• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔انتخابی نتائج2018پاکستان کی سمت کا تعین کریں گے۔بین الاقوامی میڈیا حالیہ انتخابات کو ملکی تاریخ کے متنازع ترین الیکشن قرار دے رہا ہے۔تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتو ں کو الیکشن کمیشن اورنگرانوں سے شکایات ہیں۔باقی رہی سہی کسر کچھ عدالتی فیصلوں نے پوری کردی ہے۔صرف مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو نااہل کرنے سے ادارے کی ساکھ پر شدید نوعیت کا سوالیہ نشان لگا ہے۔عین ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن کے جن امیدواروں کو سزائیں دی گئی ہیں،وہ درست اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو ۔مگر جس ٹائمنگ کا انتخاب کیا گیا ہے،وہ بہت غیر مناسب تھی۔پورے ملک میںتاثر گیا ہے کہ شاید جیتنے والے گھوڑوں کو میدان سے باہر کرنے کے لئے نااہلیاں کی گئیں ہیں۔یہ کسی بھی طرح سے فیئر پلے نہیں ہے۔گزشتہ چند ہفتے پہلے تک سب اچھا نظر آرہا تھا۔تمام منصوبے باآسانی کامیاب ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزا کے بعد تحریک انصاف کے لئے ماحول مزید سازگار ہوگیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کا ووٹر مایوس ہوکر گھروں کا رخ کررہا تھا۔مگر گزشتہ چند دنوں کے دوران صورتحال نے مکمل پلٹا کھایا ہے۔
نوازشریف کے خلا ف فیصلہ آنے کے باوجود شہباز شریف نے ہمت نہیں ہاری۔شہباز شریف نامساعد حالات کے باوجود مسلسل انتخابی مہم چلاتے رہے ۔ایک ایک دن میں تین تین جلسوں نے ووٹر کے حوصلے پست نہیں ہونے دئیے۔جبکہ شہباز شریف کی اس جدوجہد کو ایندھن نوازشریف نے 13جولائی کو لاہور آکر مہیا کردیا۔نوازشریف کی خلاف توقع پاکستان واپسی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔مسلم لیگ ن کے ووٹر کو آکسیجن نوازشریف کی واپسی نے فراہم کی ہے۔نوازشریف کی واپسی کی خبر سن کر بھی اداروں کو اطمینان تھا۔سب توقع لگائے بیٹھے تھے کہ مسلم لیگ ن کے کارکنان لاہور ائیر پورٹ کا رخ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ لاہور ائیر پور ٹ کے چاروں اطراف کا جائزہ لیا جائے تو اس کے تین اطراف کینٹ آتا ہے۔کینٹ انتظامیہ نے دو روز قبل خاموش اعلامیہ جاری کردیا تھا کہ کینٹ میں صرف رہائشی اور ایسے افراد داخل ہوسکتے ہیں،جن کے پاس ائیرپورٹ کے ٹکٹ موجود ہوں۔اس کے علاوہ کسی غیر متعلقہ آدمی کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔جبکہ کینٹ سمیت ائیر پورٹ کو جانے والے چوتھے راستے یعنی رنگ روڈ پر رینجرز،پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔یعنی اگر کوئی بھی جلوس اس طرف جاتا تو ٹکراؤ کا شدید خطرہ تھا۔نوازشریف کی آمد پر ریلی نکالنے کا مقصد تھا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر کاخوف دور کیا جاسکے اور اسے انتخابات کے لئے بھرپور چارج کیا جائے۔اگر انتخابات سے 10روز قبل مسلم لیگ ن کے کارکنان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گتھم گتھا ہوتے تو فائدہ کس کا ہونا تھا؟ ایسا کرنے سے نہ صر ف مسلم لیگ ن کے ووٹر،سپورٹر اور کارکنان کی بہت بڑی تعداد جیلوں میں ہوتی بلکہ ہر روز گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جارہے ہوتے۔مگر شہباز شریف کی دانشمندی نے سیاسی شطرنج کی ساری بازی پلٹ کر رکھ دی۔