• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض لوگ ہمیں کچھ ضرورت سے زیادہ ڈرا رہے ہیں۔ وہ جنہیں اپنی دال جمہوریت کے تسلسل میں گلتی نظر نہیں آتی اور جو بڑی سیاسی جماعتوں یا اس کی قیادت کے بارے میں اینٹیلکچول تعصب کے شکار ہیں ‘ انہیںخواہ مخواہ جمہوریت پٹڑی سے اترتی نظر آرہی ہے لیکن نہ تو فوج کا ایسا کوئی ارادہ نظر آتا ہے ‘ نہ عدلیہ غیرجمہوری عمل کو شہہ دینے کے لئے تیار ہے اور نہ سیاسی قیادت ماضی کی طرح ناپختگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ فوج کو پچھلے پانچ سالوں میں کئی مواقع ملے لیکن جنرل کیانی نے سیاست میں براہ راست مداخلت سے گریز کیا۔ وہ لکھنے پڑھنے والے دانشور قسم کے جرنیل ہیں اور ملک کو درپیش خطرات اور فوج کے سامنے موجود چیلنجز سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ دوسرے طبقات کو بھی متوجہ کرتے رہتے ہیں ۔ جو بیان انہوں نے دیا ہے اس میں میڈیا اور عدلیہ سے شکوہ بھی ہے اور کسی حد تک غصہ بھی نظرآتا ہے لیکن اسی بیان میں آئین کے ساتھ کمٹمنٹ کا اظہار بھی ہے۔ اس بیان میں یہ بات کہ ”کسی فرد یا ادارہ کو قومی مفاد کے تعین کا اختیار نہیں “ اگر واقعی فوجی قیادت کی سوچ بن گئی ہے تو یہ صرف مثبت پیشرفت نہیں بلکہ بڑا فکری انقلاب ہے۔ ماضی میں تو صرف فوج اپنے آپ کو قومی مفاد کے تعین اور اس کی تشریح کا ٹھیکیدار سمجھ رہی تھی اور اب اگر اس کی قیادت کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کا اختیار نہیں تو یہ نہایت مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہے ۔ انتظامی اور معاشی میدانوں میں سیاسی قیادت کی نااہلی اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن جمہوری اقدار کے حوالے سے اس کا رویہ بھی کافی بہتر ہوا ہے۔
یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ وفاقی کابینہ کے ارکان عدالتی احکامات کے تحت گرفتار ہوئے ۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر منتخب وزیراعظم گھر بھیج دیئے گئے اور جواب میں سیاسی قیادت نے کوئی بڑا فساد برپا نہیں کیا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ منتخب حکومت پانچ سالہ مدت پوری کررہی ہے اور اس کو گرانے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک سامنے آئی اور نہ لانگ مارچ کرائے گئے ۔ مصلحت تھی یا اصلاح فکر موجب بنی لیکن بہرحال یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ سب سے بڑی اپوزیشن جمہوری حکومت کے خلاف مدد مانگنے کے لئے جی ایچ کیو گئی اور نہ کسی سازش کا حصہ بنی۔ اسی طرح عدلیہ کے کردار میں بھی کافی بہتری آئی ہے ۔ بلاشبہ بعض حوالوں سے اس کے بعض فیصلوں میں سیاست اور ادارہ جاتی مفاد کا رنگ غالب نظر آتا ہے ۔ اسی طرح کمنٹس دیتے اور فیصلے سناتے وقت گیلری کو مدنظر رکھنے کی شکایت بھی عام ہے لیکن بحیثیت مجموعی عدلیہ کا رول بھی آئین کی بالادستی کا موجب بن رہا ہے ۔
ماضی کی طرح عدلیہ جمہوری حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ساز باز میں ملوث ہوئی اور نہ اب آمادہ نظر آتی ہے ۔ یوں بظاہر جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں اور جنرل اسلم بیگ کی تلقین کے باوجود عسکری قیادت کسی مہم جوئی کے موڈ میں نظر نہیں آتی لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اداروں کے مابین تناﺅ موجود ہے ۔ اپنی غلطیوں کے اعتراف کی بجائے ہر ادارہ دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھارہا ہے ۔ اپنی اصلاح کی بجائے ہر ادارہ”پہلے آپ“ کا نعرہ بلند کرکے مقابل ادارے کے ٹھیک ہوجانے کا منتظر ہے ۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اداروں کے مابین مباحثہ تو چل پڑا ہے لیکن مکالمہ نہیں ہورہا ہے ۔ یہ مباحثہ بے ربط بھی ہے اور غیرسنجیدہ بھی ۔ اس میں اصلاح احوال کی کوشش کی بجائے کیچڑ اچھالنے کا عنصر نمایاں ہے ۔ مثلاً عدلیہ اپنے آپ کو تو تنقید سے بالاتر سمجھتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے میڈیا کی زبان بندی کے لئے فیصلہ بھی دے دیا ہے لیکن وہ دیگر اداروں پر تنقید کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ۔ اسی طرح جنرل اسلم بیگ جیسے فوج کے خودساختہ ترجمان یہ کہہ کر کہ”سیاستدان فوجیوں جتنے محترم نہیں کیوں کہ فوج کی قربانی سیاستدانوں کی قربانی سے زیادہ ہے“ ایک قبیح تفریق کی بنیاد ڈال رہے ہیں ۔ جنرل جاوید اشرف قاضی اور جنرل سعیدالظفر جیسے بعض ریٹائرڈ جرنیل جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد چوہدری شجاعت حسین کے زیرکمانڈ سیاسی حیثیت میں ”کارنامے“ سرانجام دیئے‘ فوجیوں کو خطوط یا پھر الماس بوبی کو ووٹ دینے کی تلقین کے ذریعے اپنے آپ کو فوج کے ساتھ بریکٹ کررہے ہیں ۔ سیاستدان یا تو تماشہ دیکھ رہے ہیں یا پھر مذکورہ اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کئی مواقع پر زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) اور فوج کو لڑانے کی کوشش کی اور اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے میمو کیس کے ذریعے فوج اور زرداری صاحب کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراءکرنے کی کوشش کی ۔ اب بھی مسلم لیگ (ن) کی یہ کوشش ہے کہ وہ عدلیہ کو حکومت کے خلاف ورغلائے اور حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہ فوج اور مسلم لیگ (ن) کے مابین فاصلے بڑھائے ۔ بدقسمتی سے جنرل پاشا کے دور میں تحریک انصاف کی سپورٹ اور میڈیا کے ساتھ چھیڑخانی کے نتیجے میں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف سیاسی اور صحافتی حلقوں میں جو غبار جمع ہوگیا تھا ‘ وہ بھی اب ایک ساتھ نکلنے لگا ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ تنقید کرنے والے صحافی اور سیاستدان بعض اوقات ایسے غیرمناسب الفاظ کا استعمال کررہے ہوتے ہیں جن میں غصے کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوج کا پلڑا بھاری تھاتو وہ مصر تھی کہ اس کے ماضی کو بھلا دیا جائے لیکن وہ سیاستدانوں کے ساتھ ماضی کی بنیاد پر حساب کررہی تھی جبکہ اب عدلیہ اور میڈیا کا اصرار ہے کہ اس کے ماضی کے گناہوں کا تو ذکر نہ کیا جائے لیکن وہ فوج کے ماضی کو ٹٹول رہے ہیں ۔
سیاستدان کبھی تو این آر او کے ذریعے اور کبھی اگر مگر کے ذریعے اپنی ماضی کو چھپا رہے ہیں لیکن فوج کے ماضی کو بھلانے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔ اہل سیاست اور اہل صحافت ان روٹ کازز (پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی ‘ ناقص افغان پالیسی اور وار آن ٹرر وغیرہ) پر تو توجہ نہیں دے رہے جن کی وجہ سے پاکستان نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ بنا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو غیرمعمولی طاقت اور اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور جس کی وجہ سے ان کا سیاست میں بھی عمل دخل بڑھ گیا ہے لیکن تقریروں‘ تبصروں اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے راتوں رات پاکستان کو برطانیہ بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جو لوگ مذکورہ حوالوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ہمنوا ہیں ‘ جرنیلوں کے خلاف نعرے لگا کر بھی پاکستان میں جمہوریت کے عدم استحکام کا موجب بن رہے ہیں ۔
دوسری طرف اداروں کے مسائل اور مجبوریوں ‘ ان کے حدود کے تعین اور پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کے معاملا ت سے متعلق اداروں کے مابین کوئی مکالمہ نہیں ہورہا ۔ یوں اگر یہ بے ربط مباحثہ طول پکڑتا ہے اور سنجیدہ مکالمے کا اہتمام نہیں ہوتا تو نہ چاہتے ہوئے بھی ادارے تناﺅ سے آگے تصادم کی طرف گامزن ہوں گے اور پھر غیرارادی طور پر بھی کوئی ادارہ ملک اور خود اپنے آپ کو بھی حادثے سے دوچار کرسکتا ہے ۔ یوں بے ربط مباحثے کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف کیچڑاچھالنے کی بجائے ایک ایسے مکالمے کا اہتمام ضروری ہے کہ جس میں فوج‘ عدلیہ‘ سیاستدان‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کے سرخیل کھل کر اپنا ذہن سامنے رکھ دے اور پھر سب کی ترجیحات ‘ مجبوریوں اور خدشات کے مطابق آئینی حدود سے موافق ایک نیا سوشل کنٹریکٹ اور لائن آف ایکشن متعین کیا جاسکے۔
تازہ ترین