کے عدالتی نظام کے70برس پر محیط نقائص دور کرنے کے لئے بڑے پیمانے اصلاحات کی جو منظوری دی ہے بلاشبہ یہ نظام کو موثر بنانے کی طرف اہم ترین قدم ہے جن پر ٹھوس انداز میں عملدرآمد کو یقینی بنانے سے انصاف کے حصول کی پائیدار عمارت قائم ہو سکے گی۔ گو کہ اس اقدام کا دائرہ کار فی الحال پنجاب تک محدود ہے امید واثق ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اس سب سے بڑے صوبے سے حاصل ہونے والے ثمر آور تجربات کی روشنی میں اسے ملک کے دوسرے صوبوں تک پھیلانے میں مدد ملے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس میاں یاور علی خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے مشاورت کے بعدجو رولز کمیٹی قائم کی تھی، اس کی تیار کردہ سفارشات فل کورٹ نے منظور کر کے حکومت پنجاب کو بھجوا دی ہیں کابینہ کی منظوری کے بعد گورنر ان ترامیم پر دستخط کریں گے جس کے بعد پورے صوبے میں سول مقدمات کا فیصلہ 6ماہ میں ہوگا جبکہ حکم امتناعی سمیت دیگر متفرق درخواستوں پر فیصلہ صرف ایک ہفتے میں سنایا جائے گا مدعی یا مخالف فریق کو آئندہ تاریخ نہیں دی جائے گی اور غیر ضروری طور پر کیس کو التوا میں ڈالنے پر دونوں فریقوں میں سے کسی کو بھی جرمانہ ہو گا۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ سول مقدمات ٹھوس ہونے پر ہی قابل سماعت قرار دیئے جائیں گے۔ مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی جبکہ اصلاحات کا آغاز قصور، جہلم اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں یکم ستمبر سے ہو گا۔ بلاشبہ فل کورٹ اجلاس میں منظور کی گئی سفارشات وہ بنیادی نکات ہیں جن سے بدعنوانی، بدنیتی کی حوصلہ شکنی اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان بارہا مختلف مواقع پر کمزور استغاثے کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے عدالتی اصلاحات کا جو قدم اٹھایا، نقائص سے پاک معاشرے کے قیام میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین