• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا،جب کراچی کا شمار پاکستان کے ہی نہیں پوری دنیا کے بہترین شہروں میں ہوتا تھا، پاکستان کا دارالحکومت تھا،سمندر تھا۔ صنعتی ترقی زوروں پر تھی،پورے ملک سے اس شہر میں تلاش روز گار کے لئے نوجوان کھنچے چلے آتے تھے۔ اس شہر کو گلدستے سے بھی تشبیہ دی جاتی تھی۔ روشنیوں کا بھی شہر کہتے تھے ۔ دن اور رات میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا، شہری رات گئے تک سیر سپاٹے کرتے تھے۔ یہ واحد شہر تھا ، جس میں پانچوں قومیں ہنسی خوشی مل کر رہتی تھیں۔ پھر اس شہر کو کسی دشمن کی نظر لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر قومیتوں میں تقسیم ہوتا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہبی تقسیم بڑھی، عوام مذہب سے دور ہو گئے اور ہر کوئی اپنے آپ کو سندھی ، مہاجر ، پٹھان، بلوچ اور پنجابی کہلوانے میں فخر محسوس کرنے لگا۔ پاکستانی صرف پاکستان سے باہر جا کر پاکستانی کہلواتا تھا اور پھر واپس پاکستان آکر وہی سندھی ، مہاجر ، پنجابی اور پٹھان بن جاتا تھا۔ آج اگر ہم اس کراچی شہر کا تجزیہ کریں تو اس شہر کی خوبصورتی کو گہن لگ چکا ہے ۔ پورے شہر کا بٹوارہ ہو چکا ہے ، کسی علاقے میں پٹھان آبادیاں ہیں تو کسی دوسرے علاقے میں مہاجروں کی اکثریت ہے۔ شہر سے باہر سندھی اور بلوچوں کی آبادی ہے تو درمیان میں پنجابی بولنے والے آج اگر آپ ائیر پورٹ سے باہر شہر کی سڑک پر آئیں گے تو شاہراہ فیصل پر پاکستان کا جھنڈا نظر نہیں آتا۔ تمام قومیتوں کے رنگ برنگے جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور مقامی سیاستدانوں کی نمایاں تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ صرف اور صرف مقامی سیاست پر زور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے آئے دن شہر میں ایک دوسرے کیخلاف ایسے جملے استعمال ہو رہے ہیں، جس سے دوبارہ اس شہر میں قتل و غارت کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ رینجرز ۔ فوج ، عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس پر نظر رکھیں۔ بڑی بڑی صنعتیں ختم ہو رہی ہیں۔ صنعتکار ، تاجر حضرات بغیر بھتے کے کوئی کاروبار نہیں کر سکتے ۔ بڑے بڑے صنعتکار تو اپنے بچوں کو باہر بھیج چکے ہیں اور اپنا کاروبار اونے پونے داموں بیچ کر کچھ پنجاب کا رخ کر رہے ہیں اور زیادہ تر دبئی کا رخ کر رہے ہیں۔
بہت ساری ٹیکسٹائل ملیں بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہیں۔ غیر ملکی یہاں نہیں آرہے ہیں۔ تمام تر کاروباری سودے دبئی میں ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے آخری دور میں حکومت کافی پریشان رہی ہے ۔ حکومت عدلیہ کے ساتھ تنازع میں الجھی رہی۔ زیادہ تر ملکی سرمایہ بیرون ملک جا چکا ہے۔ پہلے یہ سرمایہ دبئی میں جا کر لٹا اور اب دوبارہ گردش میں ہے ۔ دہشت گردی کھلے عام ہورہی ہے ، اغوا برائے تاوان بھی ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے ۔ ڈالر 130روپے کے قریب پہنچ چکا ہے ، پیٹرول 100روپے سے بھی زیادہ کا ہوگیا اور ڈیزل تو اب پیٹرول سے بھی اوپر جا چکا ہے ۔ چند دنوں بعد گیس بھی 100روپے سے زیادہ ہو جائے گی۔ پھر ہم کیسے دنیا بھر سے کاروبار کر سکیں گے۔ بھارت کے روپے کے مقابلے میں ہمارا روپیہ آدھے سے بھی کم ہو چکا ہے ۔ اب اگر بھارتی تاجر ہمارے روپے سے کاروبار کریں گے تو رہا سہا سرمایہ بھی بھارت مع کاروبار منتقل ہو جائے گا۔
پاکستان کے مستقبل کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے ، بلوچستان میںبھی حالات بے قابو ہورہے ہیں ۔ دن دہاڑے غیربلوچیوں کو گاڑیوں سے اتار کر قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھونا جا رہا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے ہی الیکشن مہم کے دوران خودکش دھماکے میں 130قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور 170کے قریب زخمی اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دوسرا واقعہ پشاور میں رونما ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ لیڈر ہارون بلور کو خودکش دھماکے میں 22افراد کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ اس سے پہلے ان کے والد بشیر بلور کو بھی اسی طرح خود کش دھماکے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ آج تک کسی ایک بھی واردات کا سراغ نہیں لگ سکا۔ چیف جسٹس بلوچستان بار بار انتظامیہ کو خبردار کرتے رہتے ہیں ۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ کل کیا ہونے والا ہے ، سب کو معلوم ہے مگر سب نے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ ہم کب تک اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مارتے رہیں گے ۔ الیکشن سر پر ہیں اور تمام پارٹیوں کے لیڈر ایک دوسرے کیلئے غیر مذہب الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو یہی سکھائیں گے ؟عوام تذبذب میں کہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں۔ تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنائیںاور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اُچھالیں۔ ہم دن رات اپنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں ، کیا آسمان سے فرشتے آئیں گے اور اس ملک کو بچائیں گے ۔ قوم کے بچوںکا مستقبل تاریک ہو رہا ہے ۔ سوچو خدارا سوچو !اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دنیا کو ہم پہلے ہی ناراض کر چکے ۔مسلم لیگ (ن) والے کہہ رہے ہیں کہ اگر الیکشن صحیح نہیں ہوئے تو ہم رزلٹ نہیں مانیں گے۔ اور عمران خان کو ویسے ہی وزیرآعظم بننے کا شوق ہے۔مگر جب سے نواز شریف صاحب واپس آئے ہیںان کے تمام جلسے ماند پڑ گئے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین