• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں امریکہ میں انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ کیسے انتخابات تھے؟ نہ کوئی دھوم دھڑکا، نہ کوئی گولی چلی، نہ ہنگامہ، نہ دنگا نہ فساد نہ بلوے۔ نہ وائٹ ہاﺅس میں کوئی خفیہ انتخابی سیل۔ انتخابی نتائج شام گئے تک امریکہ کے چاروں ٹائم زونوں سے آنے بھی شروع ہوگئے۔ بمشکل دو گھنٹوں کے اندر اندر انتخابات ہار جانے والے صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے بڑی خندہ پیشانی اور وقار سے انتخابات کے نتائج تسلیم کر بھی لئے۔ وہ رات صدر اوباما کی رات تھی۔ فیض کا مصرعہ امریکہ میں تاریخ نے پھر دہرایا”ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے“۔
سینڈی جیسے تاریخی تباہ کن طوفان میں بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے بلکہ1843ءسے لیکر (انگریزوں کے ہاتھوں سندھ فتح کرنے کا سال بھی یہی ہے) آج تک امریکہ میں کبھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت اپنا کام کرتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ ریاستوں کے سپریم کورٹوں کے جسٹسز اور بہت سی جگہوں پر پولیس کے سربراہان بھی انتخابات میں چنے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف تو شوق سے امریکہ کے باوردی صدر جارج واشنگٹن کی مثالیں دیکر اپنی غیر آئینی و غیر پاپولر حکومت کا جواز گھڑتے رہتے تھے۔ بل کلنٹن نے تو جنوبی ایشیا کے دورے کے دوران پاکستان میں قیام کے وقت ان سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ بس پھر 11ستمبر2001ءکو امریکہ پر دہشت گرد حملہ ہوا اور اس میں امریکہ میں صدر بش اور پاکستان میں پرویز مشرف کی دکانیں چل نکلیں۔
میں سوچ رہا ہوں اب جبکہ امریکہ میں دہائی کی جنگ ختم ہوگی تو پھر اس خطے میں مستقبل کے آمر اور آج کے فوجی طالع آزما کیا بیچیں گے؟ دہائی پر محیط جنگ کا خاتمہ، ایک برداشت کرنے والا امریکہ، وہ کہ جس کے ساحلوں کی طرف دوست لپک کر آئیں نہ کہ دنیا اسے اپنا دشمن سمجھے۔ صدر اوباما کی منتخب ہونے والی جشن کی رات کی تقریر کا اہم پیغام یہی تھا۔
خیر، امریکی انتخابات کی باتیں تو برسبیل تذکرہ نکل آئیں لیکن ہمارے ہاں تو جمہوریت ابھی نوزائیدہ بتائی جاتی ہے۔65 سالہ پاکستان میں فقط 18 سال جمہوریت چلی باقی فوجی اور نیم فوجی راج۔ اب بھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے، قائد تحریک کا پاکستان ہے کہ القاعدہ کا پاکستان! جمہوریت اتنی نوزائیدہ کہ وہ بھاری بھر کم بوٹوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ تو ہم نے انتخابات کے نتائج اور سابقہ مشرقی بنگال کے لوگوں کے مینڈیٹ کو ماننے کے بجائے ان کی پشتوں کے کشتے لگا دیئے۔ بنگالی تو ایک ہزار میل دور تھے کا عذر پیش کیا جاتا ہے لیکن سندھیوں اور بلوچوں کا مینڈیٹ بھی دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ پختونوں کو اپنے صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھوانے میں ڈیڑہ سو سال لگ گئے (جن میں 65 سال وطن عزیز میں عمر کے)۔ سندھ نے اپنا مینڈیٹ منوانے کی کوششوں میں تین وزرائے اعظم کی قربانیاں دی ہیں لیکن جمہوریت ہے کہ اب بھی نوزائیدہ ہے۔ رضیہ غنڈوں کے نرغے میں پھنسی ہے یا کہ سوہنی بیچ چناب یا سندھو کے ہزاروں مگرمچھوں کے نرغے میں ہے۔ بس ایک طلسم سامری ہے۔ بقول سندھی شاعر تنویر عباسی کے ” سامری کا حکم ہے کہ چپ رہو، سانپ کو رسی اور رسی کو سانپ کہو۔ مجھے یہ تب یاد آیا جب پچھلے دنوں ملک کی سب سے طاقتور شخصیت اور فوج کے سربراہ جنرل کیانی کا بیان آیا کہ حالیہ دنوں میں عدالتوں اور احتساب میں مجرم قرار دیئے جانے والے جرنیلوں کو ملزم ہی گردانا جائے، مجرم نہ کہا جائے۔ یہ بیان پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سول سروسز کے عملداروں سے خطاب کے دن آیا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دن گئے جب ملکی استحکام ٹینکوں اور بندوقوں کے بل بوتے پر قائم رکھا جاتا تھا یعنی عدلیہ اور میڈیا دونوں کو گیگ آرڈر (منہ بند رکھنے کو) جاری کردیئے گئے۔
آئی ایس پی آر کے ” تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے، سمجھا دیا گیا ہے۔ تصور کریں کہ کیا پڑوسی ملک بھارت کی فوج کا سربراہ کبھی ایسا بیان دے سکتا ہے؟ بھارت تو چھوڑیں برما کے جنرل بھی اب ایسے بیانات سے اجتناب برتنے لگے ہیں لیکن یہ پیارا پاکستان ہے جہاں وزرائے اعظم سیکورٹی رسک قرار دیئے جاتے ہیں۔ان کی واسکٹوں (ویسٹ کوٹوں) کے کالروں میں بھی خفیہ مائیک فٹ کئے جاتے ہیں۔ صدر کو جب کوئی ایسی بات کرنی ہوتی ہے تو احباب انہیں کمرے سے باہر آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انتخابات آنے کو کہا تو گیا ہے لیکن ان کے نہ فقط ملتوی ہونے کے بہانے بتائے جارہے ہیں بلکہ سوال یہ کہ سب سے پُرامن بوہرہ کیمونٹی پر کراچی اور حیدرآباد سندھ میں آئے دن حملے کہیں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو اپنے کام سے باز رکھنے کے پریشر حربے تو نہیں؟ لیکن فخرو بھائی ظاہر ہے کہ ان حربوں سے گھبرا کر گھر جانے والے نہیں۔
اور اب سپریم کورٹ نے ایئر مارشل اصغر خان کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں انہوں نے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے خلاف سخت ترین کاروائی کا حکم دیا ہے۔
2دسمبر1988ءکو ایوان صدر کی غالباً پانچویں منزل پر بینظیر بھٹو کے بطور پاکستان کی وزیراعظم صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں حلف اٹھانے والی تقریب میں جب پچھلی کرسیوں سے جیکب آباد کے ایک جیالے نے ” زندہ ہے بھٹو زندہ ہے “کا نعرہ لگایا تھا تو تقریب میں اگلی صف میں براجمان اعلیٰ فوجی حکام کی کڑکدار وردیوں میں سلوٹیں پڑ گئی ہوں گی بلکہ ان کی بھنویں تھی کہ چند سیکنڈوں کے لئے کھنچ گئی تھیں۔ بقول میرے ایک دوست کے تب ہی جنریلوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ بینظیر کو پھر نہیں آنے دینا۔ صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرتے وقت اپنے عزیز ہم وطنوں والے قوم سے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ” یہاں تک کہ ملک دشمن اور جرائم پیشہ افراد ایوان صدر میں دندناتے پھرتے دکھائی دیئے۔
سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں جنرلوں کی طرف سے داخل حلف ناموں میں کہا گیا ہے کہ آئی جے آئی بنانے کی ضرورت اسی لئے پیش آئی کہ” بینظیر بھٹو سیکورٹی رسک بن گئی تھیں۔ الذوالفقار سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو پی آئی اے اور سیکورٹی اداروں میں نوکریاں دی گئی تھیں۔ یہ عجیب و غریب محب وطن ریاستی ادارے ہیں جو ان اداروں کی ہی طرف سے الذوالفقار کے سب سے بڑے ملزم قرار دیئے جانے والے غلام مصطفی کھر کو بینظیر بھٹو کے پاس یہ پیغام دیکر بھیجتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کے خاتمے کے پیچھے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو دوش دینا ترک کر دیں اور پھر اسی غلام مصطفی کھر کو وفاق میں وزیر اور ایک اور الذوالفقار کے بڑے ملزم جام صادق علی کو سندھ میں وزیر اعلیٰ بناتے ہیں۔ انہی اداروں نے کھر اور جام صادق علی کو را کا مبینہ ایجنٹ بتایا تھا۔
لیکن سندھی نوجوانوں اور پی پی پی کارکنوں کو دو چند اچھی نوکریاں دینے کو وطن دشمنی قرار دیتے ہیں۔ ان نوکریاں لینے والوں میں سے کتنوں پر مقدمے چلا کر ان کی وطن دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت کیا گیا ؟ پھر اسی سیکورٹی رسک بینظیر سے دوسری بار حکومت میں آنے پر نیوکلیئر میزائل ٹیکنالوجی پروگرام منظور کرایا گیا اور کام نکل جانے پر اسے فارغ کردیا گیا۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے بقول کہ”بینظیر کا قتل کوئی مقامی سطح کے کمانڈروں کا فیصلہ نہیں، ایک اسٹریٹجک قتل تھا“۔
شاید اسی لئے تو قاتلوں کو قاتل نہ کہنا بھی عظیم قومی مفادات میں گردانا گیا پھر یہ بھی شاید ”اسٹریٹجی کا حصہ ہوگا کہ آصف زرداری کو جیلوں میں رکھنے کے بجائے مع ان کے مال مویشیوں اور شطرنجی چالوں کے ایوان صدر میں رکھا جائے۔
وہ بادشاہ ہوں، گھوڑے ہوں، فیل ہوں کہ وزیر
اگر کوئی غور سے دیکھے تو محض پیادے ہیں
(امجد اسلام امجد)
ملک کے ہزاروں لاپتہ لوگ بغیر کسی مقدمہ چلائے جانے، جرم ثابت ہونے کے بعد برسوں سے نامعلوم مقامات پر اٹھاکر قید و عقوبت گھروں میں پھینک دیئے گئے ہیں۔ ماورائے عدالت سزائے موت دیکر مسخ شدہ لاشوں کی صورت پھینک دیئے جاتے ہیں لیکن ان کے اٹھانے والوں یا ایسا حکم دینے والوں کو آپ اغوا کار نہیں کہہ سکتے۔ بقول میرے ایک دوست کہ اس ملک میں مجرم صرف آپ بھٹوﺅں کو کہہ سکتے ہیں باقی سب کرنل فرشتے بستے ہیں۔
تازہ ترین