نوازشریف سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے ووٹرز کی بہت بڑی تعداد بھی باہر آگئی،ووٹر کا خوف بھی دور ہوگیا جبکہ مسلم لیگ ن کو کوئی بڑا نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑا۔مسلم لیگ ن نے13جولائی کو کچھ نہیں کیا تو دہشتگردی کے مقدمات درج ہوئے ہیں،اگر کچھ کرتے تو کیا صورتحال ہونی تھی۔ریلی،احتجاجی دھرنے اور لانگ مارچ تو 25جولائی کے بعد کی حکمت عملی کا حصہ ہونے چاہئیں۔اگر یہ سب کچھ مسلم لیگ عام انتخابات سے قبل کرتی تو صاف ظاہر ہے ا س سے انتخابات کے بر وقت انعقاد پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا تھا۔اس لئے 13جولائی کو مسلم لیگ ن کے اکابرین نے زبردست حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا۔
قارئین سے اگلی ملاقات ہونے تک انتخابات 2018کے نتائج سامنے آچکے ہونگے۔کوئی بھی جماعت الیکشن جیتے مگر اداروں کا تقدس ضرور برقرار رہنا چاہئے۔مگر حالیہ صورتحال میں مجھے ایسی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔جو کچھ اب تک ہوچکا ہے۔اس کے آنے والے دنوں میں نتائج سب کے سامنے ہونگے۔سینئر صحافی حامد میر نے گزشتہ کالم میں خوب لکھا ہے کہ "ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو 25جولائی کے بعدملک میں ایک بہت بڑاسیاسی طوفان آئے گااور اگر مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی،ایم ایم اے،اے این پی اور کچھ دیگر اہم جماعتیں اکٹھی ہوگئیںتو اس دفعہ نہ تو ق لیگ کام آئے گی اور نہ جیپ والے کسی کی مدد کرسکیں گے۔دو ریاستی اداروں کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے جیلیں بھرنی پڑ جائیں گی،اڈیالہ جیل چھوٹی پڑ جائے گی"اسی طرح سے سلیم صافی کاکالم"کاش ۔اے کاش"بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھانے کے لئے کافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کا ووٹر آج بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑا ہے۔عمران خان کو الیکٹیبلز کے بل بوتے پر مقبول بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔مگر نوازشریف کی واپسی نے الیکٹیبلز کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔جہلم ،لاہور ،فیصل آباد،جھنگ کے جلسے سب کے سامنے ہیں۔قارئین گوگل پر جاکر خان صاحب کے خطاب کے دوران ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔بلاول بھٹو کو بھی جی ٹی روڈ پر اچھا رسپانس ملا ہے۔لگتا ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آنے والا ووٹر واپس اپنے گھر لوٹ رہا ہے۔ایسی صورتحال میں اگر کسی ایک جماعت کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تو واقعی بڑا سیاسی طوفان آئے گا۔پاکستان میں25جولائی کے بعد استحکام نظر نہیں آرہا۔غیر یقینی اور انتشار میں اضافہ ہوگا۔معاشی بحران ہمار ا انتظار کررہا ہے۔کسی نے خوب لکھا ہے کہ اس انا کی جنگ میں پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔گزشتہ دنوں سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ نے بھی خوب لکھا ہے کہ کسی شخص یا ادارے کی انا سے ملک کی سالمیت اور وقار کہیں زیادہ اہم ہے"۔ براہ کرم قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو ایسی اندھیری گلی میں مت دھکیلیں جس میں جلد وہ کیفیت آجائے کہ آگے کنواں ہو اور پیچھے کھائی۔پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔عام انتخابات کا فاتح جو بھی ہو مگر میں قائداعظم اور اس کے پاکستان کو ہارتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین